• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک برس پہلے کسی نے کب یہ سوچا تھا کہ گھر سے باہر نکلنے، معانقہ اور مصافحہ کرنے،مجلس یاعوامی مقامات پر چھ فیٹ کا فاصلہ رکھنے کی پابندی عاید کردی جائے گی اورگھر بیٹھ کر دفتر کا کام کرنےاور تعلیم حاصل کرنے کا دور آجائے گا۔لیکن پھر ایسا ہوا۔کم وبیش گزشتہ پورا برس اسی کیفیت میں گزرا۔کچھ وقت کے لیے دنیا والوں کو بڑی تعداد میں لاشیں اٹھانے سے فرصت ملی ،لیکن وہ عارضی ثابت ہوئی۔

اب ایک بار پھر دنیاپر کووِڈ۔اُنّیس کے عفریت کا سایہ ہےاور ہر طرف موت کا رقص جاری ہے ۔ ویکسین آچکی ہیں،لیکن وہ تعداد میں کم ہیں۔ان کے اثرات کا پتا لگنا باقی ہے۔پیداوار،طلب اور رسد کے فرق اور ترسیل و رسائی کے مسائل علیحدہ ہیں۔لہذا کسی کو معلوم نہیں کہ کل کیا ہوگااور کب کس کی باری ہوگی۔شاید ایسے ہی حالات کے بارے میں آشفتہ چنگیزی نے کہا تھا:

خواب جتنے دیکھنے ہیں آج سارے دیکھ لیں

کیا بھروسہ کل کہاں پاگل ہوا لے جائے گی

یہ اندھیرے ہیں غنیمت، کوئی رستہ ڈھونڈ لو

صبح کی پہلی کرن آنکھیں اٹھا لے جائے گی

ہوش مندوں سے بھرے ہیں شہر اور جنگل سبھی

ساتھ کس کس کو بھلا کالی گھٹا لے جائے گی

جاگتے منظر، چھتیں، دالان، آنگن، کھڑکیاں

اب کے پھیرے میں ہوا یہ بھی اڑا لے جائے گی

ایک اک کر کے سبھی ساتھی پرانے کھو گئے

جو بچا ہے وہ نگاہِ سرمہ سا لے جائے گی

جاتے جاتے دیکھ لینا گردشِ لیل و نہار

زندگی سے بانکپن لطف خطا لے جائے گی

ایسے حالات میں ہر مذہب کے ماننے والے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیتے ہیں۔چناں چہ افتخار عارف نے بھی یوں کہہ کر دعا کی تلقین کی ہے:

کوئی فغاں ،کوئی نالہ ،کوئی بکا ،کوئی بین

کھلے گا بابِ مقفل ،دعا کیے جائیں

یہ اضطراب، یہ لمبا سفر، یہ تنہائی

یہ رات اور یہ جنگل، دعا کیے جائیں

بحال ہو کے رہے گی فضائے خطۂ خیر

یہ حبس ہوگا معطل ،دعا کیے جائیں

ہوائے سرکش و سفاک کے مقابل بھی

یہ دل بجھیں گے نہ مشعل، دعا کیے جائیں

غبار اڑاتی جھلستی ہوئی زمینوں پر

امنڈ کے آئیں گے بادل، دعا کیے جائیں

قبول ہونا مقدر ہے حرفِ خالص کا

ہر ایک آن ہر اِک پل دعا کیے جائیں

دنیا بھر میں اس وبا کے ضمن میں عالمی ادارہ صحت کی تجویز کردہ احتیاطی تدابیر پر عمل کیا جارہا ہے۔لیکن ان پر عمل کرنے سے بہت سے مسائل نے جنم لیا ہے۔تاہم ماہرین ِصحت کا موقف ہے کہ یہ وائرس ویکسین عام ہونے کے بعد بھی طویل عرصے تک انسان کے ساتھ رہ سکتا ہے ، لہذوبائی کیفیت ختم ہونے کے بعد بھی مذکورہ تدابیر پرکچھ عرصے تک عمل کرنا پڑے گا۔یعنی زندگی معمول پر آجائے گی کچھ تبدیلیوں کے ساتھ۔اسی کو دنیا بھر میں ’’نیو نارمل‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔

عالمی سطح پرکورونا کےضمن میں ایسی آوازیں سنی جا رہی ہیں کہ نہ جانے کورونا جائے گا بھی یا نہیں۔ اب ساری دنیا ہمیشہ کے لیے نقاب پوش بن کر پھرے گی، کوئی کسی کو چھوتے ہوئے بھی ڈرے گا۔گلے نہ مل سکے گا، مصافحہ کرنا ترک رہے گااور عملاً سب ایک دوسرے سے دور دور ہوجائیں گے۔لوگوں کا کہنا ہے کہ پہلے ہمیں یہ کہا جاتا رہاتھا کہ کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے اور اب صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ کورونا کے ساتھ ہی زندگی گزارنی ہے۔ یعنی باہر نکلیں تو مستقل ماسک پہنے رہیں، سارا سارا دن ماسک پہنے رہنے سے کان تک دُکھ جاتے ہیں۔ 

یہی نہیں فاصلے رکھ کر میل جول کرنا کس قدر اور کب تک ممکن رہے گا۔خوشی اور غم کے مواقعے پر بھی طرح طرح کی پابندیاں ہیں۔ان حالات میں ہم میں سے بہت سے افراد کبھی نہ کبھی اپنے کام کرتے کرتے ایک دم زندگی کے’ ’نیو نارمل‘‘ کو انجان نظروں سے دیکھتے ہوئے خود سے سوال کرتے ہوں گے کہ آخر زندگی کا یہ نیا انداز کبھی ختم ہو گایا نہیں؟ کیا زندگی ایک بار پھر پرانی ڈگر پرلوٹ آئے گی یا نہیں؟اس طرح کی بے یقینی اور غیر متوقع اتار چڑھاؤ نے ایک بات باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ہمیں یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار ہوناچاہیےکہ کرونا وائرس کی وبا ختم ہونے کے بعد بھی زندگی کے معمولات ایک دم پہلے جیسے نہیں ہو جائیں گے۔

ماہرینِ سماجیات کے مطابق کورونا وائرس سے پہلے کا معمول اب نئی شکل میں سامنے آئے گا۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ دو واضح رد عمل سامنے آئیں گے۔ ایک تو زندگی سے بھرپور محبت اور پوری طرح سے لطف اندوز ہونے اور ساری خوشیاں سمیٹ لینے کا ردعمل،لیکن ایک عجیب احتیاط اور فاصلے کے ساتھ۔ اور دوسرا ردعمل موت کی ارزانی دیکھنے کے بعد زندگی کو مزید تحفظ دینے والا ہوگا۔ پہلے سے کہیں زیادہ محتاط ہونے کا ردعمل، گھروں سے باہر نہ جانے اور دوست احباب کی محفلیں کم سے کم رکھنے کا ردعمل۔

لیکن ہر طرف یہ سوال کیا جارہا ہے کہ کیا واقعتا زندگی ایک بار پھر پورے اعتماد،مضبوطی اور اپنی رنگینیوں کے ساتھ ’’نیو نارمل‘‘ کو بھرپور انداز میں قبول کر لے گی؟ اس سوال کے جواب میں بعض ماہرین کا کہناہے کہ کرونا وائرس کی وبا دراصل نوع انسانی کے لیے ایک’’ویک اپ‘‘ کال کی طرح ہے۔اس کے خاتمے کے بعد کی زندگی میں روحانیت کا پہلو قدرے بڑھ جائے گا، کیوں کہ عبادت گاہوں کے بند ہونےکے بعد لوگوں نے انفرادی سطح پر اس جانب توجہ مرتکز کی ہے۔ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں لوگ اپنے خاندان اور عزیزو اقارب کے ساتھ وقت گزارنے کی اہمیت سمجھنے لگے ہیںاور اپنی ذات کے ساتھ وقت گزارتے ہوئے انہیں داخلی سطح پر اپنی شخصیت کو پہچاننے میں مدد ملی ہے۔

ماہرین کے بہ قول کورونا وائرس کے بعد زندگی امتحان بھی لے کر آئے گی، نہ صرف قوموں کے لیے بلکہ حکم رانوں کے لیے بھی۔ ملکوں کی اہلیت اور صلاحیت جانچنےکے معیار ہی بدل جائیں گے۔ اس عالمی وبا نے کام کرنے کا انداز ہی بدل ڈالا ہے۔ ڈیجیٹل ٹولز کی مدد سے گھروں پر رہ کر کام کرنے کا نیا ڈھنگ روز مرہ کا معمول بن چکا ہے اور اب ذہانتوں اور صلاحیتوں کی جانچ کرتے ہوئے ایک اور شرط سامنے آئے گی کہ لوگ آنے والے وقتوں میں ان نئے ٹولز میں مہارت کے حامل ہوں۔آنے والے دور میں جدید صلاحیتوں کے ساتھ میل ملاپ کے پرانے طریقوں میں کیا نئی شرطیں چپکے سے در آئیں گی؟ کچھ کہنا دشوار ہے۔ لیکن، ایک بات یقینی ہے کہ عشروں سے میل ملاپ کا جو انداز ہم دیکھتے آئے ہیں اس کی شکل کافی حد تک مختلف ہو جائے گی۔

حقیقت یہ ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاو کو روکنے کےسلسلے میں ہم نے جو احتیاطی تدابیر اختیار کی تھیں، اب ان کی عادت بھی پڑتی جا رہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ بھی ہمارے معمولات میں شامل ہیں۔ بعض ممالک میںاس وائرس کےضمن میں قرنطینہ سمیت دیگرپابندیاں اب پہلے جیسی سخت نہیں رہی ہیں۔ مگر اس وبا کے اثرات ہماری زندگی سے فوری طور پر غائب نہیں ہوں گے۔ماہرین کے بہ قول امریکا سمیت دنیا کے اکثر ملکوں میں روزمرہ زندگی ماضی جیسی نہیں ہو گی۔کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ نرمی کے باوجود ماسک اور سماجی دوری کی تلقین جاری رہے گی۔ 

امریکا کی کچھ ریاستوں اور دنیا کے کچھ ملکوں میں ہوٹل، ریستوران، اندرونِ ملک ہوائی اور زمینی سفر کچھ حد تک بحال ہوا ہے۔عام لوگ بھی ان پابندیوں کو اپنے لیے بہتر سمجھتے ہیں اور ان پر نہ صرف خود بلکہ دوسروں سے بھی پابندی کرنے کا تقاضا کرتے ہیں۔

ایک ماہر ماحولیات کے مطابق ایک زمانے میں سر عام تھوکنا معیوب بات نہیں تھی۔ لیکن انیس سو اٹھارہ کے عالم گیر وبائی مرض (فلو) کے بعد ہم نے یہ سیکھا کہ اس طرح تھوکنا منع ہے اور اب یہ ہماری عادت کا حصہ بن چکا ہے۔اسی طرح جہاں فوارے ہوتے تھے وہاں صرف ایک ہی گلاس ہوتا تھا، مگر اس وبا کے دوران اس پر پابندی لگ گئی۔ 

وبا ختم ہونے کے بعد یہ پابندی ہماری عادت بن گئی ہوگی۔غرض یہ کہ ایسی بہت سی مثالیں ہیں جو اس سلسلے میں دی جا سکتی ہیں۔اسی طرح، سماجی فاصلہ قائم رکھنا شایدکورونا وائرس کے خاتمےکے بعد بھی جاری رہے ، چاہے جِم ہو، پارک ہوں یا ساحل۔ایک ماہر کے بہ قول جم میں ورزش کرتے ہوئے ماسک پہننا تکلیف دہ ہے، اس لیے شاید یہ عادت نہ بن سکے۔لیکن، سماجی دوری پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ اس لیے یہ قائم رہے گی۔ 

اسی طرح سینیٹائزر کا استعمال بڑھ جائے گا۔ ہاتھ ملانے، گلےملنے ،ایک دوسرے کے گالوں پر بوسہ دینے کا رواج بھی بہ تدریج کم ہو گا۔ شروع میں آپ کو بتانا ہو گا کہ گلے نہ ملنے میں ہم دونوں کا فائدہ ہے۔ پھر رفتہ رفتہ اس کی عادت پڑ جائے گی۔تاہم گھروں میں محدود رہنے اور سفر نہ کرنے کی بات زیادہ عرصے نہیں چل سکے گی۔ جیسے ہی ویکسین موثر ثابت ہوئی اور اس وباکا زور ٹوٹ گیا، لوگ نارمل زندگی کی طرف لوٹ جائیں گے۔ لوگوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سرنگ کے اس پار روشنی ہے اور یہ وبا ہمیشہ نہیں رہے گی۔اکثرافراد گھروں میں زیادہ وقت نہیں گزار سکتے۔ اس لیے ماسک یا سماجی دوری کی پابندی انہیں باہر نکلنے اور سفر کرنے سے روک نہیں سکے گی۔

دوسری جانب بعض افراد کا عزم ہے کہ کل بھی کوئی دوست مشکل میں ہمیں آواز دے گا تو ہم اس کو گلے لگائیں گے۔ ہم آنے والے کل میں پھر سے وہی مجلسیں آباد کرنے کا اہتمام کریں گے جو اس نئی روٹین نے ہم سے دور کر دی ہیں۔ ہم اکیلے پن کے خوف سے نکل کر گلی کوچے، شہر اور قریے پھر سے آباد کر لیں گے، کیوں کہ زندگی چلتی رہتی ہے اور ہمارا ہاتھ تھامے اپنی رنگینیوں کی طرف کھینچ لیتی ہے۔یہ درست ہےکہ ہم میں سے بہت سے افراد کے سامنے گمبھیرمسائل بھی ہوں گے، لیکن ہم ایک بار پھر ان سے نکل جائیں گے۔

بعض ماہرین کا تجزیہ ہے کہ یہ درست ہے کہ اس وائرس نے جس انداز میں مقامی اور عالمی سطح پر زندگیوں کو متاثر کیا ہے اس کے بعد زندگی پہلے والی زندگی نہیں ہو پائے گی۔ آج ہر جگہ عوام اپنی حکومتوں کی صلاحیتوں اور مسائل سے نمٹنے کی استعداد کے بارے میں سوال کر رہے ہیں۔ ہر ملک میں حکام غیر معمولی حالات میں اپنے شہریوں کی دیکھ بھال کرنے کے ذمے دار ہیں۔ لیکن، کسی کو بھی اس وبا کی شدت اور تباہی کا اندازہ نہیں تھا اور بیش تر حکام نے اپنے لوگوں کو مایوس کیا، کیوں کہ انہوں نے اپنی معیشت کی ترجیحات کا تعین نہیں کیا تھا۔ 

اگرچہ وبائیں کوئی امتیاز روا نہیں رکھتیں، لیکن پھر بھی کووِڈ کے اثرات مختلف طبقوں پر مختلف انداز میں مرتب ہو رہے ہیں ۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے والے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ یوں طبقاتی سطح پر بھی اس کے مختلف اثرات نظر آتے ہیں۔ ہم اب تک بہت سی چیزوں کو جن میں ہمارا کام اور روزگار بھی شامل ہے ’’فار گرانٹڈ‘‘ لیتے آئے ہیں۔اس بارے میں ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس وبا کا مقابلہ کرنے اور اس پر قابو پانے کے بعد انسانوں کی ذہنی اور جسمانی بہتری کےلیے کام کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اسے عالمی سطح پر ایک ایسی یاد دہانی کے طور پر لینے کی ضرورت ہے کہ اپنے عوام کی فلاح اور خوش حالی کو ترجیحات میں شامل کیا جائے۔ پھر محتاط رویے درکار ہوں گے، کیونکہ یہ عین ممکن ہے کہ وائرس کے بعد کچھ ممالک میں سرحدوں پر سیکیورٹی اور سلامتی کو مستحکم کیا جائے اور یہ بھی خدشہ ہے کہ نسلی، مذہبی اور سماجی اقتصادی پس منظر کے حوالے سے مخصوص رویے پیدا ہو جائیں۔ ہمیں تیار رہنا ہوگا کہ اگر وباکے بعد ’’گریٹ ڈپریشن‘‘ کی صورت پیدا ہوتی ہےتو ہم مثبت سوچ کے ساتھ اس کا مقابلہ کر سکیں اور اپنے وسائل کو اس انداز میں استعمال کریں کہ کوئی تنہا نہ رہ جائے۔

