• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کورونا کے آگے بے بس، ٹرمپ رخصت، مسئلہ فلسطین اجاگر ہوا

2020 ء اِس لحاظ سے ایک عجیب سال تھا کہ بظاہر کوئی بڑا واقعہ نہ ہوتے ہوئے بھی دنیا کو تاریخ کے ایک بڑے واقعے کا سامنا کرنا پڑا اور اب تک کر رہی ہے۔کورونا وائرس نے دنیا کو کچھ ایسے لپیٹ میں لیا کہ دَس ماہ تک تو یہی پتا نہ چلا کہ اِس کا سدّ ِباب کیسے کیا جائے؟ البتہ،سال کے آخر میں خوش خبریاں ملیں کہ اِس وبا سے بچاؤ کے لیے تین، چار ویکسینز تیار ہوگئی ہیں۔ ایک تو اس کا پھیلائو خوف ناک تھا، پھر یہ کہ اس کے اثرات اِس قدر عالم گیر تھے کہ معیشت سے لے کر سیاست تک اور بازار سے لے کر گھر تک کے معمولات درہم برہم ہوگئے۔ چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والے اس وائرس نے دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر کی سرحدیں پھلانگ ڈالیں۔

اِس ضمن میں سب سے بڑی مشکل یہ رہی کہ یہ ایک ایسا موذی مرض ہے، جو ایک دوسرے کو چُھونے سے بھی لاحق ہوسکتا ہے، اسی لیے اس سے بچنے کے لیے دنیا سمٹ گئی۔عوام کو ایک دوسرے کے قریب آنے سے روکنے کے لیے دنیا بھر میں لاک ڈائون کیے گئے، جس سے اس وبا کا پھیلاؤ روکنے میں تو مدد ملی، مگر معاشی اور سماجی نظام مفلوج ہوگیا۔ شُکر ہے کہ سال کے آخر تک معاملات بہت حد تک سنبھل گئے۔انسان اللہ کی مدد سے فتح یاب رہا اور ویکسین تیار کر لی گئی۔اور دو ایک نہیں، تین، جب کہ مزید ویکسینز کی تیاری کی بھی اطلاعات ہیں۔تاہم، اِن حالات میں بھی عالمی سیاست میں بہت سی قابلِ ذکر تبدیلیاں رونما ہوئیں۔

جس طرح ٹرمپ کا امریکی صدر بننا دنیا اور خود امریکا کے لیے ایک عجوبہ تھا، اُسی طرح اُن کی رخصتی بھی حیرت انگیز رہی۔ ڈونلڈ ٹرمپ اُن امریکی صدور میں شامل رہے، جو صرف ایک ہی بار صدر منتخب ہوسکے۔ڈیمو کریٹک پارٹی کے77 سالہ جوبائیڈن نئے صدر کے طور پر حلف کی تیاری کر رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کا دَورِ حکومت خاصا ہیجان خیز رہا۔ اُن کی میڈیا سے انتخابات کے دَوران ہی کُھلی جنگ شروع ہوگئی تھی، جو آخر تک جاری رہی۔وہ’’امریکا فرسٹ‘‘ کے نعرے کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے اور اسی بنیاد پر امریکی پالیسیز میں غیر معمولی تبدیلیاں لائے، جو نئے صدر کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں۔

ہیلتھ کیئر بِل منسوخ کیا، امریکا، چین ٹریڈ وار شروع کی، ایران کی نیوکلیئر ڈیل سے دست بردار ہوئے، موسمیاتی تبدیلی کے پیرس معاہدے کو خیرباد کہا۔اُنھوں نے اپنے قریبی حلیفوں کو، جن میں نیٹو ممالک بھی شامل تھے، ناراض کیا۔کینیڈا اور میکسیکو سے تعلقات میں تلخی آئی، لیکن اس کے ساتھ مِڈل ایسٹ میں عرب، اسرائیل تعلقات کا نیا باب شروع کیا۔ شمالی کوریا کے رہنما سے دو ملاقاتیں کیں اور باہمی مسائل حل کیے۔افغانستان میں طالبان سے معاہدے کیے، جس سے خطّے میں امن کی بنیاد پڑی۔سب سے بڑھ کر اُنھوں نے کشمیر پر ثالثی کی پیش کش کی۔پھر یہ کہ ڈونلڈ ٹرمپ ہی کے دَور میں امریکا نے دو کورونا ویکسینز تیار کیں۔

گزشتہ برس متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان نے اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے اُس سے سفارتی تعلقات قائم کیے۔ اب اُن کے تعلقات نہ صرف معمول پر آچُکے ہیں، بلکہ تیزی سے مختلف معاہدے بھی ہو رہے ہیں۔عربوں اور اسرائیل کے درمیان چار خوف ناک جنگیں ہوچُکی ہیں، جن میں اسرائیل ہی فاتح رہا۔پھر ایک نئے دور کا آغاز ہوا اور مِصر اور اُردن نے اُسے تسلیم کرلیا، اب اُسے تسلیم کرنے والے عرب اور دیگر مسلم ممالک کی تعداد سات ہوچُکی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ انقلابی تبدیلی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سعودی عرب کی مرہونِ منّت ہے۔ سعودی ولی عہد، شہزادہ محمّد بن سلمان سمجھتے ہیں کہ شاید اِسی طریقے سے ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ممکن ہے۔اب سب کی نظریں ریاض پر ہیں کہ وہ کب اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے۔

ایران کی القدس فورس کے سربراہ، جنرل قاسم سلیمانی کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت نے خطّے میں بدامنی اور بدگمانی کی اُس آگ کو مزید بھڑکایا، جس نے گزشتہ کئی سالوں سے مشرقِ وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔جنرل سلیمانی کی ہلاکت سے ایران، امریکا کشیدگی ایک مرتبہ پھر عروج پر پہنچی اور ایک بڑی جنگ کے خدشات سر پر منڈلانے لگے، تاہم شُکر ہے کہ بات تلخ بیانات اور چند میزائل حملوں سے آگے نہ بڑھی۔ جنرل سلیمانی ایران کی علاقائی خارجہ حکمتِ عملی کے نفاذ کا کلیدی کردار تھے۔اس پالیسی کا مقصد ایرانی مفادات کا تحفّظ اور مشرقِ وسطیٰ میں اثر ورسوخ مستحکم کرنا ہے۔چوں کہ سلیمانی ایک فوجی جنرل تھے، تو ظاہر ہے کہ اُن کی القدس فورس ان مقاصد کے حصول کے لیے فوجی طریقۂ کار ہی بروئے کار لاتی تھی۔ وہ ایران کے زیرِ اثر مسلّح جنگجو گروپس کے ذریعے مختلف ممالک میں قدم جماتے تھے۔شام اور یمن کی خانہ جنگیوں میں اس کی واضح جھلکیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔ ایران کی اس قدر اہم اور طاقت وَر شخصیت کی اچانک ہلاکت عالمی سیاست میں کسی دھماکے سے کم نہیں تھی۔

بھارت میں جس مسئلے پر سب سے زیادہ سیاسی بحث مباحثہ اور احتجاج ہوا، وہ نیا شہریت بِل تھا، جسے نریندر مودی کی حکومت نے عددی اکثریت کی بنیاد پر دسمبر 2019ء میں ایوان سے منظور کروا لیا تھا۔تاہم اُس کے خلاف 2020ء میں بھی مسلسل احتجاج جاری رہا۔اس بِل کے ذریعے بھارتی شہریت کے بنیادی اجزا میں یک سر تبدیلی کردی گئی، جسے ماہرین نے مُلک کے سیکولر آئین کے منافی قرار دیا۔ اِس بل سے سب سے زیادہ بھارتی مسلمان متاثر ہوئے، جن کی تعداد چوبیس کروڑ کے لگ بھگ ہے اور جو کُل آبادی کا تقریباً بیس فی صد ہیں۔

علی گڑھ یونی ورسٹی اور جامعہ ملیّہ، دہلی سے شروع ہونے والا احتجاج جلد ہی مُلک کے طول وعرض میں پھیل گیا اور احتجاج میں ہندو، عیسائی،سِکھ ،بُدھ مت کے پیروکار اور دلت برادریوں کے افراد بھی شامل ہو گئے۔ بارہ سے زاید ریاستوں نے اس متنازع بل کو اپنی عمل داری میں نافذ کرنے سے انکار کردیا۔مودی حکومت نے ایک اور بِل کے ذریعے کشمیر کو تین حصّوں میں بانٹ دیا اور اُس میں صوبے بنادیے۔ یہ اقدام اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کی صریح خلاف ورزی ہے، جس میں واضح طور پر کشمیر کو ایک متنازع علاقہ قرار دیا گیا ہے۔دوسری جانب وادی میں لاک ڈائون بھی جاری رہا اور ریاستی سرپرستی میں ظلم ستم بھی، جب کہ پاکستان مسلسل دنیا کی اس جانب توجّہ مبذول کرواتا رہا۔

31 جنوری کی رات کا وہ نظارہ بہت سی یادیں تازہ کر گیا، جب لندن میں یورپی یونین کا جھنڈا اُتارا گیا اور صرف برطانیہ کا جھنڈا تنہا لہراتا رہا۔ دوسری طرف، برسلز میں یورپین یونین کے ہیڈ کوارٹر پر لہرانے والے برطانیہ کے جھنڈے کو لپیٹ دیا گیا۔ دونوں جگہیں کے ماحول میں خاصا فرق تھا۔لندن میں جشن اور خوشی سے تمتماتے چہرے، جب کہ برسلز میں اداسی اور آنسووں سے ڈبڈبائی آنکھیں۔یوں 40سال پرانا ساتھ چُھوٹ گیا۔ فلسطین ایک مرتبہ پھر مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کا محور بن کر سامنے آیا۔امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ نے دو ریاستی حل کے تحت فلسطینی اسٹیٹ کا نیا منصوبہ پیش کیا، جسے امریکا نے’’ ڈیل آف دی سینچری‘‘ قرار دیا، جب کہ فلسطین کے صدر، محمود عباس نے اس پلان کو مسترد کردیا۔

نیز، عرب مملکتوں کی جانب سے بھی اسے رَد کیا گیا۔اِس کا مطلب یہ ہوا کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان بات چیت کا فی الحال کوئی امکان نہیں۔ اُدھر صدر ٹرمپ کے مواخذے کی تحریک کو شکست ہوئی اور اس کے ساتھ ہی وہ دوبارہ پوری طاقت سے نہ صرف اپنی مدّت پوری کرنے کے اہل ہوگئے، بلکہ سال کے آخر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں بھی بھرپور حصّہ لیا۔دسمبر کے مہینے میں ایک اچھی خبر یہ بھی آئی کہ قطر اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات پھر سے بحال ہونے کو ہیں۔یاد رہے، 2017ء میں قطر اور خلیجی ممالک کے درمیان کشیدگی پیدا ہوگئی تھی، جس پر قطر کو خلیج تعاون کاؤنسل سے نکال دیا گیا تھا۔

