• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم نے روزنامہ ”جنگ“ میں 10 دسمبر 2012ء اور 11 فروری 2013ء کو اپنے شائع شدہ کالموں میں سیاق و سباق کے ساتھ یہ بات لکھ دی تھی کہ آئندہ کی حکومت میاں نواز شریف ہی بنائیں گے۔ اگرچہ کچھ خدشات کا اظہار بھی کیا تھا کہ عبوری حکومت کو طوالت دی جاسکتی ہے مگر بعد میں چند ایسی جنبشیں ہوئیں کہ وہ خدشات دور ہوگئے۔ آخر میں تو 30/اپریل2013ء کو آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے قوم اور دُنیا پر واضح کردیا کہ الیکشن وقت پر ہوں گے اور یہ کہ ہر کسی کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا جائے گا۔ ہمارے علم میں یہ بات تھی کہ پس پردہ بہت سے عوامل متحرک تھے۔ جن کی وجہ سے پاکستان کے سیاسی منظرنامہ پر چھائے بادل چھٹ گئے اور میاں محمد نواز شریف کی حکمرانی تو ستمبر 2012ء سے طے ہوگئی تھی اور جو عظیم مفاہمت کا نتیجہ تھی جس سے پاکستان میں جمہوریت کو جڑ پکڑنے کا موقع دیا گیا۔
تاہم ایسا نہیں ہے کہ اس میں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی کارکردگی کو دخل نہیں ہے وہ بجاطور پر اِس کے مستحق تھے کہ وہ مسیحا کے طور پر دیکھے جائیں کہ صدر آصف علی زرداری کی خراب حکومت اور کرپشن کے معاملات میں اتنی لتھڑی ہوئی تھی کہ اس کے بعد بدبو پیدا ہوگئی تھی۔ پھر پی پی پی کے پاس کوئی لیڈر نہیں تھا۔ بلاول بھٹو زرداری کو میدان عمل میں خوف کی وجہ سے نہیں اتارا گیا کہ کہیں ان پر خودکش حملہ نہ ہوجائے۔ اس لئے مخدوم امین فہیم بھی اپنے حلقوں تک محدود ہوگئے۔ میں نے یہ سوال محترمہ فریال تالپور اور قائم علی شاہ سے پوچھا تھا کہ اُن کی پارٹی متحرک نظر نہیں آتی اور جیالا میدان عمل میں نہیں۔اُن کا کہنا تھا کہ مخدوم امین فہیم سندھ میں اور پنجاب میں سید یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف الیکشن مہم کو دیکھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ پنجاب کے نئے گورنر جو فنکشنل لیگ سے نکل کر اِس وعدے کے ساتھ گورنر بنے تھے کہ وہ جنوبی پنجاب میں پی پی پی کو جتائیں گے اور آصف علی زرداری نے اُن کے اِس کھوکھلے وعدے کو اس لئے قبول کر لیا تھا کہ اس طرح سندھ میں مسلم لیگ فنکشنل کا متحرک کردار کمزور پڑ جائے۔ جہاں انہیں کامیابی ملی اور پیر صاحب پگارا ایک جلسہ کے بعد دوسرا جلسہ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے محترمہ فریال تالپور نے حیدرآباد کے اس جلسے کے بارے میں یہ ریمارکس دیئے کہ وہ حروں کو اس جلسے میں لے آئے تھے تو ہمارا کہنا تھا کہ حروں کو بھی اگر ایک فورس کے بجائے سیاسی عمل میں شامل کردیا جائے تو یہ ایک اچھی علامت ہے۔ دوسری طرف پنجاب میں نئے صدر جو پی پی پی کی صفوں میں قابل قبول نہ تھے اور پی پی پی سے باہر کی مخلوق تھے، ان کو صدر اس لئے بنایا گیا کہ وہ جوڑ توڑ کے ماہر تھے اور ساتھ میں گورنر پنجاب مل کر مسلم لیگ (ن) کو نقصان پہنچا سکیں گے مگر اس میں وہ ناکام ہوئے، اس طرح پی پی پی بغیر قیادت کے میدان عمل میں تھی اور ایسا لگتا تھا کہ وہ تھک گئے ہیں اور جو مال بنایا گیا تھا یا انہوں نے پی پی پی کو غیرمقبول بنانے کا جو وعدہ اپنی رہائی کے وقت کیا تھا پورا کر دکھایا۔ اس ہار کے بعد جہاں پی پی پی کے بڑے بڑے برج پنجاب میں الٹ گئے تو سندھ کا قلعہ اسکرپٹ کے مطابق پی پی پی اور ایم کیوایم کے پاس ہی رہا۔ ہم نے اپنے ان مضامین میں لکھ دیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے لئے سندھ دردسر کا کام انجام دے گا مگر پنجاب میں یوسف رضا گیلانی، منظور وٹو، راجہ پرویز اشرف، حنا ربانی کھر کے والد، اعتزاز احسن کی اہلیہ جن کے بارے میں محترمہ فریال تالپور پُرامید تھیں، وہ بھی ہار گئیں۔ جس پر متحدہ قومی موومنٹ نے نواز شریف کو پنجاب کی پارٹی کا طعنہ دیا۔ ہمارے خیال میں ایسا نہیں ہے، میاں صاحب نے فنکشنل لیگ اور سندھ کی قوم پرست پارٹیوں پر انحصار کیا، وہ متحرک نہیں ہو سکیں اور انتہائی کرپشن کے الزامات کے باوجود وہ پی پی پی کو شکست نہ دے سکیں۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو جو کہ پی پی پی کارکردگی کی تفصیل محترم قائم علی شاہ اور محترمہ فریال تالپور نے بتائی کہ انہوں نے سندھ میں بہت کام کیا اور یوں سندھ کارڈ پی پی پی کے پاس ہی رہا۔ عمران خان نے انتہائی متحرک کردار ادا کیا اُن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے نوجوانوں میں بیداری کی رُوح پھونک دی اور وہ اشراف جو گھروں میں بیٹھ کر ٹی وی میں الیکشن کو تماشے کے طور پر دیکھتے تھے وہ بھی میدان میں نکلے اور ووٹ دیا اور میڈیا نے بھی انتہائی اہم کردار ادا کیا جس کی وجہ سے پاکستان میں ووٹ ڈالنے کا تناسب 60 فیصد تک جا پہنچا۔ جو ماضی میں اوسطاً 42.6 فیصد تھا۔ انہوں نے میاں نواز شریف کو بھی متحرک کیا، عمران خان ایک دن میں پانچ پانچ جلسوں سے خطاب کرتے تھے تو میاں نواز شریف تین، شہباز شریف دو اور اُن کے ساتھ مل کر پانچ جلسوں سے آگے بڑھ جاتے تھے، علاوہ میاں نواز شریف کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز بھی سوشل میڈیا میں متحرک کردار ادا کرتی رہیں۔
میاں نواز شریف مبارکباد کے مستحق ہیں اُن کے لئے یہ پھولوں کی سیج نہیں بلکہ جابجا کانٹے اُن کی راہ میں بچھے ہوئے ہیں۔ اُن کو چھ ماہ کے اندر بلدیاتی نظام بحال کرنا ہے، اقتصادی صورتحال کو بہتر بنانا ہے، لوڈشیڈنگ سے نجات دلانا ہے، وی آئی پی کلچر کا خاتمہ، نئے صوبے ہزارہ، جنوبی پنجاب اور بہاولپور کو بنانا ہے، کراچی تا لاہور موٹر وے اور بلٹ ٹرین چلانا ہے۔ نوجوانوں کی بلدیاتی نظام میں نشستیں مخصوص کرنا ہوں گی۔
خواتین کو زیادہ مضبوط بنانے کا وعدہ انہوں نے منشور میں کیا ہوا ہے، جمہوریت کے نظام کو مضبوط اور میڈیا اور عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے کے وعدوں کو پورا کرنا ہے، صوبائی خودمختاری، احتساب کے نظام کے ذریعے کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھنکنے کے دعوے کو یقینی بنانا ہوگا۔ اس کے علاوہ اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسرے صوبوں میں قائم حکومتوں سے تعلقات بہتر رکھنے ہوں گے۔ نہ صرف یہ بلکہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے خوامخواہ پنگا لینے سے گریز کرنا ہوگا۔ مزید برآں سندھ اور متحرک عمران خان سے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہماری دعا ہے کہ وہ کامیاب ہوں اور پاکستان مضبوط اور مستحکم ہو۔
تازہ ترین