اقتصادی ماہرین کا موقف ہے کہ جوں جوں لاک ڈاون یا پابندیاں طویل ہوتی جائیں گی دنیا بھر میں مزید بے روزگاری اور معاشی بد حالی بڑھے گی اور حکومتوں کے اعلان کردہ پیکیج بہت کم ثابت ہوں گے۔ اگر اِس سطح پر معاشی بد حالی نہ بھی ہو تو بھی جو حالات ہیں، لوگوں کو واپس اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں کافی وقت لگ جائے گا۔ جو کاروبار بند ہوں گے وہ فوراً دوبارہ نہیں کھل سکیں گے۔ لوگوں کاجو نقصان ہوچکا ہے یا ہوگا اس کا ازالہ راتوں رات ممکن نہیں ہو گا اور جو نوکریاں ختم ہوں گئی ہیں وہ بھی جلد واپس نہیں آئیں گی۔ معاشی طور پر شاید مکمل بحالی میں کئی سال لگ جائیں۔

ادہر ماہرینِ ماحولیات نے متنبہ کیا ہے کہ دنیا کو ذہنی طور پر اِس بات کے لیے بھی تیار ہو جانا چاہیے کہ اِس کے بعد اِس طرح کی وبا آنے کے امکانات زیادہ ہو گئے ہیں۔ جس رفتار سے ہماری آبادی بڑھ رہی ہے اورجس طرح ہم ایک مربوط دنیا میں رہ رہے ہیں اِس طرح کی مزید وبائیں بھی آ سکتی ہیں۔ اب ہمیں اپنے صحت کے نظام اور لوگوں کی فلاح کے لیے کام کرنے کو قومی ترجیح بنانا ہو گی ورنہ ہم جیسے ممالک کے سر پر یہ خطرہ مسلسل منڈلاتا رہے گا۔

کورونا کے بعد کی دنیا کا منظرنامہ پیش کرتے ہوئے مبصرین، تجزیہ کار اور ماہرین بہت کچھ کہہ رہےہیں۔تاہم زیادہ تر کا خیال ہے کہ دُنیا میں معیشت پر بہت زیادہ دبائو پڑے گا اور اس کی کمر جھک جائے گی۔ ہر طرف بے روزگاروں کی قطاریں نظر آئیں گی۔منہگائی آسمان کو چھو رہی ہوگی۔بھوک، پس ماندگی، معاشرتی انحطاط بڑھ جائے گا۔سیاسی طور پر پوری دُنیا میں افراتفری، کشیدگی اور ہنگامہ آرائی ہوگی اور حکومتیں سخت قوانین وضح کرنے پر مائل ہوں گی۔ 

جمہوری حکومتیں اور جمہوری روایات شدید متاثر ہوں گی۔بنیادی حقوق سلب ہوں گے۔ اظہار رائے کی آزادی پابند ہو جائے گی۔ آمرانہ اور حاکمانہ حکومتوں کا زور رہے گا۔ عوام اچھی حکم رانی کے بس خواب دیکھتے رہیں گے۔اس حوالے سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ حکومتیںشاید اپنی معیشتوں کو سہارا دینے کےلیے زیادہ سے زیادہ اشتراک پر مائل ہو جائیں اور عوامی دبائو اور مسائل کی شدت کے سامنے حکم رانی کے انداز تبدیل کریں۔

