• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اپنے دیرینہ و پسندیدہ گذشتہ موضوع پر قلم اٹھانے سے پہلے مجھے مجبوراً پھر ملکی سیاست کی خباثت، نجاست اور غلاظت پرچند سطریں گھسیٹنی ہوں گی۔ سبحان اللہ کیا قول ہے کہ ”جیسی قوم ہو ویسے ہی حکمران ان پر مسلط کردیئے جاتے ہیں۔“ جیسے ہم، ویسے ہی ہمارے نمائندے اور ہم کیسے ہیں؟ یہ جاننے کیلئے کسی سیانے کے در پر جانے کی ضرورت نہیں۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ … ”ہم کیسے ہیں؟“ اگر بے ایمانی، منافقت رشوت، کرپشن، جھوٹ بولنا، کم تولنا، ملاوٹ کرنا، خوشامد کرنا، رنگ بازی، کام چوری، تجاوزات، ہیرا پھیری، ایک دوسرے کا استحصال، قانون کی پامالی، اسراف اورنمود و نمائش وغیرہ ہماری ”عادات ثانیہ“ ہیں تو سب ٹھیک، جو ہو چکا اس کے علاوہ اور کچھ ممکن ہی نہ تھا … ”بے شک جیسی قوم ہو ویسے ہی حکمران ان پر مسلط کردیئے جاتے ہیں“ لیکن امید کی اک کرن سی دکھائی دے رہی ہے کہ پاکستانی معاشرہ میں ”خود احتسابی“ کا آغاز ہو چکا۔ بہت ہی سلوموشن میں سہی، ان لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو ”تبدیلی“ کی آرزو پالنے کے ساتھ ساتھ خود کو بھی ”تبدیل“ کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
انتخابی نتائج کا صرف ایک پہلو یعنی ”نمبر آف سیٹس“ ہی نہیں کچھ اور سچائیاں بھی ہیں کہ اگر (ن) لیگ کو لاہور سے 12لاکھ ووٹ ملے تو تحریک انصاف اپنی تمام تر ناتجربہ کاری کے باوجود 7 لاکھ ووٹ لے اڑی۔ میں بیحد کھوچل اور سسٹم میں گہری پیوست (ن) لیگ کی دھاندلی کو ایک طرف بھی رکھ دوں تو یہ سب کچھ روایتی سیاست کیلئے کسی ”ڈیتھ وارنٹ“ سے کم نہیں اور غالباً اسی حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے برطانوی میڈیا نے یہ بہت ہی میچور اور متوازن تبصرہ کیا ہے کہ … ”عمران خان کیلئے میچ ختم ہوا ہے سیریز نہیں… دوسرا تبصرہ اس سے بھی کہیں زیادہ چشم کشا ہے کہ ”سربراہ تحریک انصاف اپنی ٹیم کو فتح سے ہمکنار نہ کراسکے تو شکست بھی نہیں ہونے دی، طویل اور مشکل انتخابی نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ عمران پنجاب میں جگہ بنا چکے۔ حالیہ الیکشن ڈرا ٹیسٹ ثابت ہوئے۔
یہ سب میں نہیں برطانوی میڈیا کہہ رہا ہے جبکہ میرے تجزیہ کی باٹم لائن بہت سادہ ہے کہ اگر ٹکٹوں کی تقسیم میں پی ٹی آئی بہت بڑے پیمانے پر جھک نہ مارتی اور ان کی الیکشن کمپین اس بری طرح اتنی ”اربن“ یعنی”شہری“ نہ ہوتی تو نتائج مختلف ہوتے مثلاً ”بیلی پور“ میں میرے گھر ”ہانسی حویلی“ میں جہانگیر ترین اور اسحق خاکوانی کچھ لونڈے لپاٹے لیکر آئے اور بڑے فخر سے بتایا کہ ہماری مہم کا مرکزی وکلیدی خیال ”نیا پاکستان“ ہوگا۔ میں نے نرمی سے عرض کیا کہ یہ ایک بیہودہ اور منحوس سا آئیڈیا ہے کیونکہ یہ لعنتی سی اصطلاح ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے ٹوٹنے اور بنگلہ دیش کے معرض وجود میں آنے پر استعمال کی تھی لیکن بات میرے دوستوں کو سمجھ نہ آئی حالانکہ جہانگیر ترین اور اسحق خاکوانی کی ذہانت، شرافت، دیانت ہر قسم کے شک و شبہ سے انتہائی بالاتر ہے لیکن ”کمیونیکیشن“ ان میں سے کسی کا بھی شعبہ نہیں اور میرا المیہ یہ کہ میں نے کبھی ”آؤٹ آف دی وے“ جاتا ہوں نہ خود کبھی کسی سے رابطہ کرتا ہوں چاہے وہ میرا فیورٹ عمران خان ہی کیوں نہ ہو۔ گذشتہ چند ماہ میں ایک آدھ بار کے علاوہ جب بھی رابطہ کیا عمران نے ورنہ میں اپنی دنیا میں گم حال مست آدمی ہوں اور جو جتنا ”اہم“ ”مقبول“ یا ”طاقت ور“ ہوتا چلا جاتا ہے، میں اس سے اتنا ہی دور ہوتا چلا جاتا ہوں کیونکہ مجھے اپنے بچے پودے، پرندے، کتابیں کافی قدیم موسیقی اور پرانی فلموں سے ہی فرصت نہیں۔ سکول، کالج، یونیورسٹی کے دوستوں کا ساتھ ہو تو مجھ جیسا ”فرعون“ اور ”قارون“ ہی کوئی نہیں۔ قصہ مختصر کہ ٹکٹوں کی بھونڈی تقسیم، بہت ہی شہری قسم کی انتخابی مہم کے علاوہ بے وقت انٹرا پارٹی الیکشن عمران خان کے ایسے فیصلے تھے جو اگر کچھ اور لوگوں نے بھی کرائے تو ذمہ دار عمران خان خود ہی ہے۔ رہ گئی ”کے پی کے“ کی حکومت تو میرے نزدیک یہ بھی خودکش حملہ ہوگا۔ اس ایشو پر نوازشریف نے ایک تیر سے تین شکار کیے ہیں۔ اول مولانا فضل الرحمن کی آفر ٹھکرا کر حضرت صاحب کو ”شرمندہ“ کر کے بہت سے حساب برابر کردیئے، دوم قوم کو یہ پیغام دیا کہ وہ بڑی ”اصولی“ سیاست کررہے ہیں حالانکہ وہ چھانگا مانگا، لوٹا اور لفافہ سیاست کے موجد ہیں اور سوئم یہ کہ (ن) لیگ ہر قیمت پر ”کے پی کے“ میں تحریک انصاف کی حکومت چاہتی ہے تاکہ عمران خان اور اس کی پی ٹی آئی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے فارغ ہو جائے کیونکہ اس کے علاوہ اور کچھ ہوگا ہی نہیں۔یہاں اک اور بات عرض کرتا چلوں کہ پی ٹی آئی کی ”تھیم“ یعنی ”نیا پاکستان“ پر میڈیا کا بالکل وہی ری ایکشن تھا جو میں نے جہانگیر ترین اور اسحق خاکوانی کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اگر منو بھائی سے لیکر عبدالقادر حسن تک نے اس سلوگن کی نحوست کا ماتم کیا تو باقی کیا رہ گیا؟ سچ یہ ہے کہ بیشمار ”قلمکاروں نے اس احمقانہ سلوگن کا سختی سے نوٹس لیا لیکن ”برگر فیملی“ کی بلاسے!معاف کیجئے تقریباً پورا کالم پھر سیاست نامی یہ ڈائن کھا گئی حالانکہ میں نے گذشتہ دو کالموں سے بہت ہی خوبصورت موضوع چھیڑ رکھا تھا کہ بنی نوع انسان کیلئے ہر معیشت، خوبصورت، تخلیق، بامعنی اور تعمیری قدم یورپ کے چند مخصوص ملکوں اور امریکہ سے ہی کیوں اٹھتا ہے؟ میرے گذشتہ دو کالموں میں اٹھائے گئے اس سوال پر مختلف قسم کے جواب موصول ہورہے ہیں جن میں سے اہم ترین یہ کہ سائنس میں بھلے ہی ہم ”کمی کمین“ ہوں لیکن شاعری اور نثر میں تو ہم بھی تخلیق کے اعلی ترین مقام پر فائز ہیں تو قارئین! ہے تو یہ کج بحثی کہ سوال گندم جو اب چنا لیکن انشاء اللہ بہت جلد یہ بخار بھی اتار دوں گا۔ میں نے بہت پہلے کہیں لکھا تھا کہ … ”ہم دو نمبر کاموں میں ایک نمبر لوگ ہیں۔“ ہماری انٹلکچوئیل تاریخ بھی ایسی ہے جسے انشاء اللہ عنقریب بے نقاب کروں گا۔ ہمارے دامن میں غالب سے بڑا شاعر اور منٹو سے بڑا افسانہ نگار کون ہے؟ ذہنی طور پر تیئے پانچے کیلئے تیار ہو جائیں کہ ”سرقہ بازی“ کی ساری تاریخ خاکسار کے سامنے ہے جسے ثبوتوں کے ساتھ اس طرح پیش کروں گا کہ ہر باضمیر عش عش کر اٹھے گا۔ باقی رہ گئی ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی تو ان ”صفات“ کے ساتھ پہلے کون لڑ لیا جو میں لڑ سکوں گا۔یوں بھی میں تو آج کے لیے لکھتا ہی نہیں۔ میں تو اپنی آئیندہ نسلوں کیلئے لکھ رہا ہوں جو فخر سے یہ کہہ سکیں کہ ہمارے بزرگوں میں بھی کوئی تھا جو لگی لپٹی بغیر لکھتا رہا آپ میں سے جو محبت کرتے اور پڑھتے ہیں وہ تو میرا بونس ہے … تنخواہ تو مجھے سو پچاس سال بعد ملنی شروع ہوگی۔افسوس گذشتہ موضوع سے ہٹنا پڑا !
تازہ ترین