• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد تحریک انصاف کے قائد عمران خان کی عیادت کے لئے ہسپتال گئے۔ بہت اچھا کیا اور یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ عمران خان نے بھی انہیں خوشدلی سے خوش آمدید کہا۔ میاں نوازشریف نے اگرچہ خیبرپختونخوا میں عمران خان کی پارٹی کا مینڈیٹ تسلیم کرکے اور ان کا وہاں حکومت بنانے کا حق تسلیم کرکے مولانا فضل الرحمن کو ناراض کرلیا ہے لیکن جب کوئی فیصلہ کسی اصول کی بنیاد پر کیا جائے تو اس پر ہر قسم کا ردعمل متوقع ہوتا ہے جس کے لئے ذہن پہلے سے تیار ہوتا ہے۔ نوازشریف کا عمران خان کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے کا فیصلہ اصولی ہے اور بہت اچھا ہے۔ اس پر کمپرومائز ہونا ہی نہیں چاہئے تھا۔ یہ سیاست کا اخلاقی پہلو ہے اور سیاست سے اخلاقیات کو جدا کردیا جائے تو باقی چنگیزی رہ جاتی ہے!
اس امر میں اب بظاہر کوئی شبہ نہیں رہتا کہ پاکستان کے موجودہ انتخابات میں کچھ پولنگ سٹیشنوں پر ووٹوں کی گنتی میں کوئی انسانی غلطی ضرور ہوئی ہے اور ان پولنگ سٹیشنوں میں مسلم لیگ (ن) کے علاوہ تحریک انصاف کے حلقے بھی شامل ہیں۔ یہ مسئلہ بآسانی حل کیا جاسکتا ہے اور یہ جلدی حل بھی ہونا چاہئے تاکہ کسی کے ذہن میں ان انتخابات کے حوالے سے کوئی خلجان نہ رہے۔ نذیر ناجی کاکہنا ہے کہ اس انسانی غلطی کے باوجود اگر تحقیق کی جائے تو سو فیصد سے زیادہ پولنگ والے حلقوں میں ہار جیت کا تناسب وہی رہے گا بہرحال الیکشن کمیشن کو اس ضمن میں ضروری اقدامات کرنا چاہئیں تاہم میری ایک گزارش تحریک ِ انصاف کی فیس بک پلٹن سے بھی ہے اور وہ یہ کہ وہ اپنی باتیں دوسروں کے منہ میں نہ ڈالیں۔ گزشتہ روز جاوید چودھری کے نام سے ایک کالم خود لکھ کر فیس بک پر ڈال دیا گیا ا ور پھر اسے بنیاد بنا کر دھاندلی کا ڈھول پیٹا گیا۔ جاوید چودھری چیختے ہی رہے کہ یہ کالم ان کا نہیں ہے۔ اس سے پہلے یہی ہاتھ مولانا طارق جمیل، طلعت حسین، سلیم صافی، رحیم اللہ یوسف زئی اور کئی دوسری اہم شخصیتوں کے حوالے سے کیا گیا۔ کیا اس دھاندلی کا بھی کوئی علاج ہے؟ یہ لوگ عمران خان کے وہ دوست ہیں جن کے ہوتے ہوئے انہیں کسی دوسرے دشمن کی ضرورت نہیں۔ ان دوست نما دشمنوں نے بہت قابل احترام میڈیا پرسنز کے خلاف جھوٹ اور بہتان پر مشتمل نہایت گھٹیا مہم چلائی۔ ہمارے عوام میں لاکھ خرابیاں ہوں لیکن بنیادی طور پر انہیں اپنی اخلاقیات بہت عزیز ہیں چنانچہ تحریک ِ انصاف کے ان نوجوانوں کی یہ اخلاقی اور بدطینتی کا نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا تھا۔ عوام سے تحریک کو اس کے ان ”ترجمانوں“ کے اخلاق و کردار سے ماپا اور یوں اس عجیب و غریب مخلوق نے تحریک ِ انصاف کے لئے پورس کے ہاتھی ایسا کردارانجام دیا۔ تحریک ِ انصاف کے قائدین کو چاہئے کہ وہ انہیں تمیز سکھائیں ورنہ تحریک کو اس کا خمیازہ مستقبل میں بھی بھگتنا پڑے گا۔ ایک اور بات ان کو سمجھانے کی یہ ہے کہ جمہوریت میں ایک شخص کا ایک ہی ووٹ ہوتاہے خواہ وہ ڈیفنس کے خوشحال علاقے ہی سے کیوں نہ ڈالا گیا ہو اور غریب آدمی کا بھی ایک ہی ووٹ ہوتا ہے خواہ وہ کچی آبادی ہی سے کیوں نہ ڈلا ہو۔ ان کے ذہن میں پاکستان کے خوشحال اور غریب آبادیوں کی شرح بھی ہونا چاہئے کہ وہ سمجھ سکیں کہ خوشحال آبادیوں کے ووٹ غریب آبادیوں سے بہت کم ہیں۔ یہ سب باتیں انہیں سمجھانے کی ہیں۔ میں ان سب نوجوانوں کو ان کے غلط برتاؤ کے باوجود محب وطن پاکستانی سمجھتا ہوں جو ووٹ ڈالنے کے لئے پہلی دفعہ ہی سہی مگر اپنے گھروں سے نکلے۔ یہ کریڈٹ عمران خان کا ہے اور یہ کریڈٹ انہیں ملنا چاہئے۔ عمران خان اگر انہیں جمہوری اور اخلاقی اصولوں کی پاسداری کی اہمیت بھی سمجھا سکیں تو یہ طبقہ نہ صرف عمران خان بلکہ پاکستان کے لئے ایک قیمتی اثاثہ ثابت ہوگا۔ امید ہے نیک نیتی پر مبنی میری ان گزارشات کو اسی تناظر میں دیکھا جائے گا اور ہاں، اس طبقے کے افراد کو، جس میں ایک ”فقیر‘ ‘ دانشور بھی شامل ہے، یہ سمجھانے کی بھی ضرورت کہ ہر وہ شخص جو آپ سے اختلاف کرتا ہے وہ بکاؤ مال نہیں ہوتا۔ وہ اپنے صاحب ِ کردار ہونے کا ڈھنڈورا نہیں پیٹتا لیکن مختلف مواقع پر وہ کروڑوں روپوں پر تھوک چکاہوتا ہے۔ آپ کبھی اس آزمائش سے گزر کر دیکھیں تو آپ کو پتہ چلے کہ درویشی کے لئے کتنی نفس کشی کرنا پڑتی ہے؟
اور آخر میں ایک خواہش کا اظہار! اللہ کرے اس مسئلے پر میرا یہ آخری کالم ہو، اب ہم سب پاکستان کی ترقی اور پاکستانی عوام کی خوشحالی کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ ایک دوسرے سے لڑنے جھگڑنے کا سلسلہ ختم کریں کہ یہ وقت انتشار کا نہیں اتحاد کا ہے۔ ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑیں اور زخمی دلوں پر مرہم رکھیں۔ مخلوق خدا پر رحم کریں تاکہ خدا بھی ہم پر رحم کرے۔ میرے خیال میں اس دعا پر ہم سب کو بآواز ِ بلند ”آمین“ کہنا چاہئے کہ اب اسی میں ہماری نجات ہے۔
رحمن فارس ایک خوبصورت غزل گو نوجوان ہے، مگراس کی تازہ ”غزل“ کچھ اورہی طرح کی ہے اور اس کے باوجود پہلے ہی کی طرح خوبصورت ہے۔ آپ بھی پڑھئے!
تعلیم لے کے آیہٴ لایحزنون سے
زنداں سے تخت تک چلا آیا سکون سے
اے شہر زندہ دل! تو بڑا دل نواز ہے
پھوٹا ہے انقلاب ترے اندرون سے
سارے وطن میں پھیل گئے شیر دل عوام
لڑتا تو کون لڑتا بھلا اس جنون سے
ہر نوجوان ختم بھی ہوتا ہے نون پر
ہر نوجوان شروع بھی ہوتا ہے نون سے
پھوٹی ہے ظلمتوں میں اک امید کی کرن
نورِ سحر عیاں ہے اس اچھے شگون سے
فارس! ہم اہل عشق ہی تبدیلی لائیں گے
لکھیں گے داستان نئی اپنے خون سے
تازہ ترین