تاریخ کیا کہتی ہے؟

تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جس طرح ایک بڑے زلزلے کے بعد زمینی ٹیکٹانک پلیٹس ہل جاتی ہیں اور آفٹر شاکس پیدا کرتی رہتی ہیں،اسی طرح ماہرین کے مطابق کورونا کے عواقب یا آفٹر افیکٹس عالمی سطح پر 2021سے محسوس ہونا شروع ہوں گے۔ تو زندگی کی معمول کی جانب واپسی کی فکربہ جا ہے۔اسپائیلر الرٹ !زندگی پھر سے نارمل ہو جائے گی،کیسے؟تاریخ کے مطالعے سے یہی جواب ملتا ہے۔ 

تاریخ کبھی مطلق میں آشکار نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر1929سے1939تک رہنے والا ’’گریٹ ڈیپریشن‘‘ تاریخ کا بدترین اقتصادی بحران تھا۔لیکن حیرت انگیز طور پر اس دہائی کے دوران زیادہ لوگ بے روزگار نہیںتھے۔اسی طرح ہسپانوی فلوبیسویں صدی کی بد ترین وبارہا ۔انفلوئنزاکے اس زبردست جھٹکے نے1918اور 1919 کے درمیان تین چکر لگائے،پچاس ملین افراد کو نگل لیا، مگر آج بیش تر لوگ اس کے نام سے بھی واقف نہیں۔

سانحہ 9/11 کے بعد ورلڈ آرڈر کا قیام ہوا،ہر تجزیہ کار،اینکراور پولیٹیکل سائنٹسٹ نےیہی کہا کہ دنیا اب پہلے جیسی نہیں ہو گی،اور ایسا ہی ہوا۔لیکن حقیقتاً ،اس ہول ناک واقعے کے بہ راہ راست متاثرین اور کولیٹرل ڈیمیج کا نشانہ بننے والوں کے سواباقی دنیا کےلیے زندگی بہت جلد نارمل محسوس ہونے لگی۔حالاں کہ ائیرپورٹ پر تفصیلی چانچ پڑتال،نام ،شہریت اور حلیے اور لباس کی بنیاد پر غیر ضروری سوال جواب ،سب کچھ ہوتا رہا۔لیکن مسافروں اورسیاحوں نے اسے معمول کا عمل سمجھ کر فوقیت دینا چھوڑ دی۔کاروبار چلتے رہے،اندرون و بیرون ملک سفر جاری و ساری رہا ،بچے سکول جاتے رہے۔المختصر،اتنا بڑا سانحہ بھی معمولات زندگی میں روکاوٹ نہ لا سکا۔

اس مظہر کی سائنسی وجہ کچھ یوں بتائی جاتی ہے: Hedonic Adaptation یا حالات میں ڈھل جانے کی صلاحیت انسان میںیہ قدرتاً موجودہےلہذاوہ بہت جلد خود کو جذباتی اعتبارسے مثبت یا منفی حالات و واقعات کے مطابق ڈھال لیتا ہے۔دوسری وجہ ہے فوکس کا ابہام یا Illusion ۔ہم نقصان کا تخمینہ ضرورت یا حقیقت سے کافی زیادہ لگا لیتے ہیں۔یعنی کسی بھی اچھے یا برے واقعے کے بعد والے اثرات کو اوور ایسٹی میٹ کر لینا ۔مثلاً محض یہ سوچ ہی کہ اب زندگی بھر ہجوم میں یا گھر سے یا گاڑی سے نکلتے ہی ماسک پہننا بڑے گا،پریشان کن ہے۔ہاتھ ملانا،گلے ملنا اور مصافحہ ماضی کا قصہ بن جائے گا۔لوگوں سے ہمہ وقت چھ فیٹ کا فاصلہ رکھ کر بات کرنا پڑے گی؟،بے روزگاری اور بڑھے گی؟،یا ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے گا؟،وغیرہ وغیرہ۔

