• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایسا لگتا ہے زندگی کا سفر

کوئی لمبی سی رات ہو جیسے

قمر ریاض نے کتنی سہولت سے زندگی کا فلسفہ دو مصرعوں میں بیان کردیا مگر کون جانے،اظہار تک پہنچتے پہنچتے رنج،طنز اور بے مروتی کے نوکیلے کنکر دل پر کیسی سنگ باری کرتے ہیں تو لفظ تخلیق ہوتے ہیں ۔دوہزار بیس کی خاموش اذیتوں کاشمار کریں تو یہ شعر ہر دل کی آہ بنتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔اگرچہ نا امیدی کی کچھ دھند کم ضرور ہوئی ہے مگر خوف کی تمام چوکیاں قائم دائم ہیں۔ایک سمت سے سکون کی ہوا بلند ہوتی ہے تو دوسری سمت سے کوئی ان ہونی منتظر ہوتی ہے۔دسمبر ملال کامہینہ ہے۔نہ جانے اس کے ساتھ کچھ کھو جانے کا خدشہ دھڑکن میں درد بن کر کیسے سرایت کر گیا ہے۔اس مہینے دنیا بھر میں دانش کے بلند معیار پر متمکن افراد اپنے ملک وقوم کے علاوہ اقوامِ عالم کی کارکردگی،کامیابی اور ناکامی کا تجزیہ کرتے ہیں۔ درجۂ حرارت کی طرح گھٹتے بڑھتے معاشی معاملات اور اخلاقی اتار چڑھاؤ کی وجوہات تلاش کرتے ہیں لیکن زیادہ تر اپنی ذات کی پسپائی کا محاسبہ کرتے ہیں۔ ذات سے ہی کائنات جڑی ہے۔یہ محاسبہ زیادہ بھاری ہو جاتا ہے کیونکہ یہ دھیرے دھیرے ہر شے اور ہر فرد کو دائرے میں گھسیٹ لیتا ہے۔انسان گزشتہ سالوں کے واقعات کو دہرا کر کبھی حِظ اٹھاتا ہے اور کبھی ملال کے گہرے تالاب میں پتھر پھینک کر اضطراب کی لہروں میں گم ہونے کی سعی کرتا ہے۔جب سے ہوش کی آنکھ سے دنیا کو پڑھنا اور اطراف میں دیکھنا شروع کیا،سال کے کیلنڈر میں دسمبر کو گہرے رنج کے رنگ میں لپٹا ہوا محسوس کیا مگر اس سال کا دسمبر کچھ زیادہ ہی اذیت ناک ہے۔ جن کو فراموش کر چکے تھے وہ بھی یادداشت کے صحن میں آبیٹھے ہیں۔۔فراغت نے آنکھوں کو پتے جھڑنے کا عمل دیکھنے اور جھیلنے پر ایسا مجبور کیا کہ زندگی کے معنی ہی بدل گئے۔ نئی تشریح اور نئے زاویے سامنے آن کھڑے ہوئے۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ انسان بےبسی اور بے چارگی کی رت میں بھی بے حسی اور منافقت کی چادر اتار پھینکنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ جبلت اور جنون کی زنجیروں میں جکڑے رہنے کو اپنا افتخار سمجھا تو پھر چابک اور رسی سے نجات کیسے حاصل کرتا؟ زندگی اور موت کا تعاقب ہمیشہ سے جاری تھا اور جاری رہے گا۔لوگ ہماری آنکھوں کے سامنے دنیا سے جاتے رہتے ہیں۔ مگر دنیا کی رونقوں، ہنگاموں اور روزمرہ کی مصروفیات میں ہمیں کم کم یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم اپنے دوستوں، عزیزوں اور خیر خواہوں سے جدا ہو کر کتنے زیادہ کنگال اور تنہا ہوتے جا رہے ہیں۔ ہر لمحہ کسی بڑے کے گزر جانے کی خبر اعصاب پر بجلی کی طرح گرتی ہے۔کیونکہ ان میں سے بہت سے لوگوں کے ساتھ ہماری زندگی کے اسباب، خوشیاں، ہمدردیاں وابستہ ہوتی ہیں۔ گزشتہ ہفتے روایتوں کے پاسدار ضیاءالحق نقشبندی نے دو بڑی ہستیوںانور قدوائی اور عبدالقادر حسن کی یاد میں ایک محفل کا اہتمام کیا۔ مجیب الرحمنٰ شامی، حسن نثار،سہیل وڑائچ،امان انور قدوائی اور آصف عفان نے یادوں کی الماری سے خوشبو بھرے خط نکال کر پڑھے تو محفل پر سکوت طاری ہو گیا۔ہر فرد کسی نہ کسی کا رہنما ہوتا ہے۔ فنون لطیفہ اور میڈیا سے جڑے لوگ بہت سے لوگوں کے آئیڈیل اور اپنے بن جاتے ہیں۔کچھ لوگوں کو آپ عمر بھر نہیں ملتے مگر ان کے لفظ آپ کی راہوں کے جگنو بن جاتے ہیں۔مجھے یاد ہے جب تحقیقی مراحل کے دوران مجھے کچھ انگریزی مضامین شائع کروانے تھے تو اساتذہ میں سے کسی نے انور قدوائی کا حوالہ دیا۔مضمون بھی ساتھ لے گئی تھی۔انتہائی بارعب اور تمکنت کے حامل انور قدوائی صاحب اپنی سیٹ سے اٹھ کر دی نیوز کے سیکشن میں میرے ہمراہ گئے اور کسی کو مضمون چھاپنے کے ساتھ کانٹ چھانٹ کا حکم نامہ بھی جاری کیا۔شکرگزاری اور سرشاری نے عقیدت کا عجب تعلق استوار کر دیا۔جب بھی ان سے ملاقات ہوئی، دانش،تہذیب اور اقدار کی کوئی سوغات لے کر آئی۔ایک چلتی پھرتی تہذیب، جدید زمانے کے ملبوس میں صوفیا جیسی سیرت کسی نہ کسی حوالے سے مخاطب پر اثرانداز ہوتی تھی۔لوگ چلے جاتے ہیں، نقش چھوڑ جاتے ہیں۔ ان نقوش سے نئے دیپ جلانا اصل ذمہ داری ہے جسے امتحان کی طرح نہ سمجھا جائے تو کامیابی مشکل ہو جاتی ہے۔بہرحال سانس کے ساتھ امید کا دھاگہ باندھے رکھنا انسان کی سرشت میں رکھا گیا ہے۔خدا کرے نیا سال روشن دن سا ہو۔روشنی کی طاقتور کرنیں دکھوں کے تمام اندھیروں اور دھندلکوں کا صفایا کرکے کل کائنات کے انسانوں کے راستے کی سمت درست کردیں۔

تازہ ترین