تعلقات کی بحالی میں امریکا نے بھرپور کردار ادا کیا۔گزشتہ برس افغان امن عمل میں خاصی پیش رفت دیکھی گئی۔ افغانسان سے غیر مُلکی افواج کی واپسی کا ایک اور معاہدہ ہوا۔اس میں امریکی اور باقی ماندہ نیٹو افواج کے انخلاء کا طریقۂ کار طے کیا گیا۔29 فروری کو قطر کے دارالحکومت، دوحا میں ہونے والے معاہدے میں بیش تر نکات وہی تھے، جو فروری 2019ء کے معاہدے میں طے پائے تھے اور جن کا امریکا اور افغان طالبان کی طرف سے بار بار اعلان بھی کیا گیا۔امریکی فوجوں کی مرحلہ وار واپسی، قیدیوں کی رہائی، افغان سرزمین کو ہر قسم کے تشدّد سے پاک رکھنے کے ساتھ اسے دوسرے ممالک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے جیسے اہم نکات معاہدے کا حصّے تھے۔

نیز، سب سے اہم بات افغان انٹرا ڈائیلاگ رہی، جس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ موجودہ افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات اور پاور شیئرنگ کا فارمولا وضع کیا جائے۔پچاس ممالک کے نمائندوں کے سامنے ہونے والے اس معاہدے کو دنیا بھر میں سراہا گیا۔ افغان طالبان اسے اپنی جدوجہد کا ثمر قرار دیتے ہیں اور امریکا نے اسے اپنی کام یاب پالیسی قرار دیا۔پاکستان مطمئن ہے کہ اس نے سہولت کاری کر کے امن میں اپنا حصّہ ڈالا۔بعدازاں،ستمبر کے وسط میں دوحا میں ہونے والے’’ انٹرا افغان مذاکرات‘‘ میں اشرف غنی حکومت اور طالبان وفد امریکا کی سرپرستی میں ایک ہی میز پر بیٹھے۔یوں افغانوں کے درمیان افغانستان کے مستقبل پر بات چیت کا آغاز ہوا۔

سال کے آخری دنوں میں آذربائیجان اور آرمینیا میں ناگورنو قرہ باغ کے تنازعے پر جنگ چِھڑ گئی۔ اطلاعات کے مطابق دونوں طرف دو ہزار سے زاید ہلاکتیں ہوئیں، تاہم نومبر کے آخری ہفتے میں روس کی کوششوں سے سیز فائر ہوگیا۔اس جنگ میں بظاہر آذربائیجان کی فتح ہوئی، کیوں کہ آرمینیا کو اُن علاقوں سے بھی ہاتھ دھونے پڑے، جو اُس کے قبضے میں تھے۔اس معاہدے پر آذربائیجان میں جشن منایا گیا، جب کہ آرمینیا میں حکومت کے خلاف مظاہرے ہوئے۔پاکستان کے آذربائیجان سے بہت قریبی تعلقات ہیں، اِسی لیے پاکستان نے واضح طور پر برادر مُلک کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا، جس پر آذربائیجان کے عوام اور حکومت کی جانب سے خوشی کا اظہار کیا گیا۔ سانحۂ بیروت گزشتہ برس کا ایک الم ناک واقعہ تھا، جس سے دنیا ہل کر رہ گئی۔4 اگست کو ہونے والے دھماکوں کے بعد بیروت چیختا، روتا اور تڑپتا رہا۔ان دھماکوں نے آدھے شہر کو کھنڈرات میں بدل دیا۔159سے زاید شہری ہلاک اور 5000 سے زاید زخمی ہوئے۔

اس سانحے پر عارضی وزیرِ اعظم سمیت پوری کابینہ مستعفی ہوگئی۔ لبنانی صدر، مشل عون نے کہا کہ ’’دھماکے کا سبب امونیم نائیٹریٹ کا وہ ذخیرہ تھا، جو بندرگاہ کے گودام میں برسوں سے پڑا تھا۔‘‘دھماکے کی شدّت کا اندازہ اِس اَمر سے لگایا جاسکتا ہے کہ250 کلومیٹر دُور واقع مُلک، قبرص میں ان کی وجہ سے زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔ ایک اندازے کے مطابق ان دھماکوں میں پندر ارب ڈالرز کا نقصان ہوا۔ لبنان کی طاقت وَر ملیشیا، حزب اللہ نے واضح طور پر کہا کہ اُس کا اس ذخیرے سے کوئی تعلق نہیں۔ دنیا نے اس تباہی کی مذمّت کی اور فرانس کے صدر پہلے غیر مُلکی رہنما تھے، جو اس سانحے کے بعد بیروت پہنچے۔یاد رہے، لبنان نے اپنی آزادی فرانس ہی سے حاصل تھی اور اس کے لبنان سے بہت ہی قریبی معاشی تعلقات ہیں۔ 

