• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاک ڈاؤن میں بھی جنسی زیادتیوں، ڈکیتیوں، اسٹریٹ کرائمز، ٹارگٹ کلنگز کا سلسلہ نہ رُکا

سالِ گزشتہ کورونا وائرس کے باعث ہونے والے لاک ڈائون نے شہریوں کو تو گھروں پر رہنے پہ مجبور کیا۔ تاہم، شر پسند عناصر لاک ڈائون کو بھی کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے مجرمانہ کارروائیوں میں مصروف رہے۔ کالعدم قوم پرست تنظیموں کی جانب سے قانون نافذ کرنے والے اداروں،بالخصوص رینجرز اہل کاروں،موبائل وینزاور چوکیوںپرحملوں کا سلسلہ جاری رہا۔اکتوبر میں وزارتِ داخلہ کی جانب سے سینیٹ میں پیش کی جانے والی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’’جنوری2015 ءسے ستمبر2020 ءتک دہشت گردی کے 3,990 واقعات پیش آئے، جن میں 3,384افراد شہید اور 8,436زخمی ہوئے۔

شہید ہونے والوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 1,457اہل کار اور 1,927دیگرافراد، جب کہ زخمی ہونے والوں میں 2,569سیکیوریٹی اہل کارا ور 5,867 دیگر افرادشامل ہیں۔اعدادو شمار کے مطابق 2015ءمیں دہشت گردی کے 1,139 واقعات میں 838افراد شہید، 1,706 زخمی، 2016ء میں 785 واقعات میں 804 افرادشہید، 1914 زخمی ، 2017ء میں 741 واقعات میں668 افراد شہید، 2153 زخمی، 2018ء میں 584 واقعات میں 517افراد شہید، 1256، 2019ء میں 482واقعات میں 375افرادشہید،963زخمی اور 2020ء میں 259واقعات میں175افرادشہیداور 446 زخمی ہوئے۔‘‘

پنجاب میںاغوا، قتل اور زیادتی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔پولیس ریکارڈکے مطابق سال کے پہلے 6 ماہ میں روزانہ 35 افراد اغوا،11 قتل اور 9خواتین زیادتی کا شکار ہوئیں۔ واضح رہے،صوبے میں یکم جنوری سے 30 جون تک 6ہزار 448 افراد اغوا ہوئے۔یکم جنوری سے30 جون کے دوران 2 ہزار سے زائد افراد قتل ، 15سو سے زائد خواتین اور 600 سے زائد بچّے جنسی زیادتی کا شکار ہوئے۔

علاوہ ازیں، ستمبر میں دہشت گردی سے بھی کہیں زیادہ شرم ناک واقعہ لاہور موٹر وے پر پیش آیا، جس میں ایک خاتون اپنی گاڑی میں تین بچّوں کے ہم راہ لاہور سے گوجرانوالہ واپس جا رہی تھیں کہ موٹروے پر پیٹرول ختم ہوجانے کے باعث گاڑی بند ہوگئی۔ اور کسی کے مدد کے لیے پہنچنے سے قبل ہی دودرندوں نےگاڑی کا شیشہ توڑ کر خاتون کوبچّوں سمیت باہر نکالااورقریبی جھاڑیوں میں لے جا کر بچّوں کے سامنے ماں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی ،جب کہ خاتون سےطلائی زیورات اور نقدی وغیرہ بھی لے کر فرار ہوگئے۔

سندھ میں دہشت گردی کا سب سے بڑا واقعہ جون میں پیش آیا، جب چار دہشت گردوں نے اچانک پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر حملہ کر دیا۔جس کےنتیجے میں ایک پولیس اہل کار اور تین سیکیوریٹی گارڈز شہید ،جب کہ تین پولیس اہل کاروں اور سیکیوریٹی گارڈز سمیت 7افراد زخمی ہوئے۔واضح رہے،کار میں سوار دہشت گرداسٹاک ایکسچینج کی مرکزی عمارت کے اندر داخل ہونا چاہتے تھے۔

تاہم، ریپڈ ریسپانس فورس کے اہل کاروں اور سیکیوریٹی گارڈزکی بر وقت کارروائی نے حملہ ناکام بنا دیا۔پولیس حکّام کے مطابق دہشت گرد اسٹاک ایکسچینج میں داخل ہو کر لوگوں کو یرغمال بنا نے کے ارادے سے آئے تھے۔

