• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کی ہم رکابی میں پاکستان بھی 2020ء کا دشوار گزار سفر طے کرکے 2021ء میں قدم رکھ چکا ہے۔نئے سال میں قدم رکھتے ہوئے اس سمے یہ خیال بھی ذہن سے محو نہیں ہوپاتا کہ ہم اکیسویں صدی کے دو عشرے بھی طے کرچکے ہیں۔اس صدی کے آغاز پر کیسے کیسے خواب دیکھے گئے تھے۔نئی صدی کا آغاز نئے ہزاریے کا بھی آغاز تھا۔سوچا گیا تھا کہ اس صدی میں انسان کی برق رفتاری میں اور بھی اضافہ ہوگا اور زندگی کی شب تاریک کو سحر کرنے کی انسانی جدوجہد بہت سی کامرانیوں سے ہمکنار ہوگی۔گذشتہ بیس برسوں میںواقعی دنیا میں بہت کچھ اچھا بھی ہوا ہے ۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی نے لوگوں کو، ملکوں اور ثقافتوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع فراہم کردیا ہے ۔نت نئی دریافتیں منصۂ شہود پر آرہی ہیں۔معلومات کی ترسیل اور علم کی تخلیق کی نئی راہیں کھل رہی ہیں ۔لیکن انسانی تاریخ کے بعض بنیادی مسائل کسی نہ کسی شکل میں ہنوز موجود ہیں۔دنیا کی ، طاقتوروں اور کمزوروں میں تقسیم ،نسلوں ، ذاتوں اور مسلکوں کے تفرقے،نسلی اور مذہبی انتہا پسندی اور خود ترقی یافتہ ریاستوں کا بھی اس رجحان کی گرفت میں آجانا، جنگ بازی اور اسلحہ سازی کا اشتیاق، یہ اور ایسے ہی مسائل جو صدیوں سے انسانی تہذیب کو گھائل کرتے چلے آئے ہیں،اکیسویں صدی میں بھی انسان ان سے عہدہ برآ نہیں ہوسکا۔

ملکِ عزیز کے بارے میں سوچیں تو ماضی کا تسلسل یہاں بھی بغور دیکھا جاسکتا ہے ۔صرف گذشتہ سال ہی کے بارے میں سوچیں تو اس میں بھی وہی ماضی کے مناظر، وہی سیاسی کلچر، وہی الزامات اور جوابی الزامات، وہی غداری اور حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ، ایسا لگتا ہے کہ پچھلے سال میں اور اس سے پہلے کے سالوں میں شاید ہی کوئی فرق رہا ہو۔ اگر کوئی فرق آیا بھی ہے تو وہ کوروناکی وبا کے نتیجے میں ہمارے معاشرے کی کمزوریوں اور حکومتوں کی نااہلیوں اور نالائقیوں کے مزید نمایاں ہوجانے کی صورت میں آیا ہے ۔

2020ء کا آغاز جس وقت ہوااُس وقت تک 2018 ء میں منتخب ہونے والی حکومت کو برسراقتدار آئے ہوئے کوئی ایک سال اور چار ماہ کی مدت ہوئی تھی۔اس مدت میں نئی حکومت کے ہر شعبے کے حوالے سے ناواقفیت اور بغیر کسی تیاری کے اقتدار میں آجانے کا تاثر مستحکم ہوتارہا۔حکومت کے پاس کچھ شعبوں میں افرادِ کار ہی نہیں تھے۔کئی وزارتیں ناتجربہ کار وزیروں کے سپرد کردی گئیں۔ابتدائی فیصلہ سازی کسی محکم سوچ کے بجائے سیاسی طور سے نمایاںہونے کی مظہر نظر آتی تھی۔اقتدار میں آنے سے پہلے نعرہ لگایا گیا تھا کہ ہم کشکول توڑ دیں گے۔چند ماہ تک کشکول کو واقعی خود سے دور رکھا گیا لیکن پھر نہ صرف آئی ایم ایف کی طرف گئے بلکہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین کی طرف کشکول بڑھایا گیا۔آئینی اداروں میں سے اکثر میں تالے پڑے رہے۔

