• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انتخاب کا مرحلہ مکمل ہوا۔ اہل پاکستان کے نمائندے چنے گئے۔ انتخابات کے نتائج پر نادیدہ انگلیوں کے نشان بھی موجود ہیں اور مختلف حلقوں میں زور آور امیدواروں نے دست کاری کا مظاہرہ بھی کیا۔ تاہم مجموعی نتائج لوگوں کی رائے کا آئینہ ہیں۔ ہماری ثقافت میں شکست تسلیم کرنے کی روایت نہیں چنانچہ تھوڑا بہت رونا دھونا بھی جاری ہے۔ یہ کچھ ایسی تشویش کی بات نہیں۔ گورکن طبع وثیقہ نویسوں نے اس حکومت کے بارے میں جو ابھی قائم نہیں ہوئی دو برس کی عمر کی پیش گوئی بھی کر دی۔ یہ عقل کی بافتوں میں کہنہ اضمحلال کے مایوس مریض ہیں اور ان کی اپنی صحت کا امکان مخدوش ہے۔ حالیہ انتخابات کا روشن ترین پہلو یہ ہے کہ 80 ء اور 90ء کی دہائی میں پیدا ہونے والے تعلیم یافتہ بچوں اور بچیوں نے انتخابی عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ کراچی میں تین تلوار چورنگی اور گلبرگ لاہور کے لبرٹی چوک میں ان بچوں کے تابناک چہرے نظر آئے۔یہ بچے 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد پیدا ہوئے تھے۔ لکھنے والے کی نسل گویا ان بچوں کے ماں باپ کی ہم عصر ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ یہ بچے ایم بی اے یا کمپیوٹر کی تعلیم میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ تاریخ، فلسفے اور سیاست سے انہیں خدا واسطے کا بیر ہے۔سہل پسند ہیں۔ان کی دلچسپیاں فیشن ، ولیمے کی تقریبات اور موبائل فون کے دائرے میں بند ہیں۔ تاریخ میں ہر پرانی نسل کے بزرگوں کی طرح ہماری نسل بھی غلط ثابت ہوئی۔ ارتقاء کا یہی چلن ہے۔ پرانے لوگ نئے آدمی سے ڈرتے ہیں۔ پاکستان کے نوجوان بہت سچے، پیارے اور دیانتدار بچے ہیں۔ پنجابی کے زندہ شاعروں میں ایک عظیم نام نجم حسین سید اپنی ایک خوبصورت نظم میں کہتے ہیں کہ درختوں پہ تازہ ہرے پتے تبھی نکلتے ہیں جب پرانے اور برتے ہوئے پتے جھڑ جاتے ہیں۔ نئے موسموں کا جشن منانے کا صحیح ڈھب یہی ہے کہ وقت کی پگڈنڈی پر ہلکے قدموں سے آگے بڑھنے والوں کے چرنو ں میں شگون کا تیل گرایا جائے۔ انہیں کھلے بازوؤں سے گلے لگا کر ان کے سینے کی حرارت محسوس کی جائے ۔
ہماری تاریخ نے نوجوان جذبوں کے کیف و کم میں ارتقاء پایا ہے۔ اصغر سودائی سیالکوٹ کا ایک نوجوان طالب علم تھا۔1946ء میں اس نے ایک ملّی نظم لکھی تھی۔ پاکستان کا مطلب کیا…جماعت اسلامی والے دوست پاکستان کی موٴثر باماضی تاریخ لکھنے بیٹھتے ہیں تو ایک بیس سالہ نوجوان کی کچی پکی نظم پر مسلم لیگ کے سیاسی مطالبے کی دیوار اٹھاتے ہیں۔ عبدالستار نیازی اب نہیں رہے لیکن ڈاکٹر شبر حسن زندہ ہیں۔ کبھی لاہور میں گلبرگ سے گزر ہو تو ان سے سبط حسن، حمید نظامی اور سی آر اسلم کی جوانی کی کہانی سنئے۔ پاکستان کا ایک جوان بیٹا حسن ناصر تھا۔ حیدرآباد دکن کا یہ سدارتھ کراچی سے ہوتا ہوا لاہور آیا تھا اور پاکستان سنوارنے کے جنون میں شاہی قلعہ کے عقوبت خانے میں جان ہار گیا۔ ایوب خان کے خلاف تحریک کو پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ راولپنڈی کے طالب علم عبدالحمید نے اپنا خون دیا تھا۔ ہماری نسل نے بہت سے زندہ دل اور روشن دماغ بچوں کی قربانی دی لیکن سندھ کا نذیر عباسی، پنجاب کا عثمان طوطی اور بلوچستان کا حمید بلوچ سب سے بازی لے گئے۔ سیاست کے خاردار میں نوجوانوں سے فہم اور طریقہ کار کی غلطیاں بھی سرزد ہوتی ہیں۔ زندہ قومیں اپنے نوجوانوں کو سیکھنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ انہیں بے جا تنقید کا نشانہ بنا کر ان کے پر پرواز پر گرہ نہیں لگاتیں۔
ہمیں سمجھنا چاہئے کہ جو بچے حالیہ برسوں میں سیاسی عمل کا حصہ بنے ہیں انہوں نے اپنے سے پہلے آنے والوں کی غلطیوں کا مداوا کرنے کا حوصلہ کیا ہے۔ یہ بچے بھی غلطیاں کریں گے، ان کے خواب بھی جھوٹے پڑیں گے، ان کے اعتبار کا آبگینہ بھی چکنا چور ہو گا۔ ان میں سے کچھ ملک چھوڑ جائیں گے ،کچھ خواب کا سودا کر لیں گے ، کچھ سمجھوتہ کر لیں گے اور کچھ جاوید اقبال معظم اور آصف بٹ کی طرح آج کی تاریخ لکھنے کا بیڑا اٹھائیں گے۔ ان کے خیالات بھی تبدیل ہوں گے۔ یہ سب ہو گا لیکن ان کا نام لئے بغیر پاکستان کی آئندہ تاریخ مکمل نہیں ہوگی۔ راولپنڈی میں ہائیکورٹ کے ایک نوجوان وکیل آصف محمود جذبے اور خیال کا خوبصورت امتزاج ہیں۔ عدلیہ بحالی کی تحریک چلی تو حضرت جوالا مکھی بن گئے۔ بقول خود پلکوں میں خواب کی آنچ لے کر نکلے تھے۔ خاکسار آمریت کی مخالفت کے علی الرغم وکلا تحریک کے مالہ و ماعلیہ سے شناسائی کا دعویٰ رکھتا تھا۔ حسب توقع اختلاف رائے ہوا۔وہ مرحلہ ختم ہوا ۔ ہماری عدلیہ نئی نصابی لغت میں آزاد عدلیہ قرار پائی۔آصف محمود اب افاقہ محسوس کرتے ہیں۔ صاحب سیاسی عمل میں تاریخ بھی بدلتی ہے اور تماشائی بھی تبدیلی کے عمل سے گزرتے ہیں۔ ہم میں سے کون ایسا گانٹھ کا پورا ہے، جس کے سیاسی خیالات میں کبھی تبدیلی نہیں آئی۔ ہم میں سے کون ایسا دودھ کا دھلا ہے جو کبھی اپنے خیالات میں غلطی پر متنبہ نہیں ہوا۔ بات اتنی ہے کہ جمہوریت میں دلیل کی مدد سے اختلاف کیا جاتا ہے، گالی نہیں دی جاتی۔
حالیہ انتخابات میں رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کے نئے طور طریقے سامنے آئے ہیں۔ جلسے کی روایت ختم ہوئی اب ٹیلی ویژن پر اشتہار اور سوشل میڈیا پر تبادلہ خیال کی ثقافت جنم لے رہی ہے۔ یاسر پیرزادہ درست کہتے ہیں کہ پاکستان کے نوجوان خیال کرتے ہیں کہ پہئے کی ایجاد کا شرف ان کے حصے میں آیا ہے۔ اس تاثر میں کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ فرنگی زبان اور خیال تک ان کی رسائی ایسی بے روک ٹوک ہے کہ ترجمے کی مدد سے انگریزی پڑھنے والی ہماری نسل اس فرّاٹے بھرتی ذہانت کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔تاہم اگر یہ بچے خود کو اپنے بڑوں سے زیادہ ذہین اور اہل سمجھتے ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں۔ جب مولانا مودودی نے خلافت وملوکیت لکھی تو ان کے پڑھنے والوں کی نسل کا بھی یہی خیال تھا کہ ان پر لاسلکی ریڈیو کے ذریعے نئے زمانے کا الہام اترا ہے۔ مجموعی طور پر پسماندہ معاشرے میں تعلیم یافتہ طبقے کی یہ خوش فہمی قابل فہم ہے۔ رانا ثناء اللہ نے ان بچوں کے لئے ممی ڈیڈی اور برگر وغیرہ جیسی اصطلاحات استعمال کر کے زیادتی کی ہے۔سیاسی اختلاف اپنی جگہ لیکن یہ تعلیم یافتہ بچے پاکستان کا حقیقی انسانی سرمایہ ہیں۔ روایت اور رسوخ کے بل پر ان کی توہین کرنا پاکستان کی تذلیل کے مترادف ہے۔ہم اکبر الٰہ آبادی کے وقت سے تعلیم یافتہ طبقے کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ جدت سے برگشتگی کے اس رویّے نے ہم سب کو بالشتیا کر دیا ہے۔ دوسری طرف یہ بچے افتادگان خاک کی اس اکثریت کو جو ہمارے معاشی اور سماجی نظام کی ناانصافی کے باعث تعلیم سے محروم رہی ہے، ان پڑھ اور جاہل قرار دے رہے ہیں۔ یہ بھی غیر متوازن رویہ ہے۔ تعلیم کا بنیادی پیمانہ انسانی احترام، ہمدردی اور تواضع ہے۔ ان بچوں نے خوبصورت کاغذ پہ چھپی کتابیں پڑھ لی ہیں لیکن اب انہیں بتانا چاہئے کہ یہ بھی ہماری طرح ٹیکسٹ بک بورڈ کے ظلم میں زندہ ہیں۔ تعلیم سے ہم اپنے معاشرے کی بہتر خدمت کے قابل ضرور ہوتے ہیں لیکن تعلیم کا مطلب مراعات یافتہ شہری ہونا نہیں۔تعلیم تو ہم پر یہ ذمہ داری عائد کرتی ہے کہ ہم باقی معاشرے کو تعلیم فراہم کرنے کی ذمہ داری اٹھائیں۔ جمہوریت شہریوں کے رتبے اور حقوق کی مساوات کا نام ہے۔پاکستان کو کسی ان پڑھ نے کبھی نقصان نہیں پہنچایا۔ یہ ہم جیسے نیم خواندہ اور برخود غلط طبقوں کی مہربانی ہے کہ ہم آمریت کی قصیدہ خوانی اور جبر کی وکالت کرتے رہے۔ ناانصافی کو دلیل سے سہارا دیتے رہے۔ ہماری سیاست میں باہم احترام اور برداشت کا اکھوا پھوٹ رہا ہے۔ اس پودے کی آبیاری کرنی چاہئے تاکہ پاکستان میں زیادہ مساوات ،زیادہ انصاف اور زیادہ ترقی کی ضمانت دی جا سکے۔
تازہ ترین