ہنری کسنجر کا تجزیہ

یہ تو طے ہے کہ کووِڈ کی وبا کے بعد دنیاکافی بدل گئی ہے اور یہ بھی نظر آرہا ہے کہ مزید تبدیلیاںبھی آئیں گی۔ان تبدیلیوں نے دنیا پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں اور مزیدکیا اثرات ہوں گے؟اس بارے میں پوری دنیا میں بحث جاری ہے۔اسی ضمن میںگزشتہ برس اپریل کے مہینےمیںسابق امریکی وزیر خارجہ اور امریکی پالیسیوں کے ماہرہنری کسنجر نے خبردار کیاتھا کہ یہ وبا عارضی نہیں ہےبلکہ اس کے تباہ کن اقتصادی اور معاشرتی اثرات آنے والی نسلوں میں بھی محسوس کیے جائیں گے۔ 

ان کا کہنا تھاکہ اپنے اثرات کی بناء پر یہ وبا ایک نیا ورلڈ آرڈر ثابت ہوگی۔خیال رہے کہ ہنری کسنجر سابق امریکی صدور نکسن اور فورڈ کے دور میں امریکا کے وزیر خارجہ رہ چکے ہیں اور امریکی سیاست میں ان کی بات کو کافی اہمیت دی جاتی ہے۔ انہوں نے کورونا کے منفی اثرات کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی بجا کربالخصوص امریکا اور بالعموم پوری دنیا کو بیدار کرنے کی کوشش کی ہے۔

انہوں نے خبر دار کیا کہ اس وائرس سےعمرانی معاہدوں کا شیرازہ بکھرتا دکھائی دے رہا ہے۔کووِڈ ۔اُنّیس کے بعد کی دنیا اس سےپہلے کی دنیاسے مختلف ہوگی اوران کی نگاہ میں کورونا آنے والے دورمیں نیا 'ورلڈ آرڈر ثابت ہوگا۔انہوں نےامریکا اور پوری دنیا میں اقتصادی افراتفری پھیلنے اور بڑے پیمانے پرمعاشی تبدیلیوں کا بھی عندیہ دیاتاور کہا تھا کہ کورونا کی شکل میں ایک نیا بین الاقوامی آرڈر تشکیل پا رہا ہے۔ انہوں نے کروناکے نتیجے میں پوری دنیا میں آنے والی تبدیلیوں کے لیے تمام ممالک اور اقوام کو تیار رہنے پر زور دیاتھا۔

ہنری کسنجر نے امریکن وال اسٹریٹ جرنل میں شایع ہونے والے ایک مضمون میں لکھا تھاہے کہ میں 'کووِڈ ۔19' کی وبا کی حقیقت کوبلیگ کی جنگ کے مماثل سمجھتا ہوں۔ میں نے جوکچھ اس جنگ میں محسوس کیا وہ آج بھی محسوس کررہا ہوں۔ اس جنگ کے دوران میں84ویں انفنٹری ڈویژن میں ایک نوجوان افسر تھا۔ جیسے 1944کے آخر میں ابھرتے ہوئے خطرے کا احساس تھا، مگر اس خطرے کو اپنی آنکھ سے کوئی دیکھ نہیں سکتا تھا آج بھی کچھ ایسی ہی کیفیت ہے۔ مگر اس دور اور آج کے درمیان بہت فرق ہے۔ فی الحال امریکا ایک منقسم ملک ہے۔ 

عالمی سطح اور دائرہ کار میں غیر معمولی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے ایک موثر اور دور اندیش حکومت ضروری ہے۔ عوامی اعتماد کو برقرار رکھنا معاشرتی یکجہتی ، معاشروں کا ایک دوسرے سے رشتہ اور بین الاقوامی امن و استحکام کے لیے بہت ضروری ہے۔کوررنا کے بعد دنیا کی ایک نئی صف بندی ہوگی۔ خوش حالی بھی لوٹے گی۔ استحکام بحال ہوگا۔ مگرکووِڈ ۔19وبائی مرض کا خاتمہ ہو گا تو بہت سارے ممالک کے ادارے ناکام ہوتے نظر آئیں گے۔ کورونا سے پہلے کی دنیا بعد کی دنیا سے مختلف ہوگی۔

تازہ ترین