نیشنل فائنانس کمیشن ایوارڈ کی شروعات نہیں ہوسکیں۔کائونسل آف کامن انٹرسٹس بڑی حد تک عضوِ معطل بنی رہی۔وزیراعظم پارلیمنٹ کے ایوانوں میں کبھی کبھار ہی تشریف لائے ۔وہ کئی مرتبہ صدارتی نظام کے لیے اپنی پسندیدگی کا اظہار کرچکے تھے۔اُن کا مزاج اراکین پارلیمنٹ میں سے اپنی ٹیم چننے اور کابینہ سمیت مقننہ کے سامنے جوابدہ ہونے کے پارلیمانی طریقے سے مناسبت کم اور ملک بھر سے چند ماہرین کو چن کر ان کی مدد سے ، بغیر کسی قابل ذکر جوابدہی کے حکومت کرنے کا زیادہ تھا ۔مگر ان کی مجبوری یہ تھی کہ ان کو پارلیمانی نظام کے تحت انتظامی سربراہ کے منصب پر فائز ہونا پڑاتھا۔

اس منصب پر فائز ہونے کے بعد جب انہیں اراکینِ پارلیمنٹ میں سے مناسب اور موزوںوزرا دستیاب نہیں ہوئے تو انہوں نے پارلیمنٹ کے باہر سے مشیروں کو شامل کرنا شروع کردیا،خاص طور سے ملک اور بیرونِ ملک سے ماہرینِ معاشیات میںسے اپنے مشیر اور اسپیشل اسسٹنٹ تلاش کرکے کابینہ تشکیل دی۔ایسا کرتے وقت پھر صدارتی نظام کے زیادہ موزوں ہونے کا احساس ہوا ۔اس کا مطلب یہ تھا کہ ہمارے بعض رہنما ملک کے آئینی نظام سے مطابقت پیدا کرنے کے بجائے نظام کو اپنے مطابق بنانے کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں ۔

2020ء میں سیاست و معیشت کے مسائل اور بھی زیادہ گھمبیر اور اُن کو حل کرنے کے ذمہ دار مزید بے تعلق ثابت ہوئے ۔اس صورت حال پر نظر ڈالنے سے قبل ضروری ہے کہ پاکستان کے چند بنیادی ساختیاتی(Structural) حقائق کو پیش نظر رکھا جائے ۔پاکستان کی ریاست کا ارتقا جس نہج پر ہوا ہے اُس کے مطابق بدقسمتی سے یہ روز اول ہی سے سماجی انصاف،عوامی بہبود اور ترقی کے اہداف کو سامنے رکھ کر استوار ہونے والی فلاحی ریاست نہیں بن سکی تھی۔ہمارے ارد گرد کے حالات ، خاص طور سے ہندوستان کے ساتھ معاندانہ تعلقات کے سبب،اور پھر داخلی طور پر مؤثر اداروں اور اقتدار سے متعلق اشرافیہ کے مخصوص مفادات اور تصورات کی بنا پر نے ملک ایک فلاحی ریاست کی منزل کی طرف بڑھنے سے محروم رہا۔

ریاست کی ترجیحات، قومی سلامتی کے مخصوص اہداف تک محدود ہوگئیں اور تعلیم، صحت اور انسانی ترقی کے دوسرے شعبے پس منظر میں ڈال دیے گئے۔ملک کے داخلی تنوعات کے اعتراف کے برخلاف شدید قسم کا مرکزیت پسندانہ نظام ملک میںرائج کردیا گیا۔آئینی دروبست یا تو ملک میں موجود ہی نہیں رہا اور اگر وجود میں آیا بھی تو اس کی حیثیت محض ایک تکلف کی رہی۔ حکمران طبقات اور اداروں نے اکثر آئین سے ماورا اقدامات کا سہارا لیااور ملک کی اعلیٰ عدالتوں نے بھی اکثر ان کی توثیق کی ۔

ریاستی دروبست کا دوسرا پہلو پاکستان کا اقتصادی لحاظ سے خود مختار نہ بننا تھا ۔شروع ہی سے ملک میں جس قسم کی پالیسیاں وضع کی گئیں اور ریاست کا جو تشخص ابھار اگیا، ان کی بقا اور تسلسل کے لیے بیرونی سہارے ناگزیر تھے ۔سو آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک، ایشین ڈیولپمنٹ بینک اور ایسے ہی بین الاقوامی ادارے ہمارے سرپرست قرار پائے اور آج بھی یہی ادارے ہمارے ریاستی امور کو صرف اقتصادی دائرے ہی میں نہیں بلکہ دیگر شعبوں میں بھی کنٹرول کررہے ہیں ۔

ریاست کے حوالے سے تیسری اہم حقیقت یہ ہے کہ سیاسی نظام اور سیاسی دروبست بھی بنیادی طور پر ریاست کے ، قومی سلامتی کے ڈھانچے اور عالمی مالیاتی اداروں کی حاکمانہ شرائط کے دائرے ہی میں کام کرنے پر مجبور ہے۔

2020ء میں رونما ہونے والے سیاسی و اقتصادی واقعات کے پیچھے کارفرما رہے ہیں۔ سامنے نظر آنے والی سیاسی آویزش ، سیاستدانوں کے بیانیے ، حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان بیان بازیاں، ٹی وی چینلوں پر ایک دوسرے کا حساب بے باق کرنے کی روزانہ کی مشقیں، یہ سب کچھ بہت سطحی اور کھوکھلا محسوس ہوتا ہے، جب ہم ان سب کے پیچھے موجود اصل مسائل اور تضادات پر نظر ڈالتے ہیں ۔2020ء میں جو کچھ ہوا ہے وہ دراصل انہی بنیادی تضادات کا مزید اجاگر ہوجانا اور اپنی حشر سامانیوں کو نت نئے رنگوں میں پیش کرنے کا عمل ہے ۔اس ساری صورت حال میں عوام بحیثیت مجموعی وہ پِسی ہوئی مخلوق ہیں جو بمشکل زندگی کا بار برداشت کررہی ہے۔ عوام کے پاس کوئی راہِ فرار بھی نہیں اور پچھلے تین چار عشروں میں معاشرے کے تیزی کے ساتھ غیر سیاسی بنادیے جانے Depoliticization کے نتیجے میں اب ان میں احتجاج کا یارا بھی نہیں ۔

آئندہ سطور میں ہم مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں گذشتہ برس کے احوال کا ذکر کریں گے ۔دوسرے لفظوں میں ہم یہ دیکھنا چاہیں گے کہ ریاست سے متعلق بیان کردہ ہمارے بنیادی حقائق کا پرتو گذشتہ برس کے واقعات میں کس طور نظر آیا۔

2020ء میں ہماری ریاست کی داخلی حرکیات (dynamics) میں کوئی بنیادی تبدیلی واقع نہیں ہوئی بلکہ ریاست کے اندر موجود اسٹیبلشمنٹ یا مقتدرہ کی طاقت میں اضافہ ہی ہوا۔یہ مقتدرہ قیام پاکستان کے بعد کچھ تو ملک کے اندر دیگر اداروںاور سماجی طبقات کے مقابلے میں اپنے زیادہ مضبوط ہونے کی بنیاد پر طاقتور قرار پائی تھی ،کچھ اس کی طاقت کا سبب بیرونی اور خاص طور سے امریکی پشت پناہی تھی۔سرد جنگ کے زمانے میں پاکستان نے امریکااور مغربی بلاک کے حلیف کی حیثیت سے جو تابعداری کا کردار ادا کیا تھا،یہاں تک کہ نہ صرف اپنی سرزمین امریکی فوجی اڈوں کے لیے فراہم کی تھی بلکہ کوئی دس سال افغانستان میں جہاد کے نام پر مغربی بلاک کے ایما پر جنگ کا محاذ بھی گرم کر رکھا تھا۔

