• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معاشی غیر یقینی چھائی رہی، لاکھوں افراد بے روزگار ہوئے

2020ء ایک ایسا سال تھا کہ دنیا نے ایسے سال کم ہی دیکھے ہوں گے۔ یہ ہر لحاظ سے دنیا اور اس کے باسیوں کے لیے تجربات کا سال تھا۔اِس ضمن میں بہت سے تجزئیے، تبصرے کیے جاسکتے ہیں اور کیے جاتے رہیں گے، تاہم لفظ’’ غیر یقینی‘‘2020ء کی علامت رہا۔ زندگی کے ہر شعبے میں غیر یقینی اور اعتماد کی کمی دیکھی گئی۔ عوام نے اپنے معمولاتِ زندگی نئی تبدیلیوں سے روشناس ہوتے دیکھے۔معیشت، سیاست کے رجحانات میں تبدیلی، مشینز، ٹیکنالوجی پر بڑھتا انحصار، موسموں کے بدلتے اطوار، فضائی سفر، صحت کی سہولتوں، بچتوں کے منافعے میں کمی، ڈیجیٹل کرنسی میں اضافہ،غرض کہ تقریباً تمام ہی شعبہ ہائے زندگی یک سر بدلتے ہوئے دکھائی دئیے۔

تاہم، اِن سب باتوں کے باوجود اقتصادی صُورتِ حال کا قابو میں رہنا اور کسی ایسے بھونچال سے دُوری، جیسا کہ2007ء کے اقتصادی بحران کے بعد دیکھا گیا، جب بہت سے ممالک دیوالیہ ہوگئے تھے، ایک حیرت انگیز بات تھی۔ سائنس، خاص طور پر طبّی سائنس کی غیر معمولی برتری نے، جو سال کے آخر میں ایک نہیں کئی ویکسینز کی شکل میں نمایاں ہوئی، عوام کو نیا حوصلہ دیا۔عالمی مالیاتی، اقتصادی ادارے اور ماہرین اِس اَمر پر متفّق ہیں کہ جس قسم کی قوّتیں اِس وقت دنیا کے ہر شعبے میں کار فرما ہیں، وہ چیلنجز کو مواقع میں تبدیل کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں، جس سے عوام کی زندگی میں خوش گوار تبدیلی آسکتی ہے اور وہ نئے انداز میں ترقّی کی جانب بڑھ سکتے ہیں۔مایوس کُن معاشی حالات سے گزرنے کے بعد اس طرح کی پیش گوئیاں یقیناً سب کے لیے حوصلہ افزا ہیں۔

ترقّی یافتہ حکومتوں نے کورونا کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے جرأت مندانہ اقدامات کیے اور عالمی معیشت کو سہارا دینے کے لیے ایک اندازے کے مطابق 12ٹریلین ڈالرز مختص کیے۔پھر یہ کہ حکومتوں نے اپنے عوام کو ہر ممکن ریلیف دینے کی کوشش کی، یہی وجہ ہے کہ شاید ہی کسی مُلک میںبے روز گاری کے باوجود کوئی شہری بھوک سے ہلاک ہوا ہو۔عالمی مالیاتی اداروں اور امیر ممالک نے فراخ دلی سے پس ماندہ ممالک کے عوام کی بروقت مدد کی۔

اس میں مالی امداد شامل تھی اور ٹیکنالوجی کی فراہمی بھی، خاص طور پر طبّی سامان اور ضروری تربیت کی فراہمی نے پس ماندہ ممالک کو مشکل حالات میں بہت سہارا دیا۔صرف آئی ایم ایف نے مختلف ممالک کو 100 ملین ڈالرز کا ریلیف دیا، جن میں پاکستان بھی شامل ہے، جس کے قرضے مؤخر کرنے کے ساتھ، ایک بلین ڈالرز بطور امداد بھی دئیے گئے۔آئی ایم ایف کے پاس اب بھی ایک ٹریلین ڈالرز سے زاید کا فنڈ موجود ہے، جو وہ معیشتوں کے استحکام کے لیے کام میں لا سکتا ہے۔

