• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ایک سال سے انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے بہت سی افواہیں گردش کرتی رہیں حتی کہ 11 مئی تک شکوک و شبہات کے بادل چھائے رہے۔ ہر لمحہ کسی انہونی کے خوف سے بوجھل رہا۔ پھر انتخابات کے انعقاد کو خونی اور جنونی رنگ دینے کے علاوہ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا تھا کہ ان کے نتیجے میں کوئی بھی جماعت اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی اور یوں ایک ہنگ پارلیمنٹ وجود میں آئے گی جو مسائل کے حل میں نا کام رہے گی اور پھر ٹیکنو کریئس کی حکومت کا قیام نا گزیر ہو جائے گا۔ یوں جمہوریت کا مستقبل تاریک نظر آرہا تھا یا دکھایا جا رہا تھا لیکن الیکشن خیال و خواب ہوتے دکھائی دے رہے تھے۔ مگر11 مئی آیا اور قوموں کی تاریخ میں پاکستان کے نام کے سامنے سنہرے قلم کی اُجلی روشنائی کے ساتھ مہذب قوم لکھ کر اُسے نئی شناخت سے بہرہ مند کر گیا سارے اندیشے دم توڑ گئے۔ ذات برادری، گدیاں، جاگیرداریاں کام آئیں نہ سابقہ عہدے اور انکم سپورٹ جیسے منصوبے کار گر ثابت ہوئے بلکہ عوام نے ہر قسم کے ذاتی مفاد سے بالا تر ہوکر اور الزامات پر مبنی کہانیوں پر یقین کرنے کی بجائے آزادانہ عقل اور شعور سے کار کردگی کی بنیاد پر مہر لگا کر سیاسی جادوگروں کی تمام چالوں کا بے اثر کر دیں۔ جو جال پاکستان مسلم لیگ( ن) کے ووٹوں کو ہتھیانے کے لئے تیار کیا گیا تھا وہ تیار کرنے والوں کے گلے کا پھندا بن گیا۔ علاوہ ازیں عوامی شعور نے سیاسی نجومیوں کی تمام پیشین گوئیاں اور غلط فہمیاں بھی باطل قرار دے دیں جن کے مطابق زیادہ ٹرن آوٹ سے مسلم لیگ( ن) کو نقصان پہنچنے کا واضح اشارہ تھا شاید اسی لئے خود تحریک انصاف کے چیئرمین نے الیکشن کمیشن سے وقت بڑھانے کی درخواست کی۔ جنوبی پنجاب کے با شعور لوگوں نے علیحدہ صوبے کے نعرے کو بھی انتخاب کی بنیاد بنانے سے انکار کیا۔ مجموعی طور پر عوام نے وفاق کی نمائندہ جماعتوں کو زیادہ اہمیت دی۔ ان انتخابات میں میڈیا نے ہر طرح کے اشتہار چلائے مگر اپنے تبصروں میں ہمیشہ مثبت لائحہ عمل اختیار کیا اور لوگوں کو اصل، نقل، جھوٹ اور سچ کی صحیح تصویر دکھانے کی کوشش کی۔ لوگوں کی سیاسی تربیت کے حوالے سے جیو نے تاریخی کردار ادا کرکے واقعتا ایک نئے پاکستان کی بنیاد رکھی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ جب جب پاکستانی عوام کو ڈکٹیٹ کرانے کی کوشش کی گئی لوگوں نے اس کے خلاف سخت ردعمل ظاہر کیا۔ 2008ء کے انتخابات میں جب جنرل مشرف نے الیکشن سے ایک روز قبل سائیکل کے ہر حال میں جیتنے کا صدارتی فرمان ارشاد فرمایا تو لوگوں نے ری ایکشن کے طور پر مسلم لیگ( ن) کے انجان امیدواروں کے حق میں فیصلہ لکھا۔ اگر اس وقت مسلم لیگ( ن) تمام حلقوں سے الیکشن لڑتی تو نتائج مختلف ہوتے۔ موجودہ منفی طرز عمل کو رد کر کے پاکستانی عوام نے ثابت کر دیا کہ وہ باشعور بھی ہے، جمہوریت نواز بھی اور اپنی رائے کی تقدیس سے با خبر بھی ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنی کار کردگی کا سرٹیفکیٹ دکھا کر اس سے رائے طلب کرسکتی ہیں مگر اپنی مرضی مسلط نہیں کرسکتیں اور یہی کچھ نواز شریف صاحب نے کیا۔ دشنام طرازی کرنے والوں کو بھی صاحب کہہ کر مخاطب کیا۔ کسی کو بُرا بھلا کہے بغیر اپنا مقدمہ لڑا تو عوام نے بھی غیر جانبدار جج کی طرح اُنکے حق میں فیصلہ لکھ دیا، یہ سوچ کر کہ وہ ملکی سلامتی کی کشتی کو تدبیر، ہوش اور مشاورت سے حالات کے بھنور سے محفوظ رکھنے کا ہنر جانتے ہیں لیکن کوئی بھی لیڈر تب تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک اُسے ایک مثبت فضاء میسر نہ ہو۔ بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں نے ابھی تک انتخابی رسہ کشی کی فضا کو خیر آباد کہہ کر نتائج کو کھلے دل سے تسلیم کیا نہ جیتنے والوں کو مبارکباد کے ساتھ تعاون کا پیغام ہی بھیجا ہے۔
