• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یورپی یونین میں جعلی خبروں کے حوالے سے کام کرنے والے تحقیقاتی ادارے ’’ای یو ڈس انفو لیب‘‘ (EU Disinfolab) کی حالیہ رپورٹ کے انکشاف سے بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہوگیا ہے۔ برسلز میں قائم یہ ادارہ اُن گروپوںاور تنظیموں کا سراغ لگاتا ہے جو سوشل میڈیا کے ذریعے غلط اور گمراہ کن اطلاعات پھیلانے میں ملوث ہوتی ہیں۔ گزشتہ دنوں ادارے نے اپنی دو سالہ تحقیقاتی رپورٹ میں ایک ایسے بھارتی نیٹ ورک کا پردہ چاک کیا ہے جو دنیا کے 116 ممالک میں 750 سے زائد جعلی خبروں کی ویب سائٹس کے ذریعے گزشتہ 15 سالوں سے پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرکے بدنام کررہا تھا۔ رپورٹ کے مطابق تقریباً 10 ایسی این جی اوز کا بھی پتہ چلا ہے جو نئی دہلی میں قائم پاکستان مخالف ’’سری واستو گروپ‘‘ کا حصہ ہیں جنہیں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے منسلک کرکے پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کیلئے استعمال کیا جاتا رہا۔ گروپ کی سرگرمیاں صرف روایتی اور جدید میڈیا کے ذریعے جھوٹی اور غلط خبریں پھیلانے تک محدود نہیں تھیں بلکہ یہ گروپ غیر سرکاری تنظیموں اور تھنک ٹینکس کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف مظاہرے، پریس کانفرنسز اور اقوام متحدہ کے زیر انتظام ہونے والی سرگرمیوں میں زہر اگلتا رہا ہے جبکہ بھارتی سرکاری نیوز ایجنسی ’’اے این آئی‘‘ بھی سری واستو گروپ کی پاکستان مخالف سرگرمیوں کا حصہ رہی ہے۔

ڈس انفولیب کے حالیہ ہوشربا انکشاف چونکا دینے والے ہیں جن کی پاکستان کئی بار ماضی میں بھی نشاندہی کرچکا تھا۔ EU ڈس انفورپورٹ سے عالمی توجہ ہٹانے کیلئے گزشتہ کئی دنوں سے بھارتی میڈیا نے برسلز میں قائم ای یو پاک فرینڈشپ فیڈریشن اور اس کے چیئرمین پرویز لوسر کے خلاف منظم مہم شروع کر رکھی ہے۔ حال ہی میں بھارتی اخبارات نے پرویز لوسر کی تصاویر شائع کرکے اُن پر الزام لگایا ہے کہ وہ یورپی پارلیمنٹ کے ممبران پر اثر انداز ہوکر اُنہیں بھارت کے خلاف استعمال کررہے ہیں جبکہ یورپ میں مقیم بھارتی سکھ برادری کو ساتھ ملاکر خالصتان تحریک کی حمایت بھی کررہے ہیں۔ پرویز لوسر کو یہ دھمکیاں بھی ملی ہیں کہ وہ یورپ میں کشمیر کاز کے حق میں آواز بلند کرنے سے باز رہیں۔ ای یو پاک فرینڈشپ فیڈریشن یورپ میں مقیم محب وطن پاکستانیوں کی سرگرم تنظیم ہے جس کے چیئرمین پرویز لوسر کشمیر کاز کیلئے سرگرم عمل رہتے ہیں اور پورے یورپ میں اپنے ساتھیوں اور سکھ برادری کے ساتھ مل کر یورپی پارلیمنٹ، عالمی عدالت انصاف اور یورپ میں قائم بھارتی سفارتخانوں کے سامنے بھارت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کرواتے رہے ہیں جس کے نتیجے میں یورپی پارلیمنٹ میں مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کیلئے حالیہ دنوں میں نرم جذبہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پرویز لوسر کے یورپی یونین کے ممبران سے بھی قریبی تعلقات ہیں اور اُن کی ذاتی کوششوں سے کچھ ماہ قبل مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے یورپی پارلیمنٹ میں ہونے والی ایک تاریخی پیشرفت میں یورپی پارلیمنٹ کے نائب صدر اور دیگر 15 ممبران پارلیمنٹ نے یورپی کمیشن کو خط میں اُن کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی اور بھارتی فوج کی بربریت کی طرف دلائی تھی اور مطالبہ کیا تھا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی اور بھارتی بربریت فوری طور پر بند کرائے جس کے بعد یورپی پارلیمنٹ کی جانب سے بھارت کو دو سخت خطوط لکھے گئے جس میں مقبوضہ کشمیر میںمظالم کا ذمہ دار بھارت کو ٹھہرایا گیا۔

EU ڈس انفو لیب کی رپورٹ دنیاکی آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس پی آر پاکستان پر اکثر ففتھ جنریشن وار مسلط ہونے کا ذکر کرتے رہتے ہیں اور حالیہ نیٹ ورک بھی اسی وار کا حصہ ہے جس کا مقصد میڈیا اور سوشل میڈیا کو استعمال کرکے بھارت کا مثبت اور پاکستان کا منفی امیج دنیا میں اجاگر کرنا ہے۔ بھارت ہمیشہ سے یہ کہتا آیا ہے کہ وہ عالمی سطح پر پاکستان کو تنہا کرنا چاہتا ہے اور EU ڈس انفولیب کی حالیہ رپورٹ سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔ گوکہ EU ڈس انفولیب نے پاکستان کو بدنام کرنے والے نیٹ ورک کا تعلق بھارت سے ضرور جوڑا ہے مگر اس کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ملوث ہونے کے حوالے سے خاموشی اختیار کی ہے۔ حالیہ رپورٹ سے بھارتی حکومت پر عالمی دبائو ہے کہ وہ اس بات کا جواب دے کہ پاکستان کو بدنام کرنے کی مہم کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے اور اس کے کیا مقاصد ہیں؟ عالمی برادری اس معاملے پر اپنی آواز بلند کرے اور بھارت سے اس گروپ کے بارے میں وضاحت طلب کرے جو بےنقاب ہوا ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ ای یو ڈس انفولیب کے انکشافات کے بعد ترکی نے پاکستان کو بدنام کرنے والی بھارتی ویب سائٹس کو بلاک کردیا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ پاکستان اپنے دوسرے دوست ممالک سے بھی اِن بھارتی سائٹس کو بلاک کرنے کی درخواست کرے اور یورپی پارلیمنٹ میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے جعلی بھارتی نیٹ ورکس کو بند کروانے میں اپنا کردار ادا کرے جس کی مشینری پاکستان کے خلاف متواتر زہر اگل رہی ہے۔ اگر پاکستان نے اس معاملے پر عالمی سطح پر آواز بلند نہ کی تو بھارتی منفی پروپیگنڈے سے مستقبل میں پاکستان کو بڑا نقصان پہنچ سکتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین