• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الیکشن والی رات اسلام آباد میں باران رحمت ہوئی تو ایسا محسوس ہوا جیسے یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پاکستان کے عوام کے لیے خوشگوار پیغام ہو کہ کس طرح لوگوں نے گزشتہ پانچ سال اس ملک کو تباہی تک پہنچانے والوں کو تاریخ کا حصہ بنادیا۔جیسے ہی باران رحمت ہوئی مجھے6 ستمبر 2008 کا صدارتی انتخاب کا دن یاد آگیا۔ اُس روز جیسے ہی پارلیمنٹ نے صدر زرداری کوواضح اکثریت کے ساتھ پانچ سال کے لیے منتخب کیا توا سلام آباد اور دوسرے علاقوں میں زلزلے کے زبردست جھٹکے محسوس کئے گئے۔ اُس پر کئی لوگوں نے موبائل پیغامات کے ذریعے یہ بات باور کرانے کی کوشش کی کہ صدارتی الیکشن کے موقع پر زلزلے کا آنا کہیں اللہ کی طرف سے ہمارے لیے کوئی وارننگ تو نہ تھی مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے عوام کی ایک بڑی تعداد نے گزشتہ پانچ سال اس ملک پر حکمرانی کرنے والوں کو اپنے لیے ایک عذاب سے کم نہ سمجھا۔گیارہ مئی کے الیکشن کے نتائج سامنے آنے کے ساتھ ہی لوگوں کو ایک سکون کا احساس ہوا۔ ایک صاحب کا کہنا ہے کہ گزشتہ پانچ سال میں جس انداز میں اس ملک میں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم رہا تومجھے ایسا محسوس ہوتا رہا جیسے میرے جسم کو کوئی نوچ نوچ کر کھا رہا ہو مگر گیارہ مئی کے الیکشن کا نتیجہ سنتے ہی ایسا لگا جیسے مجھے بچا لیا گیا ہو۔ اب پاکستان کے لوگ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ یہ دونوں جماعتیں عوام کے مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو درپیش انتہائی سنگین چیلنجز کاسامنا کریں گی۔ امید ہے کہ میاں نواز شریف اور عمران خان سابق حکمرانوں کے ساتھ لیے جانے والے عوامی انتقام سے سبق سیکھتے ہوئے کرپشن، نااہل حکمرانی، لوڈشیڈنگ، مہنگائی، دہشتگردی، بے روزگاری وغیرہ جیسے مسائل کے حل کے لیے دن رات ایک کر یں گے ورنہ ان کا بھی مستقبل تاریک ہو گا۔ وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ ن مستحکم حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے جبکہ خیبرپختون خواہ میں عمران خان کی تحریک انصاف کو حکومت بنانے کے لیے کچھ اتحادیوں کی ضرورت ہو گی۔ نواز شریف اور عمران خان کی حالیہ ملاقات اور دونوں کا مل کر ملک کے بڑے مسائل حل کرنے کا عزم خوش آئند ہے مگر کیا ہی اچھا ہو کہ میاں صاحب پاکستان کی خاطر خیبر پختون خواہ اسمبلی میں ن لیگ کے اراکین کو تحریک انصاف کی حکومت کا حصہ بنے بغیراُسے کام کرنے کا پورا موقع دیں اور حکومت کو گرانے کی کسی بھی کوشش کے نتیجے میں اُسی انداز میں حکومت کا ساتھ دیں جس طرح پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت کو گرانے کی ہر کوشش کو ن لیگ نے ناکام بنایا تھا۔ ماضی میں ن لیگ نے ایک کرپٹ حکومت کو سسٹم کو بچانے کی خاطر سہارا دیا مگر اب پاکستان کی بہتری اور خوشحالی کیلئے میاں صاحب کو اپنی موجودہ پوزیشن سے ایک قدم آگے بڑھ کر اپنے نئے حریف کی حکومت کومضبوطی دینا ہو گی۔ میاں صاحب کے پرانے حریفوں کے برعکس موجودہ حریف عمران خان نہ تو لٹیرا ہے اور نہ ہی چور بلکہ وہ بھی پاکستان کے لیے خلوص نیت سے کچھ کرنا چاہتا ہے جس کا عمران خان کو پورا پورا موقع دینا چاہیے۔