سرد جنگ کے خاتمے کے بعدپاکستان بظاہر امریکی التفات سے محروم ہوگیا لیکن پھر نائن الیون کے واقعہ کے بعد ایک مرتبہ پھر امریکا کی توجہ پاکستان کی طرف مبذول ہوئی۔پاکستان نے ایک مرتبہ پھر اپنے ہوائی مستقر اور اپنی فضائی حدود امریکاکی افغانستان میں کاروائیوں کے لیے کھول دیں۔لیکن اس بار امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں ماضی کی گرم جوشی نہیں تھی۔ایک تو امریکی انتظامیہ کو شک تھا کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اس کے ساتھ ڈبل گیم کھیل رہی ہے ۔وہ اس کا ساتھ بھی دے رہی ہے اور طالبان کے ایک دھڑے کی پشت پناہی بھی کررہی ہے۔ سو، اس مرتبہ امریکا کا تعاون بڑا نپا تُلا تھا۔وہ پاکستان سے صرف اس حد تک تعلق رکھ رہا تھا کہ کل کلاں طالبان سے بات چیت کرنا ہوئی تو پاکستان سے مدد لی جاسکے گی ۔

یہ مدد امریکہ کو حاصل ہوئی اور فروری 2020ء امریکا اور طالبان کے درمیان جو معاہدہ ہوا اس میں پاکستان نے ایک سہولت کار کا کردار ادا کیا۔پاکستان کے ساتھ امریکہ کی ماضی کی قربت کے کم ہوجانے کا ایک دوسراسبب جو سرد جنگ کے خاتمے ہی سے متعلق ہے ، یہ تھا کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ہندوستان جو ماضی میں امریکا اور سوویت یونین دونوں سے قریبی تعلق قائم کیے ہوئے تھا، سوویت یونین کے نقشہ عالم سے ہٹ جانے کے بعد اب کہیں زیادہ سرگرمی کے ساتھ امریکہ کی طرف بڑھا اور خود امریکا اور مغربی بلاک نے بھی ہندوستان کی وسیع اقتصادی منڈی میں گہری پہنچ حاصل کرلینے میں کوئی دیر نہیں لگائی۔

یہی نہیں بلکہ پاکستانی مقتدرہ کے سعودی عرب کے ساتھ دیرینہ تعلقات بھی ماضی کی گرم جوشی سے محروم ہوتے چلے گئے ۔چنانچہ بیرونی طور پر قوت فراہم کرنے والے عوامل کے ختم ہوجانے یا ان کے کمزور پڑ جانے کا تدارک اندرونی طور پر زیادہ طاقتور بننے کے ذریعے کیا گیا۔پاکستان کی سیاسی معیشت ماضی میں بھی اسٹیبلشمنٹ کے زیر اثر اداروں کو مستحکم کرنے کا فرض سرانجام دیتی رہی تھی، اب اس کے لیے مزید راستے تلاش کیے گئے ،یہاں تک کہ ملک کے جملہ شعبے خواہ وہ صنعت ہو یا زراعت، کاروبار ہو یا پیکجنگ، سڑکوں اور پُلوں کی تعمیر کا شعبہ ہو یا تعلیم و تدریس کے ادارے، ہر شعبے کے اندر مقتدرہ کے نقوش گہرے سے گہرے ہوتے چلے گئے۔

 گذشتہ ایک برس میں اس سلسلے میں ایک اہم پیش رفت مسلح افواج کے سربراہوں کی مدت اور پھر اس میں توسیع کا وہ قانون ہے جس کی ضرورت کی طرف خود سپریم کورٹ نے توجہ دلائی۔برّی افواج کے سربراہ کی مدت میں اضافے کے حوالے سے حکومت کی طرف سے کیے جانے والے فیصلے کے طریقۂ کارپر اعتراض بھی اٹھایا اورپھر یہ طریقہ ٔ کار بھی سمجھایا کہ اگر آئین اس سلسلے میں خاموش ہے اور یہ رہنمائی نہیں کرتاکہ یہ مدت کتنی ہونی چاہیے اور اس میں کس حد تک اضافہ ہوسکتا ہے تواس کا فیصلہ پارلیمنٹ سے کروالیا جانا چاہیے۔لہٰذا پارلیمنٹ نے بہ رضاو رغبت آرمی ایکٹ میں ترمیم کی اور تینوں افواج کے سربراہوں اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین کی مدت اور پھر اس میں اضافے کا قانون پاس کرکے افواج کے سربراہوں کے لیے ریٹائرمنٹ کی حتمی عمر 64سال مقرر کردی۔یہ ایک ایسا بڑا فیصلہ تھا جس سے فوج کے سب سربراہان کو طاقت حاصل ہوگی۔