اطلاعات کے مطابق، سات سال پہلے ایک بحری جہاز بیروت آیا، جس میں یہ ذخیرہ لدا ہوا تھا۔ایک انتہائی معتبر غیر مُلکی میڈیا رپورٹ کے مطابق، جس کی تردید نہیں ہوئی، یہ جہاز روس کی ملکیت تھا۔ جہاز روس سے امونیم نائیٹریٹ لے کر روانہ ہوا، جس کی منزل موذمبیق بتائی گئی۔تاہم، بیروت کی بندرگاہ پر اُس میں کوئی خرابی ہوگئی، ساتھ ہی وہ مالی مشکلات سے بھی دوچار تھا۔لہٰذا اپنا کرایہ نہ دے سکا، تو پورٹ حکّام نے اُسے اپنی تحویل میں لے لیا، یوں عملہ جہاز پر محصور ہوگیا۔یہ باتیں جہاز کے کپتان نے دھماکے کے بعد میڈیا کو بتائیں۔دو سال بعد جہاز کے عملے کو آزاد کردیا گیا اور امونیم نائیٹریٹ گوداموں میں ڈال دی گئی۔بتایا گیا کہ قریب ہی ویلڈنگ کا کام ہو رہا تھا، جس کے شعلے نے گودام میں آگ بھڑکا دی۔ 

راجا پاکسے کے خاندان نے ایک مرتبہ پھر سری لنکا کے انتخابات واضح اکثریت سے جیت لیے۔سات اگست کو ہونے والے انتخابات میں گوٹابایا راجا پاکسے کی سیاسی جماعت، پیپلز فرنٹ نے 245 میں سے145 نشستیں حاصل کیں۔گوٹا بایا کے بھائی، مہندا راجا پاکسے کو وزیرِ اعظم کا عُہدہ دیا گیا۔یاد رہے، اُنہی کے صدارتی دَور میں اُس تامل بغاوت کو کچلا گیا تھا، جو بائیس سال جاری رہی اور جس نے سری لنکا کو اندر سے کھوکھلا کر دیا تھا۔نیوزی لینڈ میں جیسنڈا آرڈرن ایک مرتبہ پھر الیکشن میں کام یاب رہیں اور دوسری ٹرم کے لیے وزیرِ اعظم کے عُہدے پر فائز ہوئیں۔اُنھوں نے اُس وقت اپنے بیانات اور اظہارِ یک جہتی سے مسلمانوں اور خاص طور پر پاکستانیوں کے دل جیت لیے تھے، جب ایک انتہا پسند نے مسجد پر حملہ کر کے بہت سے افراد کو شہید کردیا تھا۔نیوزی لینڈ اور سری لنکا اُن چند ممالک میں شامل ہیں، جہاں کورونا وائرس کے باوجود الیکشن ہوئے۔

2020 ء تو جیسے تیسے گزر ہی گیا، کورونا وائرس کی ویکسینز بھی آگئیں، اب دنیا بھر کی لیڈرشپ اور عوام کو اُس تیز رفتار ترقّی کی بحال کے لیے مل جُل کر کوششیں کرنی ہوں گی، تاکہ کورونا کی شکل میں آنے والی قدرتی آفت، اپرچیونٹی میں تبدیل ہوسکے۔ 

تازہ ترین