• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں ویسے تو بہت سے مسائل یا سوالات ایسے ہیں، جن پر توجہ نہیں دی گئی یا جنہیں حل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی اور یہ سوالات بڑے بحرانوں کی شکل میں آج ہمارے سامنے ہیں۔ ان میں قومی سوال، شناخت کا سوال، طبقاتی سوال، چھوٹے صوبوں کا سوال اور دیگر سوالات شامل ہیں۔

ایک اور ابھرتا ہوا کراچی سوال ہے، جس کا بنیادی سبب وہ رویے ہیں، جو گزشتہ 5عشروں سے سیاسی قوتوں اور غیر سیاسی اسٹیبلشمنٹ نے کراچی کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہیں۔ اگر اس سوال کو حل نہ کیا گیا تو یہ پاکستان کے دیگر سوالات سے بھی زیادہ گمبھیر ہو گا۔

میں یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں کراچی سوال کی بات کر رہا ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں کراچی کی کسی الگ حیثیت کی بات کر رہا ہوں۔ کراچی سوال کا مطلب یہ ہے کہ یہ دیگر سوالات کی طرح سندھ اور پاکستان کے اندر پیدا ہونے والا ایک سوال ہے۔ یہاں مناسب ہو گا کہ میں کراچی سوال کی مختصراً صراحت پیش کروں۔ کراچی کی آبادی پاکستان کے کسی بھی شہر یا علاقے کی نسبت بہت زیادہ متنوع (Diversified) ہے۔ یہاں اردو، سندھی، بلوچی، پشتو، پنجابی، سرائیکی اور پاکستان کی دیگر زبانیں بولنے والے لوگ آباد ہیں اور ہر زبان بولنے والوں کی بہت بڑی تعداد یہاں آباد ہے۔ غیر ملکی بھی بڑی تعداد میں کراچی میں بستے ہیں۔

کاسمو پولیٹن ازم یا عالمگیریت اِس شہر کا بنیادی جوہر اوربندرگاہ ہونے کی وجہ سے یہ شہر کا جینیاتی جوہر بھی ہے۔ اس جوہر کے خلاف جب سے کام شروع ہوا ہے، تب سے کراچی سوال پیدا ہوا ہے۔ میرے خیال میں 1970سے کراچی کی اس خصوصیت یا جوہر کو بگاڑنے کا عمل شروع ہوا۔

ہر کسی نے کراچی کو اپنے معاشی، سیاسی اور دیگر مخصوص مفادات کے لیے استعمال کیا۔ ہر حربہ استعمال کرکے کراچی کو اپنی مرضی کا سیاسی فیصلہ نہیں کرنے دیا گیا۔ یہاں تک کہ کراچی کی سیاسی سمت اندازی آج مکمل طور پر غیر سیاسی قوتوں کے ہاتھ میں ہے۔

سیاسی قوتیں کراچی میں نمائندگی کے لیے ان کی طرف دیکھتی ہیں۔ اس لیے کراچی کے مسائل کو حل کرنے میں سیاسی قوتیں بری الذمہ ہو گئیں اور ان کی سیاست لسانی اور نسلی کارڈ استعمال کرنے اور کراچی کو تقسیم کرنے تک محدود ہو کر رہ گئی۔ اب لگ بھگ چار کروڑ آبادی والے شہر کراچی کے مسائل انتہائی خوف ناک ہو گئے ہیں۔

کراچی انتظامی طور پر ناقابلِ انتظام اور سیاسی طور پر بےقابو اور سرکش ہونے کی طرف جا رہا ہے۔ اس صورتحال نے کراچی سوال کو جنم دیا۔ یہ ہیں کراچی کے مسائل جن کا ادراک ضروری ہے۔ کراچی کے مسائل بھی پاکستان کے دیگر بڑے سوالات سے جڑے ہوئے ہیں لیکن کراچی الگ سوال بن گیا ہے۔

دو جملوں میں کراچی سوال کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ بلوچستان اور شمالی قبائلی علاقہ جات کی طرح کراچی کا سیاسی فیصلہ کراچی کے عوام یا سیاسی عمل نہیں کرتا ۔

