• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے ہمیشہ کہا اور اب بھی کہتا ہوں کہ ہمارے ہاں کے مخصوص احوال و کوائف میں، رائے عامہ کے جائزے زیادہ معتبر نہیں ہوتے۔ سو اس کا جواز موجود تھا کہ آئی آر آئی کے انتخابی سروے کو بھی زیادہ اہمیت نہ دی جائے اور گیلپ پاکستان کے سروے کو بھی مستند پیش بینی خیال نہ کیا جائے لیکن جس طرح گیلپ پاکستان کے نفیس طبع سربراہ کو نشانے پہ دھر لیا گیا اور نواز شریف کے تعلق دار کی تہمت لگا کر کردار کشی کی گئی، وہ بے ننگ و نام انداز صحافت کی مکروہ مثال ہے۔ فارسی محاورے کے مطابق، آفتاب کی دلیل بن کر طلوع ہونے والا آفتاب، لب بام کھڑا ہے لیکن خواب فروشوں کی حیلہ سازی و جواز تراشی کا فن اب بھی عروج پر ہے۔ یہ کہنے کے لئے بڑا حوصلہ چاہئے کہ ہمارے اندازے اور تخمینے غلط تھے۔ ہم نے اپنی خواہشات کو تجزیوں میں ڈھال لیا۔ ہم نے ایک مخصوص رنگ کے شیشوں کی عینک چڑھائی اور گرد و پیش کو اپنے من پسند منظروں میں ڈھال لیا۔ ہم سرابوں کو موجیں مارتے دریا سمجھتے رہے۔ برس ہا برس سے سیاست کے نشیب و فراز پر نگاہ رکھنے اور صحافت کے میدان میں پرچم گاڑنے کے باوجود ہم عوام کے حقیقی جذبہ و احساس کو نہ سمجھ پائے۔ ہمارے دانش و بصیرت نے بلا کی ٹھوکر کھائی اور ہم خلق خدا کو بھی گمراہ کرتے رہے… یہ سب کچھ کہنے کے لئے بہت بڑا دل چاہئے جو خواہش پرستوں کے سینے میں کم کم ہی ہوتا ہے۔ سو کچھ پہ سکتے کی کیفیت طاری ہے،کچھ کے چہرے لٹک کر لمبوترے ہوگئے ہیں،کچھ اب بھی اپنے آپ کو برحق ثابت کرنے کے لئے تاویلیں تراش رہے ہیں اور کچھ کا زور بیاں اس مضحکہ خیز مفروضے پر مرکوز ہو کے رہ گیا ہے کہ دھاندلی ہوگئی۔
برطانوی ہائی کمشنر نے اپنے ذرائع کی بنیاد پر کہا کہ یہ پاکستانی تاریخ کے سب سے معتبر انتخابات تھے۔ یورپی یونین کے جائزہ مشن نے رپورٹ دی کہ نوّے فیصد انتخابات تسلی بخش یا اچھے تھے۔ دس فیصد خرابی کا تعلق کراچی کی دھاندلی سے تھا۔ ہیومن رائٹس واچ نے بھی یہی کہا۔ نہایت معتبر ادارے پلڈیٹ کی باضابطہ رپورٹ ابھی سامنے نہیں آئی لیکن گزشتہ روز میں نے پلڈیٹ کے چیف ایگزیکٹو جناب احمد بلال محبوب سے رابطہ کیا، انہوں نے کہا کہ کراچی سے فراڈ اور دھاندلی کی رپورٹس ملی ہیں لیکن باقی پورے ملک سے اس طرح کی کوئی رپورٹ نہیں ملی۔ البتہ کہیں کہیں سے بدانتظامی یا بے قاعدگی کی شکایات ضرور ملی ہیں۔ پاکستانی عوام کا عمومی تاثر بھی یہی ہے۔ دو دن قبل نامعتبر سا تشخص رکھنے والی ایک این جی او ”فافن“ نے انکشاف انگیز رپورٹ جاری کی کہ ملک بھر کے49حلقوں میں سو فیصد سے بھی زیادہ پولنگ ہوئی ہے۔ تمام قومی اخبارات نے اسے بڑے اہتمام سے اچھالا۔ دھاندلی کا راگ الاپنے والوں کو اس رپورٹ سے بڑی تقویت ملی۔ انہوں نے اسے ٹھوس ثبوت کا درجہ دے دیا۔