ماضی میں پاکستان میں چار مرتبہ فوجی حکومتیں برسر اقتدار آچکی ہیں جن کی مجموعی مدت تقریباً 33 سال بنتی ہے ۔ایک خیال یہ ہے کہ اب بحیثیت مجموعی دنیا میں فوجی حکومتوں کا رواج کمزور پڑتا جارہا ہے اور ریاست کا یہ ادارہ اب بالعموم پس پشت رہ کر ہی ریاستی امور کی نگرانی اور ان کے حوالے سے فیصلہ سازی کرتا ہے۔پاکستان میں بھی 2008ء کے بعد اب تیسری پارلیمنٹ کام کررہی ہے اور تیسری حکومت برسرِ اقتدار رہے جبکہ موجودہ وزیراعظم اس مدت میں آنے والے پانچویں وزیراعظم ہیں۔ لیکن اب اس امر کو یقینی بنایا گیا ہے کہ سیاسی حکومت مقتدرہ کے ساتھ مکمل اتفاق کے ساتھ چلے ۔اس سلسلے میں جو جو انتظامات کیے جاسکتے تھے خواہ وہ انتخابات سے پہلے سے تعلق رکھتے ہوں یا انتخابات کے بعد سے ، اُن کا بہت باریک بینی کے ساتھ انتظام کیاگیا۔

چنانچہ اگست 2018ء میں حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے بالعموم اور گذشتہ برس بالخصوص یہ بات نمایاں رہی کہ سیاسی قیادت بہت نپے تُلے انداز میں آگے بڑھی ہے اور اس نے پوری کوشش کی ہے کہ اس پر جو اعتماد کیا گیا ہے ۔اس میں سر مونہہ فرق نہ آئے ۔اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بھی ہر موقع پر مکمل تعاون اور حمایت کا تاثر دیا گیا ہے ۔اس کے لیے ایک فقرہ بکثرت استعمال ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ’’اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی حکومت دونوں ایک ہی پیج پر ہیں‘‘۔اس طرح کی گفتگو دوسرے جمہوری ملکوں میں نہیں ہوتی لیکن پاکستان میں یہاں کے مخصوص حالات کے تناظر میں یہ گفتگو ہوتی بھی ہے اور بہت سے لوگ اس کو بہت محترم بھی سمجھتے ہیں ۔

سول ملٹری تعلقات کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ حکومت نے خود اپنے لیے سیاسی دائرہ کار کو تنگ کر رکھا ہے ۔وہ آزادانہ سیاسی پیش رفتوں سے اجتناب برتتی رہی ہے ۔وزیراعظم حزب اختلاف سے معمول کے وہ تعلقات نہیں رکھنا چاہتے جو پارلیمانی نظاموں کا خاصہ ہیں ۔گذشتہ برس قومی اسمبلی کے اسپیکر نے حکومت اور حزب اختلاف کو مذاکرات پر آمادہ کیا اور کووڈ کی بنا پر یہ مذاکرات آن لائن ہوئے لیکن ان مذاکرات میں وزیراعظم اپنی گفتگو کرکے رخصت ہوگئے اور انہوں نے حزب اختلاف کے رہنمائوں کی گفتگو سننے سے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ ان کی دوسری مصروفیات ان کو اس کی اجازت نہیں دیتیں ۔