ان کے پاس بھاری اسلحہ،دستی بم اور کھانے ، پینےکا سامان بھی تھا۔ ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کے قبضے سے10 یو ایس میڈ M67اور12 رشین میڈ MK2 ہینڈ گرینیڈز برآمد ہوئے ،جب کہ 3 اے کے 47 اور امریکی ساختہ لانچر گرینیڈ ، بڑی مقدار میں میگزینز ،گولیاں ، چنے اور جوس کے ڈبّے بھی برآمد کیے گئے ۔دوسری جانب،عید الفطر سے دو روز قبل لاہور سے کراچی آنے والا پی آئی اے کا بد قسمت طیارہ ، ایئر بس A-320لینڈنگ سے چند لمحے قبل آبادی پر گر کر تباہ ہوگیا۔ جس میں سینئر صحافی،انصار نقوی سمیت98افراد(عملے کے 7 ارکان سمیت 9 بچّے، 30 خواتین اور 59 مرد سوار تھے) ہلاک اور 9 زخمی ہوئے۔ حادثے میں بینک آف پنجاب کے صدر، ظفر مسعوداور ایک مسافر محمّد زبیر معجزاتی طور پر محفوظ رہے۔

سیاسی معاملات کی بات کی جائے تو اکتوبر میں کراچی میں مسلم لیگ ( نون) کے رہنما ،کیپٹن (ر ) صفدر کی جانب سے مزارِقائد پر نعرے بازی کے بعد پولیس کی جانب سے ان کی گرفتاری اور آئی جی سندھ کے مبیّنہ اغوا کے بعد سندھ حکومت اور وفاق کے درمیان محاذ آرائی دیکھنے میں آئی۔ جس کے نتیجے میں سندھ پولیس کے افسران نے احتجاجاًچُھٹیوں کی درخواستیں دینا شروع کر دیںاور ایک ہی دن میں تقریباً تمام سینئر پولیس افسران سمیت ایس ایس پیز،ایس پیز،ڈی ایس پیز اور ایس ایچ اوز نے بھی چھٹیوں کی درخواست دے ڈالیں، جس سے شہر میں ایک انتشارکی سی کیفیت پیدا ہوگئی۔

بعد ازاں، سندھ حکومت، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین، بلاول بھٹو زرداری اور آرمی چیف کی یقین دہانی پر پولیس افسران نے درخواستیں واپس لیں۔ اکتوبر میں شاہ فیصل کالونی میں مسلّح دہشت گردوں کی فائرنگ سے مہتمم جامعہ فاروقیہ ،کراچی مولانا ڈاکٹر عادل خان اور ان کا ڈرائیور شہید ہو گئے۔اکتوبرہی میں جمشید کوارٹرز کے علاقے میں فائرنگ سے عالمِ دین اور سبحانیہ مسجد کے پیش امام، مفتی عبداللہ زخمی ہوئے،سی ٹی ڈی نے بعد ازاں واقعے میں ملوّث گروہ کے دو ملزمان کو گرفتار کر کے بتایا کہ بھارتی خفیہ ایجینسی، را اس حملے میں ملوث نیٹ ورک کو آپریٹ کررہی تھی۔

اسٹریٹ کرائمز کی بات کی جائے، تولگ بھگ پورا سال ہی اسٹریٹ کرائمز، گھروں میں ڈکیتی اور لوٹ مار کا سلسلہ تواتر سے جاری رہا۔نیز،کراچی کے علاقے، سفاری پارک کے قریب پولیس مقابلے میں گلستان جوہر تھانے کے ایڈیشنل ایس ایچ او، سب انسپکٹر رحیم خان شہید ہوگئے۔دوسری جانب، خواتین کے ساتھ ساتھ مَردوں کو بھی سوشل میڈیا پر بلیک میل ، ہراساں کرنے کے واقعات سامنے آئےاورایف آئی اے ،سائبر کرائم سرکل ، پولیس نے ان میں ملوّث ملزمان کو گرفتار بھی کیا۔

ملیر کورٹ کے احاطے میں باپ نے بیٹے کے مبیّنہ قاتل کو فائرنگ کر کے شدید زخمی کر دیا، ڈیفینس میں پولیس اور ملزمان کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں 5ملزمان مارے گئے، ملزمان میں پی ٹی آئی کی خاتون رہنما ، لیلیٰ پروین کا ڈرائیور عباس بھی شامل تھا۔واضح رہے،لیلیٰ اور ان کے شوہر، ایڈوکیٹ علی حسنین نے مقابلے کو جعلی قرار دیا، جب کہ پولیس کا کہنا ہے کہ ’’ملزمان کا تعلق بین الصوبائی ڈکیت گروہ سے تھا اور ان کا کرمنل ریکارڈ موجود ہے۔

ملزمان گھروں میں ڈکیتیوں کی متعدّد وارداتوں میں ملوث ہیں۔‘‘ شہر کے مختلف علاقوں میں ناقص تعمیرات کے باعث مختلف عمارتوں کے زمین بوس ہونے کے واقعات بھی سامنے آئے۔جن میں خواتین اور بچّوں سمیت درجنوں افراد جاں بحق ہو ئے۔یاد رہے،غیر قانونی تعمیرات اور ایس بی سی اے کے افسران کی ملی بھگت سے شہر میں جس طرح عمارتوں کا جال پھیلا دیا گیا ہے،ان سے مزید حادثات کا بھی خدشہ ہے۔ نیز،عمارتوں میں پُر اسرار دھماکوں سے بھی متعدّد افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔گزشتہ برس اکتوبر میں مسکن چورنگی پر واقع عمارت میں ہونے والے دھماکے اور اس میں متعدد افراد کی ہلاکت پر ابتدا میں یہ کہا گیا تھا کہ یہ گیس لیکیج کے باعث ہوا ہے۔ 

تاہم، گیس کمپنی کی تردید کے بعد کراچی یونی وَرسٹی لیب کی جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’’رہائشی اپارٹمنٹ میں دھماکا خطرناک بارودی مواد ،ٹی این ٹی کا تھا‘‘۔ یاد رہے، دھماکے میں 9 افراد جاں بحق اور 22 زخمی ہوئے تھے۔اسی طرح کیماڑی میں پُر اسرار زہریلی گیس خارج ہونے کے نتیجے میں 14افردا جاں بحق ہوئے اور علاقے میںکئی روز تک خوف و ہراس کا عالم رہا۔ دسمبر کے آخر میں کراچی کے علاقے نیو کراچی انڈسٹریل ایریا میں برف کی فیکٹری میں گیس لیکیج کے باعث بوائلر پھٹ گیا، دھماکا اتنا شدید تھا کہ اس سے فیکٹری کی چھت تک گرگئی، جب کہ اطراف کی فیکٹریز کو بھی نقصان پہنچا۔واقعے کے نتیجے میں8 افراد جاں بحق اور 30 زخمی ہوئے۔

عالم گیر وباکورونا وائرس کاپھیلاؤ روکنے کے لیے لاک ڈاؤن کیا گیا، جس پر عمل در آمد کروانے کے لیے پولیس نے کلیدی کردار ادا کیا۔یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ پولیس افسران ، بالخصوص جوانوں نے کورونا وبا کے باوجود جاں فشانی سےاپنے فرائض انجام دئیے۔اس دوران کراچی پولیس چیف ،غلام نبی میمن سمیت متعدد پولیس افسران وائرس کا شکار ہوئے ۔ تادمِ تحریر وائرس سے متاثرہ پولیس افسران اور جوانوں کی مجموعی تعداد 3,935 ہے ،جن میں سے17 پولیس افسران وجوان شہیدہوگئے، جب کہ زیرِ علاج افسران اور جوانوں کی تعداد 374 ہے، تو 3,539 اہل کار صحت یاب ہوئے۔گزشتہ برس کراچی پولیس شہر میں امن کے قیام اور عوام کے جان و مال کے تحفّظ کے لیے عملی اقدامات کرتی نظر آئی۔

یہی وجہ ہے کہ گزشتہ برس ’’عالمی کرائم انڈیکس ‘‘میں کراچی بتدریج بہتر ہو کرچَھٹے نمبر سے 105 ویں نمبر پر آگیا۔ بلا شبہ، یہ کراچی پولیس اور دیگر قانون نا فذ کرنے والے اداروں کی کام یابیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اسی طرح 2020ء میں سندھ حکومت کی جانب سے پہلی بار کراچی میں تھانوںکی سطح پر بجٹ کی منظوری دی گئی ،جو شہر میں تھانہ کلچر کی تبدیلی اور کرپشن کے خاتمے کے لیے سنجیدہ اقدام ہے۔علاوہ ازیں، شہر کے تمام تھانہ جات میں قابلِ دست اندازی جرائم کی اطلاع ملتے ہی مقدمات کا فوری اندراج کیا گیا، جس کے نتیجے میں شہر میں جرائم کی شرح میں 25 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔پورا سال شہر میں صرف ایک بینک ڈکیتی کی واردات ہوئی، جس کے ملزمان کو انتہائی پیشہ وارانہ انداز میں گرفتار کرکے خطیر رقم بر آمد کرلی گئی۔ انسدادِ جرائم کے لیے سیکڑوں ٹارگٹڈ اور چھاپہ مار کارروائیاں ہوئیں ، جن میں مجموعی طورپر 20,155 ملزمان کو گرفتار کیاگیا، جن میں دہشت گردی سمیت سنگین جرائم میں ملوث 269ملزمان بھی شامل تھے۔

اسی طرح سال بھرمیں مجموعی طور پر 241پولیس مقابلے ہوئے، جن میں کراچی پولیس کے 15افسران ، جوانوں نے جامِ شہادت نوش کیا ،44 پولیس اہل کارزخمی ہوئے،جب کہ 49 ڈاکوؤں، دہشت گردوں اور ملزمان کو ہلاک کیاگیا۔واضح رہے،ملزمان سے فائرنگ کے تبادلے کے بعد 764اسٹریٹ کرمنلز رنگے ہاتھوں بھی پکڑے گئے۔ نیز، کراچی پولیس کے ایسٹ، ویسٹ اور ساؤتھ زونز میں پولیس نے متعدّد وارداتوں میں ملزمان کے زیرِ استعمال مختلف اقسام کا غیر قانونی اسلحہ مع ایمونیشن بر آمدکیا، جن میں5324 پستول/ ریوالور،32 کلاشنکوف/ شارٹ گنز،67رائفلز اور 107دستی بم شامل ہیں، جب کہ شہرکو منشّیات سے پاک کرنے کی مہم کے دوران مجموعی طور پر 10,415منشّیات فروشوںکو گرفتارکرنے کے علاوہ 4710.367کلو چرس، 84.214کلو ہیروئن، 14.624کلو آئس، 13.038کلو کرسٹل اور 51.969 کلو افیون بھی بر آمد کی گئی۔

پھرکراچی پولیس نے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو گرفتار کرکے بھاری مقدار میں دھماکا خیز مواد، ڈیٹو نیٹرز، دستی بم اور دھماکوں میں استعمال ہونے والی دیگر اشیا بھی تحویل میں لیں۔ اینٹی وہیکل لِفٹنگ سیل ، کراچی نے شہر میں کار، موٹر سائیکل لفٹنگ میں ملوّث 189 گینگز کے 3405 ملزمان کو گرفتار کیا۔ اسی طرح 15 مددگار ریسپانس ٹائم 14 منٹ سے کم کرکے 7 سے 8 منٹ کر دیا۔ یاد رہے،سالِ رفتہ 15 سروس کے ذریعے 474 ملزمان کوگرفتاربھی کیاگیا۔نیز،پولیس کی جانب سے شہر کے مختلف مقامات، عمارتوں پر 19,909 کلوز سرکٹ کیمرے پرائیویٹ سیکٹر/ عوام کے تعاون سے نصب کیے گئے۔

سی پی ایل سی کی ایک رپورٹ کے مطابق یکم جنوری سے13دسمبر تک شہرِ قائد سے 633گاڑیاں اور 33ہزار519موٹر سائیکلیں چھینی اور چوری کی گئیں،اس دوران 20ہزار 579موبائل فون شہر کے مختلف علاقوں سے چھینے گئے،رپورٹ کے مطابق بھتہ خوری کے 20، اغوا برائے تاوان کے2اور بینک ڈکیتی کا ایک واقعہ رونما ہوا۔سی پی ایل سی کے مطابق جنوری سے13دسمبر تک 353افراد قتل ہوئے۔ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کے مطابق شہر میں سائبر کرائم کی10 ہزار سے زائد شکایات رجسٹر ہو ئیں۔ٹریفک پولیس ریکارڈ کے مطابق 10دسمبر تک ٹریفک حادثات میں 176افراد جاں بحق اور 164زخمی ہوئے۔

بلوچستان میں بم دھماکوں ،دستی بم حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کاسلسلہ جاری رہا، جن میں زیادہ تر سیکیوریٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا۔ صوبے کے مختلف علاقوں میںمجموعی طور پر 80دھماکےہوئے ، جن میں پولیس، لیویز ، ایف سی اہل کاروں اور عام شہریوں سمیت 115سے زائدافراد شہید اور 250سے زائد سیکیوریٹی اہل کار اور شہری زخمی ہوئے۔نیز، دسمبر میں ہرنائی کے علاقے شاہرگ میں واقع پوسٹ پر رات گئے دہشت گردوں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میںپاک فوج کے7 جوان شہید ہوئے۔واضح رہے،دسمبر کے اواخر میں بلوچستان میں فوج کے خلاف دہشت گردوں کی یہ تیسری بڑی کارروائی تھی۔

خیبر پختون خوا میں گزشتہ سالوں کے مقابلے میں دہشت گرد ی کے واقعات میں خاصی کمی دیکھنے میں آئی۔پورا سال دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ پیش نہیں آیا۔البتہ، 27اکتوبر کو تھانہ آغا میرجانی شاہ کی حدود ،دیر کالونی میں سپین جماعت دارالعلوم زبیریہ میں بم دھماکا ہوا،جس میں8 بچّے شہید اور 150افراد زخمی ہوئے ۔دھماکا خیز مواد ایک نامعلوم شخص رکھ کرفرار ہو اتھا۔ عینی شاہدین کے مطابق دہشت گردوں کا نشانہ مولانا مفتی رحیم حقّانی تھے۔ 

تاہم، وہ محفوظ رہے۔ بعد ازاں، صوبے میں امن و امان کی مجموعی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لیے وزیرِاعلیٰ خیبرپختون خوا،محمود خان کی زیرِ صدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا ،جس میں دھماکے کے تناظر میں صوبے کی مجموعی سیکیوریٹی صورتِ حال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اوراس بات کا عزم کیا گیا کہ عوام کے جان و مال کا تحفّظ حکومت کا اہم فریضہ ہےاورصوبے کے امن و امان پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا ۔علا وہ ازیں، بچّوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میںپچھلے دو سالوں کے مقابلے میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا، جو یقیناً معاشرے کے لیے تشویش ناک صورتِ حال ہے۔

دوسری جانب، پولیس اور سیکیوریٹی فورسز نے ایک مشترکہ کارروائی کے دوران ضلع خیبر کے علاقے، سپاہ سے کالعدم تنظیم کے اہم کمانڈر سمیت 4دہشت گردوں کو گرفتار کیا۔ پولیس اور سیکیوریٹی فورسز نے انٹیلی جینس اطلاعات پر سپاہ کے علاقے میں ایک مکان پر چھاپہ مارا، جہاں سے کالعدم لشکرِاسلام کے کمانڈر ، ذاکر آفریدی سمیت 4 دہشت گرد گرفتار کیے گئے اوران کے قبضے سے 3 خودکُش جیکٹس برآمد کی گئیں۔ذرایع کے مطابق دہشت گردوں کے قبضے سے 6 دیسی ساختہ بم بھی برآمد ہوئے۔ بعد ازاں، انہی کی نشان دہی پربڈھ بیر میں بھی کارروائی کی گئی ،جہاں سے دہشت گردوں کے 8 سہولت کاروں کو گرفتار کیا گیا، جنہیں بعد ازاں مزید تفتیش کے لیے خفیہ مقام پر منتقل کردیاگیا ۔ذرایع کے مطابق یہ دہشت گرد 25 دسمبرکوپشاورمیں بڑی کارروائی کرنے والے تھے۔

تازہ ترین