یہ سب اِسی لیے ممکن ہوا کہ دنیا نے ماضی کے عالمی اقتصادی بحران سے جو سبق سیکھے، اُن سے زیادہ بہتر طور پر کام لیا گیا۔ عالمی معیشت اُس گرواٹ سے نکلنے کی جدوجہد میں مصروف رہی، جس میں وہ طویل لاک ڈائون کی وجہ سے جا گری تھی۔گزشتہ سال کے پہلے چھے ماہ میں عالمی اقتصادی عمل کو زبردست نقصان پہنچا، کیوں کہ دنیا کے لیے کورونا وبا بالکل نئی تھی، اس کا علاج بھی نہیں تھا اور پھر جن انتظامی اقدامات، خاص طور پر لاک ڈائون کا سہارا لیا گیا، اُس کی وجہ سے عوام کو بڑے ریلیف پیکجز دینے پڑے۔ ظاہر ہے، اس نے معیشت پر شدید دبائو ڈالا۔ لاک ڈاؤن نے عالمی معاشی عمل کی رفتار سُست کی، تو کئی ممالک میں معاشی پہّیہ بالکل ہی رُک گیا۔

یہ دنیا کے لیے ایک نیا تجربہ تھا، جس سے نکلنے میں ٹیکنالوجی کا کردار غیر معمولی رہا۔سال کے آخری مہینوں میں بیش تر ممالک نے اپنے کاروبار کھولنے شروع کیے، لیکن کئی ایک نے اس کی رفتار کچھ دھیمی رکھی، کیوں کہ وہ کورونا کی دوسری لہر سے کسی بڑے نقصان کے بغیر گزرنا چاہتے تھے۔چین کی معاشی بحالی توقّع سے تیز رہی کہ اُس نے ابتدائی دنوں ہی میں وبا پر قابو پا لیا تھا، تاہم دیگر ممالک میں بھی بحالی کا آغاز ہوا، البتہ کورونا کی دوسری لہر کے جھٹکوں سے مشکلات کا بھی سامنا رہا۔ماہرین نے پیش گوئی کی کہ 2021ء میں عالمی معیشت4.9 فی صد کی رفتار سے آگے بڑھے گی، یوں یہ پہلے کے تخمینوں سے 1.9 فی صد کم ہے۔آن لائن خدمات نے معاشی دوڑ کو کسی نہ کسی طرح ٹریک پر رکھا۔

ایک اچھی بات یہ بھی رہی کہ شعبۂ تعلیم، جسے لاک ڈائون سے خطرات لاحق تھے، کسی بڑے نقصان سے محفوظ رہا۔ دنیا بھر میں آن لائن کلاسز نے طلبہ کا نقصان کم کرنے میں مدد کی، لیکن ہمارے ہاں اس طریقۂ تعلیم کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔اِس بات میں تو کوئی شبہ نہیں کہ معاشی بحالی کا عملی مرحلہ وار ہی ہوگا، لیکن کورونا ویکسینز کے منظرِ عام پر آنے کے بعد حالات میں تیزی سے تبدیلی دیکھی گئی۔ ویکسین کی خبر کے ساتھ ہی عالمی اسٹاک ایکس چینجز میں مثبت ردّعمل دیکھنے میں آیا، جو اِس اَمر کی علامت تھی کہ تاجر اور سرمایہ کار اقتصادی عمل کی تیزی کے لیے تیار ہیں۔اِن اطلاعات کے عام آدمی پر بھی مثبت اثرات مرتّب ہوئے اور وہ زیادہ اعتماد سے کام پر جانے لگا۔نیز، لاک ڈائون اور سماجی فاصلوں میں کمی سے کاروبار میں تیزی آئی۔