اسی طرح گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت اور وہاں انتخابات کے انعقادکے حوالے سے چیف آف آرمی اسٹاف کی طرف سے بلائی گئی تقریب ملاقات میں حزب اختلاف کے رہنما شریک ہوئے لیکن وزیراعظم اس اجلاس میں بھی غیر حاضر رہے ۔بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ایسا کرکے وہ خود سیاسی مناقشے کا موضوع نہ بننے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بعض دوسرے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ انتظامیہ کے سربراہ کی عدم موجودگی میں ریاست کے ایک ادارے کا جو،از روئے آئین سیاسی امور میں مداخلت نہیں کرسکتا،حزبِ اختلاف کے ساتھ براہ راست رابطے میں آنا اور مذاکرات کرنا بجائے خود محلِ نظر ہے ۔

2020ء میں ریاست کے اقتصادی مسائل بھی کم و بیش ویسے ہی رہے جیسے گذشتہ برس تھے ۔بلکہ بعض شعبوں میںمعیشت کی صورت حال پہلے سے بھی ابتر ہوگئی جس کا ایک بڑا سبب اس سال کورونا کی وبا کا پھیلنا بھی تھا۔2019ء میں پاکستان میں افراط زر کی شرح 6.74فیصد تھی جو 2020ء میں 10.74فیصد ہوگئی۔غربت کی شرح2019ء میں 31.3فیصدتھی، 2020ء میں یہ شرح 40فیصد تک پہنچ گئی۔پاکستان میں سے روزگاری کی شرح 2009ء میں 4.45فیصد تھی، 2020ء میں یہ بڑھ کر 9.56فیصد ہوگئی۔

پاکستان کے اقتصادی معاملات کا بڑی حد تک انحصار بیرونی امداداور قرضوں پر ہے ۔جولائی 2019ء سے اپریل 2020ء تک پاکستان 7.38 ارب ڈالر کی بیرونی امداد حاصل کرچکا تھا جس میں دوسرے ملکوں سے براہ راست ملنے والی امداد بھی شامل تھی اور کثیرالذرائع (Multilateral)امداد اور قرض بھی جو آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشین ڈیولپمنٹ بینک وغیرہ سے حاصل ہوتا ہے ۔کورونا کی وبا کی وجہ سے بعض قرضوں کی واپسی میں پاکستان کو چھوٹ بھی دی گئی ہے لیکن سعودی عرب نے اپنے قرضوں کی واپسی میں کسی رعایت کا مظاہرہ نہیں کیا اور دسمبر 2020ء کے وسط میں پاکستان کو سعودی عرب کو ایک ارب ڈالر واپس کرنے پڑے جو 2018ء میں دیے گئے تین ارب ڈالر کے قرضے کی واپسی کی دوسری قسط تھی۔2021ء کے پہلے مہینے میں پاکستان کو سعودی عرب کے بقیہ ایک ارب ڈالر بھی واپس کرنے ہیں ۔قرضوں اور امداد کے شکنجے میں پھنسا ہوا ملک کس اعتماد کے ساتھ مستقبل کی منصوبہ بندی کرسکتا ہے ،اس کے بارے میں کوئی نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں ۔

داخلی طور پر 2020ء میں ملک کا سیاسی نظام انتہائی کمزور اور بے ساکھیوں پر کھڑا ہوا نظام نظر آیا ۔مرکز میں قانون سازی کی رفتار سست رہی ۔فوجی سربراہان کی مدت سے متعلق قوانین کے علاوہ فیٹیف سے متعلق قوانین جن کی رو سے پاکستان نے دہشت گردوں اور منی لانڈرنگ کے درمیان تعلق کو توڑنے کی خاطر فیٹیف کی ہدایت پر قانون سازی کی تاکہ خود کو فیٹیف کی’ گِرے لسٹ‘ سے باہر نکلوا سکے۔