اس موضوع پر میں کچھ اور بھی لکھنا چاہتا تھا مگر ٹی وی چینل کی خبروں میں چلائے جانے والے الطاف حسین کے تازہ خطاب کا کچھ حصہ سن کر حیران رہ گیا۔ کوئی سیاستدان اس طرز کی گفتگو کیسے کر سکتا ہے۔ بغیر کسی لگی لپٹی کھلے عام دھمکیاں دی جا رہی تھیں ۔ زبان اورلہجہ ایسا تھا جو ایک قومی لیڈر کو کسی بھی طور زیب نہیں دیتا۔ یہ سب کچھ مجھے سن کر احساس ہوا جیسے ایم کیو ایم نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔ مجھے ایسا لگا جیسے الطاف حسین اپنے آپ کو اور اپنی پارٹی کو اُس ماضی سے جدا نہیں کرنا چاہتے جسے بحیثیت پاکستانی میں بھی بھول جانا چاہتا ہوں۔ ٹی وی اینکرپرسنز، میڈیا مالکان اور اخبارات میں لکھنے والوں کوللکار کر الطاف حسین کہتے ہیں کہ سدھر جاؤ۔ یہ دھمکی بھی دی گئی کہ اگر ایم کیو ایم کے کروڑوں پیروکاروں میں سے کسی ایک کا متّھا (سر) گھوم گیا اور کسی نے کسی کو ٹھوک دیا (یعنی کسی کو مار دیا)تو پھر الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو الزام نہ دینا۔ صحافیوں کے ایم کیو ایم پر حالیہ اعتراضات کا حوالہ دیتے ہوئے، الطاف حسین نے یہ بھی فرمایا کہ کتے بھونکتے رہتے ہیں مگر کارواں پھر بھی چلتا رہتا ہے۔ انہوں نے اینکر پرسنز کو ”کال کے لونڈے“ کہتے ہوئے کہا کہ وہ انہیں کیا سیاست سکھائیں گے۔انہوں نے صحافیوں کو یہ بھی کہا کہ اینکر پرسنز اور میڈیا مالکان کو بھاگنے کی جگہ بھی نہیں ملے گی۔اپنے خطاب میں الطاف حسین نے فخرو بھائی کو للکارا۔ ابھی چند دن پہلے ہی کراچی کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کی بات کرتے ہوئے الطاف حسین نے تحریک انصاف کی ایم کیو ایم کی طرف سے وسیع پیمانے میں مبینہ دھاندلی کے خلاف تین تلوار چوک کے پاس احتجاج پر کہا ”یہ تین تلوار کے پاس جو مظاہرہ کر رہے ہیں اور بہت شوبازی ہو رہی ہے۔ میں لڑائی جھگڑا چاہتا نہیں ورنہ ابھی حکم دوں تو میرے ساتھی تین تلوار پر پہنچ کر تلواروں کو اصل شکل دے دیں گے میرے ساتھی..... میں کہتا ہوں مخالفت کیجیے آداب اور شائستگی کے دائرے میں ثبوت شواہد کے ساتھ ورنہ میں بہت جلد اپنے ساتھیوں کی مٹھیاں کھولنے والا ہوں۔“ مجھے ذاتی طور پر یہ سب کچھ سن اور پڑھ کر شرم محسوس ہوئی اور افسوس بھی کہ کراچی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اپنے ماضی سے کچھ سیکھنے سے گریزاں ہے۔ ایم کیو ایم اور الطاف حسین ان الفاظ اور دھمکیوں پر جو مرضی کہیں مگر ایک بات یاد رکھیں کہ یہ طرز سیاست نہیں چل سکتی۔ سیاست عوامی خدمت سے زندہ رہ سکتی ہے نہ کہ دھونس اور دھمکی سے۔
تازہ ترین