• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں جس طرح جمہوریت کو موقع پرست سیاستدان اپنے ذاتی، گروہی اور جماعتی مقاصد کیلئے بروئے کار لاتے رہے ہیں، اِسی طرح بعض عناصر نے اسلام کے مقدس نام کو ذاتی، مسلکی اور سیاسی مقاصد کیلئے جس کمال ہنرمندی سے استعمال کیا ہے، اُس کی مثال مسلمانوں کے کسی اور ملک میں نہیں ملتی۔

اِن عناصر کی جب سیاسی یا دیگر وجوہ کی بنیاد پر مخالفت کی جاتی ہے تو یہ اُسے عالمانہ انداز سے عامیوں کے سامنے اسلام کی مخالفت بنا ڈالتے ہیں، جب جب اُن کی سیاست وسیادت کو خطرہ لاحق ہوتا ہے یہ واویلا شروع کردیتے ہیں کہ اسلام کو خطرہ ہے۔

یہ عوام بالخصوص اپنےمکتب کےلوگوں کوہمہ وقت فعال رکھنے کیلئے،اسلام کے خلاف صہیونی سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے جیسےسلوگن دیتے رہتے ہیں۔ حالانکہ جن وانس میں یہ قوت ہی نہیں ہے کہ وہ اسلام کو کوئی نقصان پہنچا سکیں۔

ہاں جہاں تک مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی بات ہے تو سب سے زیادہ نقصان اُنہیں وہی پہنچا رہے ہیں جو اُنہیں تقسیم در تقسیم کئے رکھتے ہیں، نیز جدید تعلیم سے دور رکھ کر اُس یہود و ہنود کے ہر شعبے میں غلام بنائے ہوئے ہیں جن کی غلامی کا رونا یہ عناصر بلاناغہ روتے رہتے ہیں۔ دین کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی یہ داستان بہت طویل ہے۔

ہم لیکن جب برصغیر میں مغلوں کی منظم ریاست کی تشکیل تک پہنچتے ہیں تو ہمارے سامنے سیاست و اقتدار کی خاطر مسلمانوں کو گمراہ کرنےکا منظم انداز ملتا ہے۔

مغلوں نے چونکہ ہندوستان کا تخت افغانوں سے زرخرید افغانوں ہی کی مدد سے چھینا تھا، اِس لئے جہاں اُنہوں نے افغانوں کی نفسیات کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگاتے ہوئے ایک طرف خزانوں کے منہ اُن پر کھول رہے تو دوسری طرف مذہب کے کارگر نسخے کو بھرپور طور پر استعمال میں لایا گیا۔

جب پیر روشن بایزید انصاریؒ نے افغانوں کو اصل دین مبین سے روشناس کیا اور مغل سلطنت کیخلاف ایک ایسی عظیم تحریک بپا کی جسکا مقابلہ مغل ایمپائر کیلئے ملائوں کی سطح پر ممکن نہ رہا تو پھر اُس نے جعلی پیر مرید تخلیق کئے اور اس کا کامیاب تجربہ سوات و گرد و نواح میں کرتے ہوئے پیر روشن کی تحریک کو ناکام بنا ڈالا۔ ریاستی سطح پر بعد ازاں انگریز نے اس نسخے سے پورا پورا فائدہ اُٹھایا۔ صوبہ سرحد (پختونخوا) کے گورنر سرجارج کنگھم کی ڈائری میں مرقوم ہے کہ کس طرح بعض مذہبی عناصر ارزاں نرخ پر حریت پسندوں کیخلاف دستیاب ہوئے۔

کہنا یہ ہے کہ ہر دور کی طرح موجودہ دور میں بھی خالص اور آمیزش شدہ نظریے میں امتیاز کرنا مشکل امر ہے۔ اِس میں دو رائے نہیں کہ موجودہ پاکستان میں دین اسلام کی حقیقی معنوں میں تبلیغ و اشاعت کیلئے علمائے حق سرگرم ہیں، لیکن جس ملک میں دو عیدیں منانا روایت بن جائے اور عام مسلمان روزہ جیسی عبادت اور عید جیسے دینی تہوار مناتےہوئے اس مخمصے سے دوچار ہو جائے کہ خدا جانے ہمارا روزہ و عید درست ہیں یا نہیں، جس ملک کے مذہبی عناصر اُمت کو ایک لڑی میں پرونے کیلئے گھنٹوں تقاریر کرتے نہ تھکیں

لیکن ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے کیلئے بھی آمادہ نظر نہ آئیں، جس ملک میں انتخابی نشان کتاب کو سادہ مسلمانو ں کےسامنے قرآن مجید قرار دیتے ہوئے ووٹ لے کر حکومت بنائی جائے، اور پھر ایک آمرکی 17ویںترمیم میں وہ ووٹ کام آئے اور نوبت یہاں تک آئےکہ حلیف جماعت اسلامی کا سربراہ دوسرے حلیف کیلئے یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ جے یو آئی وہ ہڈی ہے جسے نہ اُگل سکتے ہیں اور نہ نگل سکتے ہیں۔

جس ملک کے مذہبی پیشوا افغانستان میں امریکی روسی جنگ کو جہاد قرار دیں اور پھر 40لاکھ افغانوں کے قتل کےبعد امریکہ کے واحد سپر پاور بننے پر کہیں کہ یہ تو جہاد نہیں تھا، تو کیا اِس ملک میں عوام کو اندھا مقلد بن کر صرف اس لئے کسی کے پیچھے چل پڑنا چاہئے کہ وہ بظاہر اسلام کی بات کر رہا ہے؟ یہ ہے آج کا سوال؟ آج دنیا میں کسی بھی ملک میں مسلمانوں کے اتنے فرقے نہیں ہیں، جتنے پاکستان میں ہیں، تو کیا ہم پر تحقیق کا بار سب سے زیادہ نہیں؟ بعض عناصر جدید تعلیم کوگمراہی سے تعبیر کرتے ہیں، اِسی وجہ سے قوم کے لاکھوں بچے جدید تعلیم سے محروم ہوتے ہوئے عملی زندگی میں کارآمد نہیں بنتے۔

گزشتہ جمعے کے خطبے میں ایک صاحب سائنس کی اہمیت سے انکار کرتے ہوئے شعبہ انجینئرنگ کو برُا بھلا کہہ رہے تھے لیکن مائیک، موبائل، بلب، بجلی اور دیگر وہ آلات استعمال کررہے تھے جو سائنس و شعبہ انجینئرنگ ہی کا کمال ہیں۔ کیا عوام کو قول و فعل کا یہ تضاد سامنے نہیں رکھنا چاہئے؟ جے یو آئی میں اختلافات کا درس یہ ہے کہ دوسروں کو ایک اللہ، ایک قرآن اور ایک رسولﷺ کے نام پر اتحاد کا درس دینے والے آخر باہم دست و گریبان کیوں ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ بھی امریکی سازش ہو؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین