• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پوری قوم کو مبارک ہو کہ الیکشن ہوگئے۔ میں نے متعدد مرتبہ لکھا تھا کہ الیکشن نہیں ہوں گے مگر اب جب ہوگئے ہیں تو میں اپنے غلط اندازے پر معذرت خواہ ہوں۔ جو جہاں سے جیتا ہے اسے مبارک ہو مگر یاد رہے کہ جس کا جہاں بس چلا اس نے وہی کیا جو فرشتے اپنوں سے کرتے ہیں، فرشتوں کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کے ہر انتخاب میں ان کی کارکردگی نمایاں رہتی ہے۔اس بار بھی کارکردگی شاندار اور مثالی رہی۔ یہ کارکردگی ایوارڈ کی مستحق ہے۔
رہے فخرو بھائی تو ان کی کس بات پر فخر کیا جائے کہ انہوں نے ہماری قومی سیاسی تاریخ کے متنازع ترین انتخابات کرواکے ایک نئی بحث شروع کرادی ہے۔ بڑی حیران کن بات ہے ملک کی تمام سیاسی جماعتیں دھاندلی کا رونا رو رہی ہیں۔ مسلم لیگ ن اتنی بڑی واضح اور فرشتہ صفت کامیابی کے باوجود بعض حلقوں سے دھاندلی کا شور کررہی ہے۔ ہری پور سے پیر صابر شاہ اور عمر ایوب نے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا ہے اسی طرح خانیوال سے مسلم لیگ ن کے امیدوار سید فخر امام کا کہنا ہے کہ انہیں ریٹرننگ آفیسر نے ہرایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ریٹرننگ آفیسر میرے مخالف آزاد امیدوار سے ملا ہوا تھا لہٰذا اس نے پورے کے پورے بیلٹ بکس تبدیل کر دیئے۔ سید فخر امام کے نزدیک این اے 156 میں خوب دھاندلی ہوئی ہے۔ این اے 87 سے آزاد امیدوار سید فیصل صالح حیات نے دھاندلی کے ثبوت الیکشن کمیشن کو فراہم کر دیئے ہیں اور ساتھ ہی یہ سوال بھی کیا ہے کہ میرا حلقہ انتخاب دیہاتوں پر مشتمل ہے وہاں نوّے فیصد سے زائد ٹرن آؤٹ کیسے ہوگیا۔ شاہ صاحب بھولے بادشاہ ہیں وہ اپنے حلقے کے ٹرن آؤٹ کا رونا رو رہے ہیں یہاں ایسے حلقے بھی ہیں جہاں ٹرن آؤٹ تین سو بیس فیصد تک رہا، بعض حلقوں میں ڈالے گئے ووٹوں کی شرح 250 فیصد ہے جبکہ کچھ حلقوں میں 170 اور کہیں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ہے۔ اس حد تک ٹرن آؤٹ کا زیادہ ہوجانا ہی انتخابات کو مشکوک بنا رہا ہے۔ یہ 1990ء اور 1997ء کی فلم ہے جو 2013ء میں نمائش کیلئے ایک بار پھر پیش کردی گئی ہے۔مسلم لیگ فنکشنل بھی حالیہ انتخابات میں دھاندلی کا شور کر رہی ہے۔ تحریک انصاف نے کراچی کے چند حلقوں کو ٹارگٹ کر رکھا ہے۔ جماعت اسلامی نے تو انتخابی ماحول دیکھتے ہی بائیکاٹ کردیا تھا اب وہ کراچی میں ازسرنو انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں۔
الطاف حسین نے پہلے پہل دھمکیوں سے کام چلانے کی کوشش کی، جب بات نہ بن سکی تو ان کے پارٹی کارکنوں نے بھی احتجاج شروع کر دیا۔ سندھ اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں بھی دھاندلی پر محو احتجاج ہیں اور تو اور مولانا فضل الرحمن نے بھی دھاندلی کا الزام لگادیا ہے حالانکہ ان کے خلاف سینیٹر وقار احمد خان نے کھلی دھاندلی کے الزامات لگائے ہیں۔ مظفر گڑھ سے غلام مصطفی کھر اور سید جمیل حسین بخاری واویلا کررہے ہیں کہ ان کے ساتھ دھاندلی کی گئی ہے۔ سید جمیل بخاری این اے 179 پر قومی اسمبلی کے امیدوار تھے انہوں نے پولنگ کے روز ہی صبح سویرے مجھے فون کردیا تھا کہ نہ یہاں فوج ہے اور نہ پولیس، بس ڈی پی او مظفر گڑھ اپنی قیادت میں اپنی پسندیدہ جماعت کو ووٹ ڈلوا رہا ہے۔ سونے پے سہاگہ شاہی سید کی بات ہے کہ فوج اور رینجرز کراچی کے لئے مختص تھی وہ کہاں گئی وہ اس کراچی میں تو نظر نہیں آئی، پتہ نہیں کسی اور جزیرے پر کراچی ہوگا جہاں یہ لوگ تھے۔ویسے سچی بات یہ ہے کہ کراچی کے بہت سے پولنگ اسٹیشنوں پر عملہ دوپہر کے بعد آیا اور بعض علاقوں میں پولنگ کا عمل سہ پہر تک شروع نہ ہوسکا اور پھر چند گھنٹوں میں اتنے ووٹ پڑ گئے کہ اگر مشینیں بھی مہریں لگائیں تو اتنے ووٹ نہیں پڑ سکتے۔ کراچی ہی میں جب سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ووٹ ڈالنے گئے تو انہیں خبر ہوئی کہ دن کے گیارہ بجے تک تو انتخابی عملہ ہی نہیں پہنچا سو چیف جسٹس صاحب کو بے نیل و مرام لوٹنا پڑا۔پیپلزپارٹی اور اے این پی دھاندلی پر کیا بات کریں انہیں تو انتخابی مہم ہی نہیں چلانے دی گئی۔ جب انتخابی مہم کا ہتھیار ہی چھین لیا جائے تو پھر کامیابی بہت دور ہوجاتی ہے۔فخرو بھائی کہاں کہاں بے بس نظر نہیں آئے۔ الیکشن کے دن انہوں نے کراچی میں ڈاکٹر عارف علوی سے کہا کہ ”میں بے بس ہوں“۔ جب آپ کا چیف الیکشن کمشنر بے بسی کا اظہار کردے تو پھر پیچھے رہ کیا جاتا ہے۔ فخرو بھائی کی پہلی بے بسی اسکروٹنی کے مرحلے پر ظاہر ہوگئی تھی جب وہ نہ تو جعلی ڈگری والے کو روک سکے نہ ہی دہری شہریت والا رک سکا۔ بجلی چور، ٹیکس چور، پانی چور اور نادہندہ کوئی بھی نہ روکا جاسکا۔
آئین کی شق 62 اور 63 کو خاک آلودہ کردیا گیا۔ فخرو بھائی 62 اور 63 پر عملدرآمد کرانے میں ناکام رہے، بے بس نظر آئے۔فخرو بھائی وقت پر پولنگ شروع نہ کراسکے، وہ فوج اور انتظامیہ بھی نہ پہنچا سکے۔ وہ انتخابی قوانین پر عملدرآمد نہ کرا سکے۔ اسی بے بسی میں ٹرن آؤٹ حد سے تجاوز کر گیا جہاں چار سو ووٹ تھا وہاں بارہ سو ووٹ پتہ نہیں کہاں سے آگیا۔ فخرو بھائی فرشتوں کے سامنے بے بس نظر آئے۔ چوہدری شجاعت حسین کی یہ بات بھی غور طلب ہے کہ نتائج توقعات کے برعکس آئے ہیں اور پھر ایک خاص تقریر کے بعد رزلٹ تبدیل کردیئے گئے۔اب بھی وقت ہے کہ جہاں جہاں دھاندلی کی شکایات ہیں انہیں دور کردیا جائے۔ جہاں کہیں سے بھی دھاندلی کے ثبوت ملے ہیں وہاں تحقیقات کی جائے، خاص طور پر بلوچ قوم پرستوں کے تحفظات دور کئے جائیں کہ وہ بڑے شوق سے قومی دھارے میں شامل ہونے آئے تھے۔ جماعت اسلامی کے مطالبے پر کراچی میں ازسرنو انتخابات کروا دیئے جائیں اور عمران خان نے جن 25 حلقوں کا کہا ہے وہاں تحقیقات ہوجائے اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر یہی سمجھا جائے گا کہ جہاں جو طاقتور تھا اس نے اپنا کھیل کھیلا یا یوں سمجھ لیجئے کہ جس کا جہاں بس چلا اس نے وہاں دھاندلی کی۔ اگر الیکشن کمیشن نے لوگوں کے تحفظات دور نہ کئے تو پھر 1977ء والی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔میاں نواز شریف نے عمران خان کے پاس جاکر بہت عمدہ قدم اٹھایا ہے۔ میاں صاحب کو جیت بھی مبارک ہو اور یہ بھی مبارک ہو کہ وہ مولانا فضل الرحمن کے چکر میں نہیں آئے اگر وہ اس چکر میں آجاتے تو یقینا ایک اور کھیل شروع ہوجاتا۔ پہلے ہی فرشتوں کا کردار سنبھالا نہیں جارہا، پہلے ہی فخرو بھائی بے بسی کا اظہار کرچکے ہیں اب کسی اور نے بے بسی کا اظہار کردیا تو پھر کیا ہوگا…؟
تازہ ترین