• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
11 مئی کے عام انتخابات سے قبل اور بعد میں اکثر یہ سوال زیر بحث رہا ہے کہ کیا میاں نوازشریف بدل چکے ہیں اور کیا انہوں نے اپنی غلطیوں سے کچھ سیکھا ہے۔ اس سوال کا جواب اب انہیں اپنے اقدامات سے دینا ہے جب وہ تیسری بار وزیراعظم بن رہے ہیں۔ انہیں ناقدین کو غلط ثابت کرنا ہے جو کہتے ہیں کہ وہ بالکل نہیں بدلے اور وہ 1999ء والے نوازشریف ہی ہیں۔ ہمیں لگ رہا ہے کہ اب ان میں تحمل اور برداشت پہلے سے زیاد ہے ، وہ مخالفین کے ساتھ درگزر کریں گے، وہ ہر بڑا حکومتی عہدہ صرف اور صرف اپنے خاص بندوں کو جو ان کی ہاں میں ہاں ملانے والے ہیں کو دینے کا نہیں سوچیں گے، وہ بہت زیادہ جمہوری ذہن رکھنے والے ہوگئے ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ ہراختیار صرف ان کے قبضہ میں ہی رہے۔ بلاشبہ نوازشریف اپنی بے مثال انتخابی کامیابی پر مبارکباد کے مستحق ہیں مگر وہ جانتے ہیں کہ اقتدار پھولوں کی سیج نہیں بلکہ اس بار شاید یہ بہت ہی مشکل ہے۔ وجہ ملک کے بے شمار مسائل اور ہر طرف بد حالی ہے جو گزشتہ 5 سال میں پیدا کی گئی۔ ملک کو جتنے بڑے بحرانوں کا سامنا ہے نوازشریف کو اپنے آپ کو اتنا ہی بڑا اسٹیٹس مین ثابت کرنا ہے کہ صرف وہی ہیں جو پاکستان کو اس گرداب سے نکال سکتے ہیں، ان میں وژن ہے، ان کا ایک واضح گیم پلان ہے، ان کے پاس ایک قابل اور تجربہ کار ٹیم موجود ہے اور وہ تبدیلی لانے کیلئے پُرجوش ہیں ۔ وہ اس مشن میں کامیاب بھی ہو جائیں گے اگر انہوں نے خواہ مخواہ مختلف محاذ نہ کھول لئے۔ ان میں سب سے اہم ان کے پاکستان آرمی یا یوں کہیں ملٹری چیف کے ساتھ تعلقات ہیں۔ اگر وہ اس فرنٹ کے ساتھ مکمل سیز فائر رکھتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ ملک کو مشکل ترین حالات سے نکالنے کیلئے اپنے ایجنڈے پر عمل نہ کر سکیں۔ انہیں ایسے مشیران سے دور رہنا ہوگا جو آرمی کے ساتھ سینگ پھنسانے کی طرف مائل کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ اب آرمی کو بھی سیکھنا چاہئے کہ اس کی مداخلت نے ملک کی کوئی خدمت نہیں کی بلکہ ہر شعبے میں خرابی ہی ہوئی۔ اسے پرویزمشرف کے ساتھ عدالتوں کے سلوک کو بھی ہر وقت سامنے رکھنا ہوگا۔ ان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے نواز شریف اس کے ذمہ دار نہیں بلکہ پرویز مشرف کے اپنے اعمال ہیں جن کو اعلیٰ عدلیہ غیر آئینی قرار دے چکی ہے اور اس بات پر زور دے رہی ہے کہ انہیں اپنے غیر آئینی اقدامات پر سزا ملنی چاہئے۔
نوازشریف جب 14 سال بعد وزیراعظم بن رہے ہیں تو انہیں بدلنا ہوگا اور غصہ تھوکنا ہوگا۔ وکٹری اسپیچ میں اپنے اس اعلان کو کہ انہوں نے اپنے سب مخالفین کو معاف کر دیا ہے عملی جامہ پہنانا ہوگا۔ انہیں ان حضرات کے ساتھ بھی درگزر سے کام لینا ہوگا جنہوں نے 1999ء کے مارشل لا کے بعد ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا اور پرویز مشرف کے ساتھ مل گئے تھے۔ ان پر اللہ کی خاص عنایت ہوئی کہ وہ ایک ایسے انتخابات میں کامیاب ہوئے ہیں جن میں ان کے خلاف سازشیں ہی سازشیں تھیں تاکہ کسی نہ کسی طرح ان کی سیٹوں کو کم کیا جائے۔ جیتنے والے کو دل بڑا کرنا ہوگا۔ شروع میں ہی اس کا کچھ ثبوت تو وہ دے چکے ہیں ۔ باوجود اس کے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا رویہ انتخابی نتائج کے بعد بھی غیر سیاسی رہا ہے مگر پھر بھی نوازشریف نے فیصلہ کیا کہ وہ ان کی اسپتال میں عیادت کریں حالانکہ عمران خان نے انہیں انتخابات جیتنے پر رسمی مبارکباد بھی نہیں دی جو جمہوری ممالک میں ہمیشہ ہوتا ہے۔ اگر چہ انتخابی مہم میں سخت زبان استعمال کی جاتی ہے مگر عمران خان نے تو حد کردی تھی۔ اس کے باوجود نوازشریف نے اس کو ماضی سمجھ کر بھلا دیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک اور اقدام کے ذریعے ثابت کیا کہ وہ بدل چکے ہیں ۔ انہوں نے صاف کہہ دیا کہ چونکہ پی ٹی آئی خیبر پختونخوا میں اکثریتی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے اور اس کی صوبائی اسمبلی میں اکثریت ہے اسے ہی حکومت بنانے کا حق ہے۔
1999ء میں اقتدار سے آؤٹ کئے جانے کے بعد سے لے کر 11 مئی کے انتخابات تک نواز شریف نے ایک طویل سفر بڑے صبر سے طے کیا ہے اور ”ٹھنڈی کرکے“ کھانے کو اصول بنایا۔ اگر وہ چاہتے تو کب کا پچھلی حکومت کو چلتا کرتے مگر وہ ہر وقت اس کا سہارا بنے رہے اور طعنے برداشت کرتے رہے۔ ان کی کوشش رہی کہ کسی نہ کسی طرح یہ پورے پانچ سال اقتدار میں رہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کا بیڑہ بھی اسی وجہ سے غرق ہوا کہ ان کے پاس کوئی بہانہ نہیں رہا کہ انہیں اپنی آئینی مدت پوری نہ کرنے دی گئی۔ ان کی لگاتار کوشش کے باوجود وہ شہید نہ بن سکے۔ حکومت کی کارکردگی کیسی رہی کا اندازہ رائے دہندگان نے جو ”پھینٹی“ ان جماعتوں کی لگائی سے ظاہر ہے۔ وہ کس منہ سے نوازشریف حکومت پر نکتہ چینی کریں گے جبکہ ان کی بد اعمالیاں ہر ذہن میں تازہ ہوں گی۔ ان پانچ سالوں میں انہوں نے ملک کو اتنا پیچھے دھکیل دیا جس کی مثال نہیں ملتی۔ ان 14 سالوں میں نوازشریف کے ساتھ بڑا ہی انسانیت سوز سلوک ہوا انہیں کال کوٹھڑی میں قید تنہائی میں رکھا گیا، ہتھکڑی لگا کر جہاز کی سیٹ کے ساتھ باندھ دیا گیا ، جلا وطنی کے کرب کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے سیکڑوں ساتھیوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کیا گیا۔ مگر انہیں اس سب کو بھلانا ہوگا اور درگزر کرنا ہوگا۔ اگر وہ اپنے ماضی میں الجھ گئے تو وہ ملک کو وہ لیڈر شپ دینے میں ناکام ہو جائیں گے جس کی عوام توقع رکھتے ہیں۔ ان کے ساتھ سب ظلم و زیادتیوں کا بدلہ ووٹروں نے لے لیا اور انہیں کامیابی سے ہمکنار کیا۔ یہ کوئی عام بات نہیں کہ (ن) لیگ نے اکیلے بغیر کسی انتخابی اتحاد کے الیکشن لڑا اور جیتا حالانکہ ماضی میں یہ ہمیشہ دوسری جماعتوں سے اتحاد کر کے انتخابی دنگل میں کودتی رہی ہے۔ یہ سب کچھ صرف اور صرف نوازشریف کی پالیسیوں کی وجہ سے ہوا۔ بلاشبہ اس کامیابی میں شہبازشریف کی پانچ سالہ حکومت کا حصہ بہت بڑا ہے۔ دنیا بھر میں حکومتی جماعتیں اکثر الیکشن ہار جاتی ہیں مگر (ن) لیگ نے نئی تاریخ رقم کی۔ اس کے برعکس عوام نے پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ق) اور عوامی نیشنل پارٹی کی وہ درگت بنائی کہ وہ ہمیشہ یاد رکھیں گی ۔اب وہ سخت بحرانی کیفیت کا شکار ہیں۔ وہ اس سے کیسے باہر نکلیں گی یہ ایک بڑا سوال ہے جس کا ان کے پاس فی الحال کوئی جواب نہیں۔ پی پی پی کو تو پی ٹی آئی کھا گئی۔ پی ٹی آئی کے حمایتیوں کا یہ دعویٰ اور پی پی پی کی بچگانہ سوچ کہ عمران خان صرف نون لیگ کے ووٹ توڑیں گے دھڑام سے نیچے گر گئی۔ آخر میں ثابت ہوا کہ نہ صرف نون لیگ کا ووٹ بنک ایک سالڈ بلاک کی شکل میں قائم رہا بلکہ اس میں اضافہ بھی ہوا۔ صدر آصف علی زرداری کی مخالفین کے خلاف سیاسی سازشیں ان کے خلاف ہی ثابت ہوئیں اور وہ پی پی پی کو پستی کی اس سطح پر لے گئے ہیں جہاں یہ کبھی پہلے نہ تھی۔ پی ٹی آئی کو چاہئے کہ وہ احتجاج کرنے کے بجائے انتخابی نتائج کو تسلیم کرے۔ بلاشبہ 11 مئی کے عام انتخابات ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ شفاف اور منصفانہ تھے۔
تازہ ترین