ان قوانین کے باوجود پاکستان ہنوز اس گرے لسٹ میں شامل ہے اور اس سے مزید اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے ۔اگر یہ اقدامات نہ کیے گئے تو ہمارے سر پر یہ تلوار لٹکتی رہے گی کہ کسی بھی وقت عالمی مالیاتی ادارے ہماری امداد روک دیں گے اور دنیا کے بہت سے ملکوں کے ساتھ ہمارے تجارتی تعلقات ختم ہوجائیںگے۔ایک اور اہم قانون جو پارلیمنٹ نے پاس کیا وہ ’زینب الرٹ ‘کے نام سے مشہور ہوا۔اس قانون سے معصوم بچوں کو کسی نہ کسی حد تک تحفظ حاصل ہوسکے گا۔

2020ء میں مرکز اور صوبوں کے تعلقات مختلف نوعیت کے حامل رہے کیونکہ مرکز میں پاکستان تحریک انصاف کی قیادت میں مخلوط حکومت قائم ہے لہٰذا ان صوبوں میں جہاں پی ٹی آئی ہی کی مخلوط حکومتیں قائم ہیں وہاں مرکز اور صوبوں کے تعلقات میں کسی تنائو یا آویزش کا رجحان نظر نہیں آیا۔ گوکہ پنجاب کی حکومت کے بعض اقدامات سے مرکز متفق نہیں تھا لیکن پھر صوبائی حکومت نے مرکز کی منشا کے مطابق اپنے فیصلوں میں ترمیم کرلی۔

مرکز اور کسی صوبے میں اختلاف اور تنائو کی سب سے زیادہ مثالیں سندھ کے حوالے سے سامنے آئیں ۔یہ اختلافات آئی جی سندھ کے تقرر ، پھر اگست میں کراچی میں آنے والی بارشوںکی تباہیوں کے موقع پر سامنے آئے ۔مرکز کی طرف سے سندھ حکومت کو مناسب انتظامات نہ کرنے کا الزام دیا گیا جبکہ سندھ حکومت کا کہنا تھا کہ کراچی کا بیشتر علاقہ اور خاص طور سے ڈیفنس اور کلفٹن کے وہ علاقے جہاںغیر معمولی تباہی ہوئی ہے، وہ کنٹونمنٹ ایریاز ہیں جن کا نظم و نسق صوبائی حکومت کے اختیار سے باہر ہے ۔اس موقع پر نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو فعال کیا گیا۔وزیراعظم کراچی تشریف لائے اور انہوں نے 5ستمبر 2020 ء کو 1.1ٹریلین کے پیکج کا اعلان کیا ۔اس پیکج پر عملدرآمد ظاہر ہے کہ بعد میں ہونا تھا ۔کم از کم ستمبر کے بعد سے اب تک اس پر عملدرآمد کے کچھ آثار نظر نہیں آئے ۔

سندھ کے ساتھ ایک اور بڑا تنازعہ دو ایسے جزیروں کا مرکز کے اپنے قبضے میں لے لینا تھا جو سندھ کی ملکیت تھے ۔’بنڈل‘ اور بُڈّو‘ نامی یہ جزیرے کراچی کے ساحل پر واقع ہیں۔12ہزار ایکڑ پر پھیلے ہوئے یہ جزیرے مینگرووزکے لیے اور سیلابوں اور طوفانوں سے بچائو کی دفاعی لائن کے نقطہ نظر سے اہمیت کے حامل ہیں ۔ایک اندازے کے مطابق اگر ان جزائر کو ترقی دی جائے تو یہ ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹی کے رقبے سے زیادہ بڑا رقبہ ثابت ہوں گے ۔مرکزی حکومت کے طرف سے ان جزائر کو اپنے قبضے میں لینے کے جاری کردہ آرڈیننس کی شدید مذمت سندھ حکومت کی جانب سے کی گئی۔یہی نہیں بلکہ سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کے سوا باقی تنظیموں نے بھی اس اقدام کی مذمت کی ۔سول سوسائٹی ، فشر فوک اور سندھ کی قوم پرست تنظیموں نے اس کے خلاف مظاہرے کیے اور ایک خاص بات یہ کہ بیرونِ ملک موجود سندھی تارکینِ وطن نے بھی پہلی مرتبہ سندھ سے متعلق ایک اقدام کی اتنی بھرپور مذمت مختلف زرائع سے کی ۔

