• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حضرت علامہ اقبال کے فرزند جسٹس (ر) جاوید اقبال مرحوم نے ہیپی نیو ایئر منانے کے متعلق یہ کہہ رکھا ہے کہ ”نئے سال کی آمد پر خوشی اِس لئے منائی جاتی ہے کہ لوگوں کو نئے سال میں خیر کی توقع ہوتی ہے۔ نیو ایئر پر خوشی منانے کی رسم قدیم زمانے کی ہے، تب یہ سمجھا جاتا تھا کہ پچھلا سال گزر گیا اور اگلا سال امید کا ہوگا کیونکہ دنیا امید پر ہی قائم ہے“۔ ڈاکٹر صاحب نے وضاحت کی تھی کہ ”نیو ایئر منانے کی رسم مغرب نے شروع نہیں کی بلکہ یہ یونانیوں اور رومیوں کے عہدسے شروع ہوئی۔ یہ رسم مسیحیت سے بھی پہلے کی ہے۔ مسلمانوں میں یہ رسم ایران سے آئی ہے، جہاں نوروز کا جشن منایا جاتا ہے“۔ڈاکٹر صاحب نے نیو ایئر کے حوالے سے جو حقائق بیان کئے ہیں، اُن پر بحث کی جا سکتی ہے۔ درویش کا ماننا ہے کہ ہمارے ذہنوں کے عجیب سانچے بن گئے ہیں کہ ہر مباح چیز کو بھی غیراسلامی قرار دے کر اُس کی مخالفت شروع کر دی جاتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ جب چھاپہ خانے جیسی مفید صنعت کا آغاز ہو رہا تھا تو ایسے لوگ بھی موجود تھے جو اُسے غیراسلامی ثابت کرنے پر تلے بیٹھے تھے۔ بیسیویں صدی کے آغاز میں جتنی بھی عظیم الشان ایجادات ہوئی ہیں، ہمارے روایتی مذہبی علماء و فقہا نے اُنہیں اپنی قوم کے سامنے ”فتنۂ دجال“ کے معنوں میں بیان کیا۔ جب ترکی میں پہلی مرتبہ اسپتال بن رہا تھا تو شیخ الاسلام اُس کی مخالفت میں فتاویٰ جاری فرما رہے تھے۔ انتقالِ خون جیسے زندگی بچانے والے کام کو غیراسلامی بتایا جاتا رہا۔ اعضاء کی پیوند کاری کی اب تک مخالفت کی جا رہی ہے۔ افسوس ہے کہ ہماری مسلمان قوم نے سنت اور بدعت کے فرق کو سمجھا ہی نہیں ۔ ہر نئی چیز کے بارے میں بدعت کا لفظ رٹ لیا گیا ہے، حالانکہ بدعت سے مراد ایسی اختراع ہے، جو انسانیت کے لئے مضر یا نقصان دہ ہو، اِس تنگ نظری پر مبنی سوچ کا نقصان بھی سب سے زیادہ اِس امتِ مسلمہ نے اٹھایا ہے۔ ہم نے کئی دوستوں کے سامنے یہ سوال رکھا ہے کہ بتاؤ مسلمانوں نے 14صدیوں میں کوئی قابلِ ذکر ایجاد کیوں نہ کی؟ ساری کی ساری ایجادات غیرمسلموں نے کی ہیں، بالخصوص مغرب کے مسیحیوں نے یا سیکولر لوگوں نے تو اُس کی وجہ کیا ہے؟ اُس پر پہلے تو اسپین کے چند حکماء کا ذکر شروع کر دیا جاتا ہے حالانکہ وہ سب بھی اپنے دور کے سیکولر مسلمان تھے، اُس کے باوجود ایسے حضرات کسی ٹھوس ایجاد کا نام لینے سے قاصر ہوتے ہیں، جو مسلمانوں نے کی ہو، اِس پر از راہِ تفنن ہم یہ کہتے ہیں کہ ”جیسی ٹیوب لائٹس مسلم دور عروج میں تھیں، ویسی ٹیوب لائٹس بھلا آج کہاں، جیسی سواریاں قرون اولیٰ میں تھیں، ویسی سواریاں بھلا آج کہاں، جیسے فریج، ٹی وی مسلم دور اقتدار میں تھے، ویسے بھلا آج کے یورپ اور امریکہ میں کہاں، ہم تو عظیم لوگ ہیں، ہمارے جیسی حکمرانی بھلا کسی اور نے بھی کی ہے کہیں“؟

درویش سے کئی نوجوان یہ پوچھتے ہیں کہ کیا واقعی نئے سال کی خوشی منانا یا مبارکباد کے پیغامات بھیجنا غیراسلامی افعال ہیں؟ ناچیز کا جواب ہوتا ہے کہ دیکھیں ہر چیز اسلامی یا غیراسلامی کے خانوں میں نہیں ہوتی۔ بہت سی باتیں ہیں جو مباح ہیں۔ آپ کے ذوق پر ہے کہ آپ کریں، بےذوق ہیں تو بھلے نہ کریں۔ اسلام جس خطے میں پروان چڑھا، وہ عرب خطہ تھا تو لازمی بات ہے کہ عربوں کے کلچر کی بہت سی باتیں اُس کا حصہ بن گئیں، حالانکہ اگر تجزیہ کیا جائے تو اُن میں سے بہت سی چیزیں یونیورسل نہ تھیں، جس کو ہم اسلامی سال کہتے ہیں، یہ بنیادی طور پر قمری سال ہے اور جس کو ہم عیسوی سال کہتے ہیں، وہ بنیادی طور پر شمسی سال ہے۔ یہ پوری کائنات اگر خدا کی ہے تو چاند اور سورج دونوں اسی پروردگار عالم کی تخلیق ہیں، اِس لئے دونوں میں سے جس کے مطابق بھی حساب کتاب کر لیا جائے، وہ سب کا سب جائز و مستحسن ہے۔دنیاوی معاملات چلانے کے لئے یہ کیلنڈر یا تاریخیں، ہر قوم اپنے حالات کی مناسبت میں جس طرح سہولت محسوس کرے، اسی کیلنڈر کو اختیار کر سکتی ہے (مذہبی عبادات کا معاملہ ایک قطعی الگ مسئلہ ہے)۔ اب اگر ہم سچائی کے ساتھ جائزہ لیں تو ہماری سوسائٹی میں کتنے لوگ ہیں جو ایسا سوچتے ہیں؟ ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی گفتگو میں مزید کہا تھا کہ اسلام میں شراب نوشی، مردار، خنزیر کھانے اور خون پینے سے منع کیا گیا ہے مگر ہم جو روز چرغے کھاتے ہیں، ہمیں کیا پتا کہ یہ مردار مرغ تھا یا نہیں تھا؟ ایسافاسٹ فوڈ بھی بازار میں موجود ہے، جن سے خون نہیں نکالا گیا ہوتا مگر لوگ کھاتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر کوئی اپنے کمرے میں بیٹھ کر شراب پی لے اور نقصِ امن کا باعث نہ بنے تو قانون کے تحت اسے سزا نہیں دی جا سکتی۔ مذہب کے حکم کی تعمیل نہ کرنے پر اللہ تعالیٰ موجود ہے اور وہ معاف کرنے والاہے۔ ڈاکٹر صاحب کی یہ گفتگو پورے آرٹیکل کا پیش خیمہ ہے لیکن ہم اِس دلچسپ موضوع کو آئندہ پر اٹھا رکھتے ہیں۔

تازہ ترین