• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2020ءکو کورونا کا سال قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔یہ فتنہ خیز وائرس متقی اور پرہیز گار پاکستانیوں میں سے بھی چند ایک سے لپٹ کر انہیں ہدایت کے راستے پر گامزن کرگیا مگر بہت سے اب بھی اسے فحاشی و عریانی کے نتیجے میں نازل ہونے والا عذاب قرار دینے پر مصر ہیں۔کورونا سے متعلق اعداد وشمار کا جائزہ لیتے ہوئے بعض دلچسپ اور حیران کن حقائق سامنے آئے تو سوچا کیوں نہ مظلومیت کا لبادہ اوڑھ کر انہیں قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے۔پاکستان میں تادم تحریر 9874افراد کورونا کے باعث زندگی کی بازی ہار چکے ہیں ۔ سب سے زیادہ اموات پنجا ب کے حصے میں آئیں جہاں3900افراد جاں بحق ہوئے جبکہ سب سے کم اموات بلوچستان میں ہوئیں جہاں 182افراد کورونا کا شکار ہوکر چل بسے۔ سندھ میں 3469جبکہ خیبرپختونخوا میں 1602افراد کورونا میں مبتلا ہوکر دارفانی سے کوچ کر گئے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کورونا نے دیگر صوبوں میں زیادہ تباہی مچائی ہوتی تو ایک بار پھر پنجابی استعمار کی اصطلاح بروئے کار آتی اور پنجاب پر چھوٹے صوبوں کے استحصال کا الزام لگا کر گالیاں دی جاتیں۔

کورونا کو ملحد وائرس قرار دیتے ہوئے لعن طعن کا سامنا رہا ہے مگر اس بیماری سے متعلق اعداد وشمار دیکھتے ہوئے انکشاف ہوا کہ کورونا لادین ہی نہیں بلکہ صنفی امتیاز کا حامل بھی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ کورونا مردوں کو چُن چُن کر مار رہا ہے جبکہ خواتین کی اموات کو محض اس لڑائی کا Collateral Damage، فرینڈلی فائرنگ یا پھر گندم کے ساتھ گھن کا پس جانا کہا جا سکتا ہے۔ گلوبل ہیلتھ ڈیٹا بیس کے مطابق یمن، بنگلہ دیش،تھائی لینڈ، ملاوی، نائیجیریا، افغانستان اور پاکستان سمیت کئی ممالک میں ہونے والی ہلاکتوں میں سے تین چوتھائی تعداد مردوں کی ہے۔بھارت اور میکسیکو میں کورونا کے باعث مرنے والوں میں 64فیصد مرد تھے ۔ترکی اور سربیا سمیت چند ایک ممالک میں کورونا سے ہلاک ہونے والے مردوں کی شرح 62فیصد رہی،برازیل میںکورونا سے مردوں کی شرح اموات58فیصدہے جبکہ امریکہ میں 46فیصد خواتین کے مقابلے میں 54فیصد مرد زندگی کی بازی ہار گئے۔ یہ شرح کم یا زیادہ ہو سکتی ہے مگر دنیا بھر میں کورونا کے باعث خواتین کے مقابلے میں مرد زیادہ ہلاک ہو رہے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں جولائی 2020تک 1099افراد کورونا کے باعث زندگی کی بازی ہار چکے تھے اور ان میں سے 798مرد جبکہ 289خواتین شامل تھیں۔

