• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم اُس دیس کے باسی تھے اور ہیں، جہاں خواتین کو قومی دھارے میں لانے اور سمجھنے پر سینکڑوں سوال اُٹھتے اور اُٹھائے جاتے ہیں۔ اُنہی باسیوں میں سے ایک میں بھی ہوں، جسے یقیں نہ تھا کہ کوئی خاتون فہم و فراست میں اِس قدر باکمال، جرأت میں اِس قدر بےمثال اور سیاست میں اتنی زیرک بھی ہو سکتی ہے۔ پھر میں وہ باسی کہ جو یہ سمجھتا کہ بھٹو کا سابقہ و لاحقہ لگنے سے کوئی ذوالفقار علی بھٹو تھوڑی ہو جاتا ہے۔ میرے یہ سوالات میرے جیسے کئی اور لوگوں (مردوں) کے ذہن میں تھے، جو خود کلامی اور گفت و شنید میں جوابات ڈھونڈتے رہتے مگر اِن سب سوالوں کے جواب بی بی نے رفتہ رفتہ دیے، کچھ جواب دانش، کچھ عمل اور کچھ اپنی خاموشیوں سے!

خیر، بی ایس سی کا ایک طالب علم جو اسلامی جمعیت طلبہ کیلئے سرگرم تھا، وہ اُس وقت طلبہ سیاست میں سنٹرل جیل گوجرانوالہ میں تھا کہ اُنہی دنوں جرنیل نے اپنے ہی جمہوری وزیراعظم جونیجو کی حکومت کو، آمرانہ روش کو جلا بخشنے کیلئے چلتا کیا۔ گویا وہ ایک نظریہ سے جڑا نوجوان تھا مگر ایک دن وہ بھی’’خاتون مفروضے‘‘ کے سب زاویوں کو پرکھنے کی خاطر دوپہر تین بجے کے ایک جلسے میں جاتا ہے مگر تیرہ چودہ گھنٹے انتظار پر اُس وقت مجبور ہو جاتا ہے جب اُس لیڈر کے منتظر دیگر لوگوں کے جوش اور ولولے کو دیکھتا ہے حتیٰ کہ سحر کا وقت آ پہنچتا ہے جب وہ لیڈر پہنچتی ہے۔ جب بولی تو جعلی شیریں بیانی نہ تھی، اندر سے نکلی بات اور خوش الحانی لگی، ایسا محسوس ہوا جیسے کسی قلندر کی شعلہ بیانی ہے۔

1986کی اُس سحر نے اِس طالب علم پر بہرحال یہ منکشف کردیا کہ فولادی جذبوں سے سرشار اِس خاتون کا مقابلہ ایک طرف گر آمریت سے ہے تو دوسری طرف جاہلیت سے بھی، اُسے ایک ایسے کلچر اور تربیت و طبیعت سے بھی سیاسی جنگ لڑنا پڑے گی جو عورت کو ووٹ دینا کفر کے مترادف سمجھتی ہے۔ وہ سوچتا ہی رہ گیا، ایک جانب وہ کارکنان کہ جو لاہور سے پیدل گوجرانوالہ تک قافلے کے ساتھ آگئے، دوسری جانب اِس قدر مخالف کہ رہے نام اللہ کا۔ سیاسی و ثقافتی و مذہبی ایکوسسٹم کو دیکھ کر وہ سوچتا رہا کہ یہ خاتون لیڈر سیاسی و جمہوری جدوجہد کرے گی یا تہذیبوں کے تصادم کی لہروں کی طغیانیوں سے لڑے گی؟ چونکہ وہ نوجوان روایتی علمائے کرام سے اردو میڈیم علمائے دین اور سیاسی عمائدین سے سماجی زعماء تک میں ابتدائی ایام سے بیٹھتا تھا چنانچہ وہ حامی و مخالف زاویوں سے بھی دیکھتا۔ مخالفت یا حب نہ سہی، بغض میں کہنا آسان ہے کہ ’’لیگیسی ہے، جی۔ ارے وراثت ہے۔ میراث کا معاملہ ہے جی!‘‘ لیکن وہ نوجوان سوچتا کہ شاعرِ مشرق سے مولانا مودودی تک، ایوب خان سے ضیاء الحق تک کوئی وراثت لے کر تو نہ چل پایا کیونکہ سیاسی ماحولیات اِس ارتقاء کے گرد گھومتی ہے جس میں بقائے دوام اور نیچرل سلیکشن ایک قابلِ غور معاملہ ہے۔ وراثتوں کی ضمانتیں، بقا کی صداقتیں، فطری چناؤ کی رفاقتیں، پُرخار پگڈنڈیوں کی مسافتیں اور مقتدر مخالف مدافعتیں، جان ہتھیلی پر مانگتی ہیں! کیا یہ سب آسان ہے؟ وہ نوجوان اِس لئے یہ سب سوچتا تھا کہ، حصولِ کامیابی کیلئے وہ سو دن کی چلا کشی نہ کر سکا کہ سی ایس ایس ہو جائے۔ ایف ایس سی میں تین ماہ کا تعلیمی اعتکاف نہ کر سکا کہ اپنی اور والدین کی منشا پوری کرے اور ڈاکٹر بن جائے۔ ترقی اور قدر و منزلت اور کرسی کون نہیں چاہتا؟ کیا ہر کوئی عمل کی شاہراہ پر چل پاتا ہے؟