یہ ایک درد ناک کہانی ہے کہ کراچی کے بنیادی کاسموپولیٹن جوہر کو بگاڑنے کے لئے شہر کو لسانی، نسلی، فرقہ ورانہ، مذہبی اور گروہی بنیادوں پر تقسیم کیا گیا۔ کراچی کو نفرتوں کی آگ میں دھکیلا گیا اور اس شہر میں خونریزی، خوف اور دہشت کو رائج کیا گیا

سیاسی جماعتوں اور گروہوں نے بظاہراس تقسیم کا فائدہ اٹھایا اور اپنی سیاسی حمایت کے حصول کے لئے نفرت کے کارڈز استعمال کیے مگر اس سیاست کا حقیقی فائدہ غیر سیاسی قوتوں کو ہوا اور سیاست ان کے ہاتھ میں چلی گئی۔

امن وامان کی صورت حال زیادہ خراب ہوئی تو انتظامی امور بھی غیر سیاسی قوتوں کے ہاتھ میں چلے گئے۔ یہاں سابق ناظم کراچی اور پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال کے ایک انٹرویو کا حوالہ دینا مناسب ہو گا۔ وہ کہتے ہیں کہ 2018کے عام انتخابات میں ان کی پارٹی کو کچھ سیٹیں ملنا تھیں لیکن وسطی پنجاب میں اسٹیبلشمنٹ کو مرضی کے نتائج نہیں ملے اور مسلم لیگ (ن) کو زیادہ نشستیں مل گئیں۔

اس سے یہ خدشہ پیدا ہوا کہ میاں نواز شریف دوبارہ برسراقتدار آ سکتے ہیں تو انتخابات والے دن رات 9بجے کراچی کے نتائج کو بدلنا شروع کیا گیا اور پاکستان تحریک انصاف کو یہاں سے نشستیں دی گئیں۔ لہٰذا پاک سرزمین پارٹی کو کچھ نہ ملا۔کراچی میں 1970میں پیپلز پارٹی کو زیادہ نشستیں ملیں۔ 1985سے 2013تک متحدہ قومی موومنٹ اس شہر کی سیاسی نمائندہ رہی۔ 2018میں تحریکِ انصاف کونشستیں دلوائی گئیں ۔

یہاں سے مسلم لیگ (ق) اور متحدہ مجلس عمل کو بھی نشستیں ملیں لیکن کوئی بھی کراچی سوال کا ادراک نہ کر سکا اور کسی نے بھی اس سوال کو حل کرنے کی جانب توجہ نہ دی۔ آج کراچی سیاسی طور پر شدید بےچینی کا شکار ہے۔ کراچی کی آبادی لگ بھگ چار کروڑ ہے لیکن مردم شماری میں اسے صرف ڈیڑھ کروڑ ظاہر کیاگیا۔

اگر آبادی کو کم ظاہر کیا جائے گا تو شہر کے مسائل کیسے حل ہوں گے؟ تعلیم، صحت، پینے کے پانی، صاف ہوا، ٹرانسپورٹ، سڑکوں، انفراسٹرکچر اور دیگر بنیادی سہولتوں کے حوالے سے کراچی کی آبادی کی اکثریت آبادی پاکستان کے انتہائی پسماندہ علاقوں کے عوام کی طرح زندگی گزار رہی ہے۔

یہ کراچی سوال ہے۔ اسے حل کرنے کے لیے سب سے پہلے یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ کراچی میں رہنے والے ہر لسانی، نسلی، قومیتی گروہ کے لوگ کراچی کے باشندے ہیں اور یہ چار کروڑ نفوس ایک ساتھ بےپناہ مسائل کے ساتھ رہتے ہیں، انہیں اپنے سیاسی فیصلے کرنے دیئے جائیں، ان کی گنتی میں بددیانتی نہ کی جائے اور ان کے مسائل کی گمبھیرتا کا احساس کیا جائے۔

تازہ ترین