آئی ایم ایف اور دوسرے مالیاتی اداروں کے مطابق چین کی معیشت وہ واحد معیشت ہے، جس نے بُرے حالات میں بھی توقّع سے زیادہ تیزی سے ترقّی کی۔چین کی معیشت کا پھیلائو مجموعی طور پر 1.9 رہا، جو ماہرین کے نزدیک کورونا دَور میں بہت اچھا تھا۔اس تیزی کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ چین نے دیگر ممالک کو بھی معاشی سہارا دینا شروع کیا۔امریکا، جو دنیا کی سب سے مضبوط اور بڑی معیشت ہے، کورونا کی تباہ کاریوں کا سب سے زیادہ نشانہ رہا۔وہاں پندرہ ملین لوگ اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے، جب کہ دنیا میں سب زیادہ اموات بھی وہیں ہوئیں۔

تاہم، امریکی اکنامک منیجرز نے شہریوں کی زندگیاں بچانے کے لیے تیزی سے کارروائی کرتے ہوئے عوام، تاجروں اور کمپنیز کو تاریخ کا سب سے بڑا ریلیف پیکیج دیا۔پھر یہ کہ سال کی آخری سہ ماہی میں امریکی معیشت نے اوپر کی طرف بھی آنا شروع کردیا۔ خاص طور پر دسمبر میں ویکسین کے آنے سے لوگوں کا اعتماد بحال ہوا اور ماہرین کے مطابق معیشت میں خاصی تیزی آئی۔ 2021 ء کے لیے اس کی ترقّی کی رفتار کا اندازہ3.1 فی صد لگایا گیا ہے۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سال کے آخری دنوں میں بھی شہریوں کے لیے ایک بڑے ریلیف پیکیج پر دست خط کیے، جس پر کچھ تنازع بھی رہا۔ بھارت میں، جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا مُلک ہے، کورونا نے بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔آئی یم ایف کے مطابق اُس کی معیشت 10.3 تک سُکڑ سکتی ہے، جو ایک ریکارڈ ہے۔

بھارت میں مارچ سے شروع ہونے والا لاک ڈائون دنیا کا سب سے بڑا لاک ڈائون تھا اور اس کے نتیجے میں متاثرین کی تعداد بھی سب سے زیادہ رہی۔مودی حکومت معاشی معاملات سنبھالنے میں بہت حد تک ناکام رہی اور اُس کی پالیسیز نے عوام کو احتجاج پر مجبور کیے رکھا۔ سال کے آخری دنوں میں کسانوں نے دارالحکومت، دہلی کا رُخ کیا اور اُن کا احتجاج کئی ہفتے گزر جانے کے باوجود نئے سال میں بھی جاری رہا۔ اگر ایشیا، بالخصوص جنوبی ایشیاکی بات کی جائے، تو عالمی مالیاتی اداروں کے مطابق خطّے کے ممالک گزشتہ برس معاشی لحاظ سے بہت پیچھے چلے گئے۔

کووِڈ۔19نے یورپ کے معاشی نظام کو بھی نشانہ بنایا، اِسی لیے یہاں بھی معیشتوں کے سُکڑنے کی رفتار زیادہ رہی۔ایک اندازے کے مطابق،55 ملین لوگوں کا روزگار اِس وبا کی زَد میں آیا۔اِس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یورپی ممالک نے اِس عالمی وبا کے خلاف زبردست اور نپا تُلا ردّعمل دیا۔اُنھوں نے بڑی فراخ دلی سے اپنے شہریوں کو ریلیف پیکجز دئیے، جو ایک طرف اُن کی اقتصادی مضبوطی کا ثبوت ہیں، تو دوسری طرف، ان پیکیجز سے عوامی مشکلات میں بھی خاصی کمی دیکھنے میں آئی۔علاوہ ازیں، جمہوری ممالک ہونے کے باوجود اُنھوں نے تیزی اور سختی کے ساتھ لاک ڈائون جیسے انتہائی اقدامات کیے، جن کے نتیجے میں شہری اور سماجی زندگی دروازوں کے پیچھے بند ہو کر رہ گئی، مگر وہاں کے عوام نے ان سخت پابندیوں میں اپنی حکومتوں سے مکمل تعاون کیا۔

نیز، سب سے بڑی بات یہ رہی کہ یورپی ممالک بڑے منظّم طریقے سے اس وبا کے مقابل آئے اور اُن کی پالیسیز بھی بالکل واضح تھیں۔اسی لیے لوگوں کو وبا کا مقابلہ کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔یہی وجہ ہے کہ پالیسیز کے حوالے سے کسی قسم کا ابہام یا عوامی سطح پر احتجاج نہیں دیکھا گیا۔یقیناً اس سے لوگوں کا جمہوریت، اپنے سیاسی نظام اور قیادت پر اعتماد مضبوط ہوا، اِسی لیے سال کے آخر تک ان ممالک کی معیشتیں بحالی کی راہ پر گام زن ہوگئیں۔ مالیاتی ماہرین کے مطابق، 2021ء میں یورپ کا اقتصادی عمل 4.7 فی صد کے آس پاس رہے گا۔جاپان بھی کورونا وبا سے متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔اس کی معیشت سال کی پہلی اور دوسری سہ ماہی میں بہت دبائو میں رہی۔ 

کئی بنیادی سیکٹرز میں تو نقصانات بہت زیادہ رہے، خاص طور پر پیداوری شعبے میں کمی کی وجہ سے لوگوں کے روزگار متاثر ہوئے۔یاد رہے، جاپان کے سب سے طویل عرصے تک وزیرِ اعظم رہنے والے شنزو ایبے نے صحت کی وجوہ پر استعفا دیا، لیکن تجزیہ نگاروں کے مطابق استعفے کی ایک وجہ معیشت بھی تھی، جو بڑی مشکل سے سنبھلنے کے بعد کورونا کی وجہ سے پھر نیچے آنے لگی۔ 

تاہم، اکتوبر کے بعد جاپان کی معیشت میں تیزی آئی اور مالیاتی اداروں نے نئے سال میں اس کی بحالی کی پیش گوئی کی۔ویسے تو جنوب مشرقی ایشیا کی تمام معیشتیں لاک ڈائون کی وجہ سے متاثر ہوئیں، جن میں جنوبی کوریا، تائیوان، سنگاپور، ملائیشیا، انڈونیشیا سب ہی شامل ہیں، لیکن مالیاتی اداروں کے مطابق، ان ممالک میں اِتنا دَم خم موجود ہے کہ وہ2021 ء میں بہتر کارکردگی دِکھا پائیں گے۔مِڈل ایسٹ کی صُورتِ حال خاصی مخدوش رہی۔

پہلے تو تیل کی کم قیمتوں نے خطّے کے معاشی حالات پر منفی اثرات مرتّب کیے اور اُن کے بجٹ تخمینوں پر دبائو بڑھا۔سعودی عرب، یو اے ای، کویت، قطر سب ہی تیل قیمتوں کے اس بحران کی زد میں آئے۔پھر فروری کے بعد شروع ہونے والے لاک ڈائون نے تو ان کی اقتصادیات کا بھٹہ ہی بِٹھا دیا۔وہاں زیادہ تر تارکینِ وطن کام کرتے ہیں، جن کی تعداد لاکھوں میں ہے اور ساٹھ لاکھ پاکستانی بھی اس افرادی قوّت میں شامل ہیں۔

لاک ڈاؤن کے سبب ایک تو لاکھوں افراد کا روزگار ختم ہوا، تو دوسری طرف،جن کی ملازمتیں بچ گئیں، اُنھیں تن خواہوں اور دیگر مراعات میں کمی کا سامنا کرنا پڑا۔مشرقِ وسطیٰ کی بڑی ائیر لائنز تقریباً تین ماہ بند رہیں، اس لیے وہاں کا بیرونی دنیا سے رابطہ منقطع رہا۔گو مالیاتی ادارے2021 ء کو مشرقِ وسطیٰ کی معاشی بحالی کا سال بتاتے ہیں، لیکن بحالی کا یہ عمل بہت آہستہ ہوگا، کیوں کہ ان کی معیشتوں کی بنیاد تیل پر ہے، جو اب بھی کم قیمت پر دست یاب ہے۔ افریقا کو بھی کورونا وبا نے اقتصادی میدان میں شدید نقصان پہنچایا۔