عاصمہ شیرازی نے اپنے ٹاک شو میں جب یہ سوال اٹھایا تو میں نے بتایا کہ یہ رپورٹ قطعی طور پربے بنیاد ہے۔ ہوا یہ کہ کچھ ناتجربہ کار اور نااہل قسم کے ناپختہ کاروں کو اس کام پر لگا دیا گیا۔ انہوں نے بعض پولنگ اسٹیشنوں پر جاکر اعداد وشمار جمع کئے تو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے جاری ہونے والے بیلٹ پیپرز کی تعداد کو جمع کرکے یہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ اصل ووٹرز کی تعداد سے زیادہ پولنگ ہوئی ہے۔ یہ صرف ان رضا کاروں کی ناسمجھی کے باعث ہوا۔ اچھا ہوا کہ اب نہ صرف فافن نے اپنی رپورٹ واپس لے لی ہے بلکہ باضابطہ معذرت بھی کرلی ہے۔ ادھر الیکشن کمیشن نے بھی فافن کے عہدیداروں کو طلب کرلیا ہے کہ کن شواہد کی بنیاد پر انہوں نے بدگمانیوں کی ایسی فصل کاشت کی۔ فافن کے سربراہ مدثر رضوی کے خلاف باضابطہ مقدمات بھی درج ہو گئے ہیں۔
کراچی میں دھاندلی، سارا دن دندناتی رہی۔ یہ الیکشن کمیشن کی نااہلی تھی اور ان کی بھی جو درشنی طور پر کھڑے رہے اور ٹھپہ بازوں کو لگام نہ ڈال سکے۔ باقی ملک میں انتخابات کا عمل بڑی حد تک معتبر رہا۔ اب الیکشن کمیشن بتا رہا ہے کہ پولنگ کی شرح 53.4 فیصد رہی۔ یہ شرح 2008ء کے انتخابات سے کوئی9فیصد زیادہ ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا کہ وہ ساٹھ فیصد کو چھوتی یا اسے پھلانگ جاتی۔ گیلپ پول کے سروے میں کہا گیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) 38فیصد کے لگ بھگ ووٹ لے گی۔ مزید وضاحت کرتے ہوئے امکان ظاہر کیا گیا تھا کہ اس کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد 35 اور 40 فیصد کے درمیان ہوسکتی ہے۔ اب تک جاری کئے گئے نتائج کے مطابق اسے 35 فیصد ووٹ ملے ہیں۔ تحریک انصاف کو 14 فیصد پہ کھڑا بتایا گیا اور وضاحت کی گئی کہ یہ شرح 15 سے 20 فیصد کے درمیان ہو سکتی ہے۔ اس نے 17.8 فیصد ووٹ حاصل کئے۔ پیپلزپارٹی15.7 فیصد ووٹ لے سکی۔ پارلیمانی نظام کے مخصوص میکانزم کے باعث مسلم لیگ (ن) کی نشستوں کی شرح 45.2 فیصد‘ تحریک انصاف کی 9.6 فیصد اور پیپلزپارٹی کی 11.8 فیصد رہی۔ خیبر پختونخوا کا معاملہ برعکس ہے جہاں تحریک انصاف کے حاصل کردہ ووٹوں کی شرح 31 فیصد ہے لیکن جیتی گئی نشستوں کی شرح46 فیصد تک جاپہنچی۔ وہاں مسلم لیگ (ن) نے 16.32 فیصد ووٹ لئے لیکن صرف11 فیصد سیٹیں جیت سکی۔ مسلم لیگ (ن) پاکستان کی واحد جماعت ہے جسے وفاق‘ چاروں صوبوں اور فاٹا میں نمائندگی ملی اور یوں اس نے اپنے وفاقی تشخص کو مستحکم بنایا۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کٹھن حالات میں منعقد ہونے والے انتخابات کے نتائج کو خوش دلی سے تسلیم کرلیا جاتا لیکن ایسا نہ ہوا۔ کراچی کی حد تک اجماعِ امت رہا کہ دھاندلی ہوئی۔ لیکن پنجاب کی صرف ایک دو نشستوں پر جنم لینے والی پرخاش کو تحریک انصاف نے وسیع تر دھاندلی کے الزام میں بدل ڈالا۔ اس کا آغاز عمران خان کی طرف سے ہوا اور پھر نونہالانِ انقلاب کا آتش فشاں دہکنے لگا۔ اب یہ دور کی کوڑی لائی جارہی ہے جیسے پنجاب کی انتظامیہ مسلم لیگ (ن) کے زیر اثر تھی۔ ایک دنیا جانتی ہے کہ اوپر سے لے کر نیچے تک ساری اکھاڑ پچھاڑ صرف پنجاب میں ہوئی۔ نگراں وزیراعلیٰ پیپلزپارٹی کے نامزد کردہ تھے۔ انتہا یہ ہے کہ انتخابات سے چند دن قبل درجنوں آفیسرز کو فارغ کرکے ایک خاص گروپ کے چہیتے تعینات کردیئے گئے۔ سعد رفیق اور حامد خان کے جس حلقے پر ہا ہا کار مچی ہوئی ہے اس کے انتخابی اسٹاف یا انتظامی عہدیداروں پر مسلم لیگ (ن) کا رتی بھر اثر نہ تھا۔ پولنگ سے پہلے تحریک انصاف نے کمیشن کو ایک فہرست فراہم کی کہ ستّر پریذائیڈنگ آفیسرز بدل دیئے جائیں۔ یہ ستّر کے ستّر بدل دیئے گئے۔ ان کی جگہ لگائے جانے والوں کی منظوری کس نے دی؟ یہ کہانی پھر سہی۔ سعد رفیق کی طرف سے کسی ایک کو بھی تبدیل کرانے یا کسی مخصوص فرد کو لگانے کی درخواست نہیں کی گئی۔ اس کے باوجود سیاپا جاری ہے۔ خیمے لگے ہیں اور پکنک نما احتجاج کا سرکس ختم ہونے میں نہیں آرہا۔
”دھاندلی“ کی اس بسنت کے اثرات خیبرپختونخوا تک بھی جا پہنچے اور مولانا فضل الرحمن نے بھی کہنا شروع کر دیا کہ پی ٹی آئی‘ اس کے سرپرستوں اور خفیہ ہاتھوں نے زبردست دھاندلی کرکے عوامی مینڈیٹ چرالیا ہے۔ یہ اس سکّے کا چلن ہے جو خود پی ٹی آئی کی ٹیکسال میں ڈھلا تھا۔
کیا ہی اچھا ہو کہ خواب فروش اب بارود پاشی سے باز آجائیں۔ مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی سب کو کہیں نہ کہیں حکمرانی مل رہی ہے، وہ اپنا اپنا ہنر آزمائیں۔ قومی مسائل سے یک دل اور یک جان ہو کر عہدہ برا ہو۔ اپنے اپنے دائرہ اختیار میں مثالی حکومتیں بنائیں تاکہ عوام پانچ سال بعد فیصلہ کرسکیں کہ کس کے نامہٴ اعمال میں کیا ہے۔ شاید نواز شریف‘ عمران خان اور آصف زرداری ایسا ہی کریں لیکن ان کا کیا چارہ کیا جائے جن کی دانش فریب کاریوں کے جال بنتی اور خیالی فردوس تخلیق کرتی رہی اور جو اب بھی دانشورانِ خود معاملہ کا روپ دھارے کیڑا کاری کررہے ہیں۔
تازہ ترین