بہرحال وقت کے تھپیڑوں اور فضائی رعنائیوں اور کئی امتحانوں کے سنگ سنگ چل کر جب وہ نوجوان، نعیم مسعود بنتا ہے، تو دیکھتا ہے کہ 21جون 1953میں پیدا ہونے والی، آکسفورڈ سے ہارورڈ تک کی تعلیمی ایکالوجی سے فیض یاب، 1988تا 90پہلی دفعہ وزیراعظم۔ 1993تا 96پھر وزیراعظم بن کر دونوں دفعہ ضیائی باقیات کی کاری ضربوں سے اپنے ادوار مکمل نہ کر پانے والی، جسے لوگ خاندانی بدلہ لینے والی شیرنی سمجھتے وہ کہتی ہے ’’جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے‘‘ اور اِسی راہ پر چل کر ضیائی باقیات کو جمہوریت کا راستہ دکھاتے ہوئے میثاقِ جمہوریت کر دکھاتی ہے! وزیراعظم باپ کی بےجا پھانسی کے بعد پابندِ سلاسل رہنے اور جلا وطنی کاٹنے والی، مغربیت ترک کرکے مشرقیت پر چلنے والی، عالمِ اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم اور دخترِ مشرق کہلانے والی جب 27دسمبر 2007کو بےدرد بارود کا نشانہ بن کر اِس جہان فانی سے کوچ کرتی ہے تو امیر جماعت اسلامی سے دیگر مولویوں کی نظر میں شہید کہلاتی ہے۔ وہ بےنظیر، بےنظیر ہوئی کہ نہ؟ راقم کو تو بہرحال ماننا پڑا تھا کہ جو بھی ہے وہ لیڈر ہے!

وقت گزرتا جاتا ہے، پرویز مشرف کے دور آمریت کے آخری ایام تھے، سابق آرمی چیف جنرل (ر) اسلم بیگ اپنے ایک کالم میں اپنے تجربے و مشاہدے کی بنیاد پر گواہی دیتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ بطور آرمی چیف وزیراعظم بےنظیر سے کہا کہ بھارتی بارڈر پر کشیدگی بڑھ گئی ہے، مجھے حیران کن، دلیرانہ و رہبرانہ جواب ملتا ہے کہ ’’جنرل وار ہیڈ لگا لو!‘‘ اور بھارت پیچھے ہٹ گیا۔ سو سابق آرمی چیف نے اپنے کالم میں واضح تاثر دیا کہ بےنظیر اُس وقت کے آمر سے زیادہ دلیر ہے۔ میں یہ کالم اپنے اُس وقت کے ایک باس ریٹائرڈ بریگیڈیئر محمد افضل خان کے پاس لے کر گیا جو کبھی مشرف کے باس رہے تھے۔ وہ اُس کالم پر تبصرہ کرنے سے قاصر تھے مگر یہ ضرور کہا ’’بات تو سچ ہے مگر میں نے پی پی کے الیکشن 2008جیت جانے کے بعد جنرل(ر) حمید گل کو ایک انٹرویو کی خاطر فون کیا، کہ آصف زرداری کیسے صدر ہوں گے؟ اُس پر وہ جرنیل جو بےنظیر کے اور بےنظیر اُس کے مخالف تھی، نے کہا ’’نعیم مسعود! زرداری صاحب جس قابلِ تعریف اور آئرن لیڈی کے شریک حیات رہے ہیں، وہ بہت کچھ سیکھ چکے لہٰذا وہ درست صدر ہوں گے!‘‘

کھلا یہ راز کہ بےنظیری کیلئے بیک وقت ژرف نگاہی اور قربانی کی نظیر درکار ہے تب جاکر میثاق جمہوریت متشکل ہوتے ہیں!

تازہ ترین