بلکہ گھٹیا الزامات اور منفی جملوں کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک جنگ کا سماں پیدا کیا جا رہا ہے۔ جوکہ اپنے مفہوم اور تاثر کے حوالے سے بہت نقصان دہ ہے مثلاً پنجاب کو شہری اور دیہی حوالوں سے تقسیم کر کے اور دیہاتیوں کو ان پڑھ اور جاہل قرار دے کر ایک نئی طبقاتی جنگ کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا عمران خان صرف شہری، تعلیم یافتہ اور خوش حال طبقے تک محدود رہنا چاہتے ہیں یا ملکی سطح کے رہنما کے طور پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ ہار کو تسلیم نہ کرنا اور دھاندلی کا شور کر کے نوجوانوں کو سڑکوں پر لانا کسی طور دانشمندی کے زمرے میں نہیں آتا کیونکہ یہ انتخابات ایسے نگران سیٹ اپ کی نگرانی میں منعقد ہوئے جس نے مکمل غیرجانبداری کے چکر میں سب سے پہلے پی ٹی آئی، مسلم لیگ ق اور پی پی پی کے کہنے پر نہ صرف پنجاب کی تمام بیورو کریسی تبدیل کر دی بلکہ دیانتدار اور اہل افسروں کی جگہ ان جماعتوں کے منظور نظر افسروں کو تعینات کر کے مختلف سنجیدہ حلقوں اور میڈیا کی طرف سے کڑی تنقید اور ناپسندیدگی کا سامنا بھی کیا۔ نتائج تسلیم نہ کرنا بہت پرانا حربہ اور فرسودہ سٹائل ہے اگر کہیں کوئی غلطی یا کوتاہی نوٹ کی گئی ہے تو اُس کے سدِ باب کیلئے ادارے موجود ہیں۔ عمران خان کو انتخابات سے مکمل طور پر آوٹ اور پیچھے رہ جانے والی جماعتوں کا آلہ کار بننے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ اس کی جماعت ایک بڑی طاقت کے طور پر سامنے آئی ہے بھلے اُس نے کم سیٹیں جیتی ہیں مگر ایک بڑا ووٹ بنک بنانے میں ضرور کامیاب ہوئی ہے۔ میاں نواز شریف نے کامیابی کے بعد تمام جماعتوں کے بارے میں اچھے خیالات کا اظہار کرکے نیک نیتی اور مثبت جمہوری رویوں کا اظہار کیا ہے۔ بلکہ عمران خان کی عیادت کر کے ایک نئی صبح کی بشارت دی ہے کیونکہ آج تک جیتنے والے طاقت کے نشے میں ہارنے والوں کو زیر کرنے کے چکر میں رہتے ہیں۔ پہلی بار ایک مہذب انداز سیاست کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف کو حکومت بنانے کی دعوت بھی نیک نیتی پر مبنی ہے ورنہ دیگر تمام جماعتوں کو ساتھ ملانا حکمران جماعت کیلئے مشکل نہیں تھا۔ ان تمام مثبت رجحانات اور اقدامات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تبدیلی آچکی ہے جسکی خواہش ہر محب وطن پاکستانی کے دل میں ہے۔ سوچ مثبت عمل میں ڈھل رہی ہے اور قوم ترقی، وحدت اور تہذیب کے رستے پر گامزن ہونے جارہی ہے۔
نواز شریف آج اپنے سیاسی شعور اور گذشتہ پانچ سالوں کی کار کردگی کی بنا پر کامیابی کی منزل کو چھو پائے ہیں۔ انھوں نے اپنے ہر عمل سے اپنے آپ کو ایک زیرک سیاستدان ثابت کیا ہے۔ آج سے عمران خان کا بھی امتحان شروع ہے اسے خیبر پختونخوا میں اپنی حکمت عملی ثابت کرنے کا موقع ہے وہ اپنے جنون کو شہباز شریف کی طرح کام سے جوڑ کر مثال قائم کرسکتا ہے۔ خان صاحب قوم آپ کے مثبت رویے کی منتظر ہے، آئیے اور سیاسی شعور کی پختگی کا ثبوت دیجئے۔ عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے ملک کو در پیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے اپنی خدمات پیش کیجئے بھلے وہ مثبت تنقید کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو۔ ورنہ جمہوریت ایک بہترین انتقام ہے اور پی پی پی اسکی زندہ مثال۔
تازہ ترین