ابتدائی طور پر کہا جا رہا تھا کہ کورونا ایک بے حس جینیاتی مادہ ہے جو مرد و زن میں تفریق نہیں کرتا مگر جب عورتوں کے مقابلے میں مرد زیادہ شکار ہونے لگے تو طبی ماہرین نے اس کی کئی توجیہات پیش کیں۔ مثلاً بتایا گیا کہ خواتین کے پاس دو ’’ایکس‘‘ کروموسوم ہوتے ہیں جبکہ مردحضرات کے پاس ایک ’’ایکس‘‘ اور ایک ’’وائی‘‘ کروموسوم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین کا مدافعتی نظام مردوں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ دونوں کے طرز زندگی میں تفاوت کو بھی ایک بنیادی وجہ قرار دیا گیا۔ خواتین گھر تک محدود رہتی ہیں، اپنی صحت کا خیال رکھتی ہیں، لاپروا نہیں ہوتیں، کچن میں کام کرتی ہیں اور پھر چونکہ سگریٹ نہیں پیتیں یا پھر کم تعداد میں پیتی ہیں، اس لئے ان کے پھیپھڑے مضبوط ہوتے ہیں ۔خواتین کے مقابلے میں مرد احتیاطی تدابیر کا تردد کم کرتے ہیں، لوگوں سے ملنے جلنے کا رجحان زیادہ ہوتا ہے، کسی بیماری کو خاطر میں نہیں لاتے، شراب اور سگریٹ کے باکثرت استعمال کے باعث اپنا جگر اور پھیپھڑے خراب کر چکے ہوتے ہیں، اس لئے جلد کورونا کا شکار بن جاتے ہیں۔ اگرچہ یہ توجیہات معقول ہیں مگر معاملہ محض اموات کا نہیں بلکہ کورونا میں مبتلا ہونے والے مریضوں کی شرح دیکھی جائے تو اس میں بھی مرد وں کی تعداد زیادہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خواتین کے مقابلے میں مرد زیادہ بڑی تعداد میں کورونا کا شکار بن رہے ہیں اور ان کے بچ جانے کی شرح بھی خواتین مریضوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔مثال کے طور پر پاکستا ن میں کورونا کا شکار مردوں میں شرح اموات 6.7فیصد جبکہ خواتین میں 3.6فیصد ہے۔

اس صنفی امتیاز کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ صرف کورونا ہی نہیں آپ کسی بھی مہلک بیماری یا حادثے کا شکار ہوکر مرنے والوں کے اعداد و شمار نکلوا لیں،ہلاک ہونے والوں میں مرد خواتین پر سبقت لے جاتے دکھائی دیں گے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ مردوں کو گلے ملنے کا بہت شوق ہوتا ہے اس لئے وہ موت کو گلے لگانے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے یا پھرحوروں سے ملنے کی خواہش میں مرنے سے دریغ نہیں کرتے۔اگرمرد باوجود کوشش کے دُکھ بھری زندگی سے نجات حاصل نہ بھی کر پائیں تو موقع ملتے ہی کسی حسینہ پر مر مٹتے ہیں۔ پیار میں جینے مرنے کے دعوے تو سب ہی کرتے ہیں مگر مردوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ان وعدوں کو سچ سمجھ لیتے ہیں اور فوری طور پر نہ بھی مریں تو قسطوں میں خودکشی کا اہتمام ضرور کرلیتے ہیں۔ ماہرین شماریات کے مطابق خواتین کی اوسط عمر مردوں کے مقابلے میں 6سے 8سال زیادہ ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں ہر 100بچیوں کے مقابلے میں 105بچے پیدا ہوتے ہیں لیکن زیادہ تر بچے اپنی پہلی سالگرہ نہیں منا پاتے۔ اگر ایک بچہ لڑکپن کی دہلیز پر قدم رکھتے ہوئے 10سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اس کی ہم عمر دس لڑکیاں زندگی کی اس دوڑ میں اس کے قریب پہنچ چکی ہوتی ہیں۔ یوں مردزیادہ تعداد میں پیدا ہونے کے باوجود کم رہ جاتے ہیں جبکہ خواتین کم تعداد میں پیدا ہونے کے باوجود مردوں کے مقابلے میں بڑھ جاتی ہیں۔مرد جلدی کیوں مر جاتے ہیں؟ اور خواتین زیادہ عرصہ تک زندہ کیوں رہتی ہیں؟اس صنفی امتیاز کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ خواتین کو چونکہبیوی کا عذاب نہیں جھیلنا پڑتا، اس لئے وہ خوش و خرم رہتی ہیں اور طویل عمر پاتی ہیں۔

نوٹ:اس کالم کو صنفی امتیاز اور علاقائی تعصب سے متعلق سال 2020کی آخری تحریر سمجھا جائے۔

تازہ ترین