2020ء کے سیاسی منظرنامے کا ایک ناگزیر حصہ حزب اختلاف سے متعلق ہے ۔حزب اختلاف کی جماعتوں میں گذشتہ انتخابات کے فوراً بعد سے انتخابات کے نتائج پر اپنے تحفظات کا اظہار کردیا تھا ۔بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم کو’ سلیکٹڈ وزیراعظم‘ قراردیا تھا۔البتہ حزب اختلاف کی جماعتوں میں ان کے لائحہ عمل کے حوالے سے کوئی اتفاق نہیں تھا۔جمعیت العلمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن ابتدا ہی سے اسمبلیوںسے مستعفی ہونے کے حامی تھے ۔جبکہ دوسری جماعتیں ایوان کے اندر سے تبدیلی کے موقف کی وکالت کررہی تھیں ۔گذشتہ سال تک پہنچتے پہنچتے حزب اختلاف میں بالآخر عمران خان کی حکومت کے خاتمے اورنئے انتخاب کے مطالبے پر اتفاق رائے ہوگیا۔اس سلسلے میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے حزب اختلاف کی جماعتوں کا اتحاد بھی قائم ہوا اور اس نے ملک بھر میں مختلف مرحلوں پر مشتمل اپنی تحریک کا آغاز کیا۔

اس سلسلے میں گوجرانوالہ ، کراچی ، کوئٹہ ، ملتان ، پشاور اور لاہور میں بڑے جلسے بھی منعقد ہوئے جن میں سے بیشتر میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما میاں نواز شریف نے انگلستان سے خطاب کیا۔پی ڈی ایم اے آئندہ ہفتوں میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے اور اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کا اعلان کرچکی ہے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ 2021ء کے اوائل میں ملک میں خاصی سیاسی ہلچل موجود رہے گی ۔کیا مارچ میں سینیٹ کے انتخابات ہوسکیں گے یا نہیں ؟ سینیٹ کے انتخابات سے قبل حزب مخالف کے اراکین کے استعفوں اور سندھ اسمبلی کے ٹوٹ جانے کے نتیجے میں کیا سینیٹ کے انتخابات منعقد کرنا ممکن ہوگا ؟ ان سب سوالوں کے جواب اس وقت دینا ممکن نہیں ۔البتہ چند ایک چیزوں کی نشاندہی کی جاسکتی ہے ۔پی ڈی ایم اے کے حق میں جو حقائق جاتے ہیں ان میں سرفہرست ملک کا اقتصادی بحران ، مہنگائی اور بے روزگاری سرفہرست ہیں ۔

پھر پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز نے بڑے بڑے جلسے منعقد کرکے کسی حد تک سیاسی تحرّک پیدا کیا ہے ۔یہ تحرّک کتنا حقیقی ہے یا کتنے آگے تک جائے گا یہ بھی ابھی کہنا مشکل ہے ۔کچھ چیزیں جو پی ڈی ایم اے کی اس پوری تحریک کے آگے سوالیہ نشان کے طور پر موجود ہیں اُن میں ان جماعتوں کے اتحادکا برقرار رہنا،ان کا کسی دوررس پروگرام پر متفق ہونا اور جمہوری نقطہ نظر سے کسی فیصلہ کن مرحلے تک پہنچنے سے قبل طاقت ور حلقوں کے ساتھ معاملات طے نہ کرلینا ، یہ سب وہ بنیادی امور ہیںجن پر پی ڈی ایم کی بقا اور کامیابی کا دارومدار ہوگا ۔سو 2020ء سیاسی کشیدگی اور ہنگامہ آرائی کا سال تو ضرور ہوگا البتہ یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ اس سال پاکستان کے بنیادی ریاستی اور سیاسی تضادات حل ہونے کا سفر بھی شروع ہوسکے گا یا نہیں؟

تازہ ترین