امیر ممالک اور عالمی اداروں کی جانب سے علاقے کی معاشی بہتری کے لیے برسوں سے کی جانے والی کوششوں پر کورونا نے پانی پھیر دیا۔تاہم، ان ممالک کی لیڈرشپ نے بیدار مغزی کا ثبوت دیتے ہوئے ہر بات پر لوگوں کو کورونا سے محفوظ رکھنے کو فوقیت دی۔ اس مقصد کے لیے سخت احتیاطی تدابیر اپنانے کے ساتھ لاک ڈائون کا طریقہ بھی اختیار کیا گیا۔روزگار کے مواقع میں کمی کے ساتھ پورے خطّے کی معیشت سُکڑی۔عالمی اداروں کے تخمینوں کے مطابق افریقا میں آیندہ سال شرح ِنمو 3.1 فی صد رہے گی۔

2020 ء پاکستان کی معیشت کے لیے انتہائی پریشان کُن سال ثابت ہوا۔تاریخ میں پہلی مرتبہ گروتھ ریٹ منفی پانچ پر گئی۔گو کہ اِس تنزّلی میں کچھ ہاتھ کورونا کا بھی تھا، لیکن سال کے شروع ہی میں جی ڈی پی گروتھ1.9 پر آچُکی تھی، جب کہ صرف دو سال قبل یہ5.8 تھی۔ اِس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مُلکی اقتصادی صُورتِ حال کس قدر دبائو میں رہی۔ 

ماہرین اسے گڈ گورنینس کی کم زوری بتاتے ہیں، تو حکومت کی معاشی سمت بھی واضح نہیں تھی۔تاہم، ان حالات میں ایک اچھی خبر کرنٹ اکائونٹ خسارے میں کمی کی صُورت سامنے آئی، جو گزشتہ برسوں میں سب سے کم یعنی 1.1 فی صد رہا، جب کہ پہلے 4.8 تک جا پہنچا تھا۔ ماہرین کے مطابق اس کی وجہ در آمدات میں کمی ہے، جو 19.3 فی صد کم ہوئیں، لیکن ساتھ ہی برآمدات میں بھی 7.5 فی صد تک کمی واقع ہوئی۔ ایسے میں تارکینِ وطن کی جانب سے بھیجے گئے ذرِ مبادلہ نے مُلکی معیشت کو بہت سہارا دیا۔2020 ء میں افراطِ زر گیارہ اشاریہ تک جا پہنچا، پی ٹی آئی کی حکو مت اس کا الزام ماضی کی حکومتوں پر ڈالتی رہی، تاہم اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ منہگائی آسمان پر جا پہنچی اور پورے سال حکومت اس معاملے پر تنقید کی زد میں رہی۔

عوام منہگائی کے ہاتھوں سخت پریشان رہے، جب کہ حکومت صرف اعلانات، دعووں، الزامات اور دلاسوں ہی تک محدود رہی۔آٹا، چینی، دالیں اور ادویہ جیسی عام استعمال کی چیزیں لوگوں کی پہنچ سے باہر ہوئیں، لیکن ریلیف بہت ہی کم یا سُست نظر آیا۔نیز، بجلی اور گیس کے ہوش رُبا بلز نے بھی شہریوں کے بجٹ غیر متوازن کردئیے، یہاں تک کہ اُن کے لیے گھر کا کچن چلانا بھی کسی معرکے سے کم نہیں تھا۔ڈالر معمولی کمی بیشی کے ساتھ160 روپے سے اوپر ہی رہا، جب کہ یہ2018 ء میں 120پر تھا۔ روپے کی قدر میں کمی کا اثر قیمتوں پر بھی پڑا۔عالمی مالیاتی اداروں کے مطابق، پاکستان کا 2021 ء میں گروتھ ریٹ 1.5 ہوگا۔ترقّی کی اِس قدر کم رفتار میں روزگار کے مواقع اور نئے ترقّیاتی منصوبوں کا آغاز ایک مشکل کام ہے۔

تازہ ترین