• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج 2021کا پہلا اتوار ہے۔ آج کا دن آپ بچوں کے ساتھ گزاریں۔ اُن کے ذہن میں سوالات ہوں گے، سانحوں سے بھرے سال 2020کے بارے میں، کوویڈ 19سے متعلق، اپوزیشن اور حکومت کے درمیان بیان بازی کے حوالے سے، اسمارٹ فون میں چھپے خزانوں پر۔ 

آج فرصت ہے تو سوچئے کہ آپ اپنے طور پر اِس نئے سال کے 12مہینوں، 52ہفتوں کو کیسے بامعنی بنائیں گے؟ وقت تو گزرتا ہے، گزر جائے گا۔

وقت آتا ہے تو چیونٹی کی طرح سے لیکن

سانپ کی چال گزر جاتا ہے

ہمارا موضوع اِن دنوں تحقیق، تربیت، ترتیب اور تنظیم ہے۔ انسانی وسائل کی بہبود، ذہن سازی، استعداد کی تعمیر، دوسروں کے تجربات سے استفادہ، ہم انٹرنیٹ کے دَور میں ہیں، جسے مصنوعی ذہانت بھی کہا جاتا ہے۔

ہمیں خبردار رہنا چاہئے۔ مصنوعی ذہانت طبعی ذہانت پر غالب آتی جارہی ہے۔ اب تو کمپیوٹر خودبخود مضمون بھی لکھنے لگے ہیں۔ 

اب ہم اداروں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بننے کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کی کٹھ پتلیاں بھی بن رہے ہیں لیکن اپنا ذہن استعمال کررہے ہوں تو اِس ٹیکنالوجی سے اپنے آپ کو بہتر بھی کر سکتے ہیں۔ اپنی صلاحیتوں کو چمکا سکتے ہیں۔ آئی ٹی کے ہوتے ہوئے ہم دوسری قوموں سے دور نہیں ہیں۔ 

ہمیں اُن کی ترقی پر نظر ڈالنی چاہئے۔ جو کامیاب مملکتیں کہلاتی ہیں۔ میں ایک بار جنوبی کوریا کے مطالعاتی دورے پر تھا۔ وہاں فیکٹریوں میں میٹنگ ہوتی یا دفاتر میں، آخر میں بڑے بڑے چیئرمین، ایم ڈی سب کے ساتھ کھڑے ہوکر باآواز بلند کہتے تھے ’’جو دوسری قومیں کرتی ہیں، ہم بھی کر سکتے ہیں۔ آئیے ابھی سے شروع کردیں‘‘۔ 

یہ عزم ہمارا بھی ہونا چاہئے۔ اپنے لیڈروں کے زندہ باد اور جئے کے نعروں کے لئے آواز بلند کرنے کی بجائے اِس عزم کا اعادہ کریں۔ ’’جو دوسری قومیں کرتی ہیں ہم پاکستانی بھی کر سکتے ہیں، آئیے آج سے شروع کردیں‘‘۔

آپس میں محاذ آرائی۔ ایک دوسرے پر الزامات، ترجمانوں کے بیانی معرکے، احتجاج، سول نافرمانی، مقدمات، گرفتاریوں سے کامیابی کی منزل حاصل نہیں ہوگی۔ 

حکومتیں بدلنے سے حالات نہیں بدلیں گے۔ ایک باقاعدہ سسٹم کے قیام اور اطلاق کی ضرورت ہے۔ مسائل کا حل سسٹم کے ہر لمحہ جاری رہنے میں ہے۔ سب اس سسٹم کو تسلیم کریں ۔ کوئی بھی اس سے ماورا نہ ہو۔ تربیت کی بات ہورہی ہے۔ حکومت کے لئے یا کسی بھی منصوبے کی تیاری کے لئے۔ کسی بحران میں اہم فیصلوں کے لئے میں یہ مثال 1990سے دے رہا ہوں۔ 

ایک سال مجھے اسلام آباد میں حکومتی کارکردگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ میں نے اس وقت یہ سوچا اور لکھا بھی کہ منتخب حکمرانوں۔ بیورو کریسی اور فوج میں اصل فرق کیا ہے۔ فرض کیجئے کہ عجلت میں منعقد کی گئی ایک میٹنگ میں بلاول بھٹو زرداری ہیں۔ مریم نواز ہیں۔ آرمی چیف ہیں۔ کوئی سینئر بیورو کریٹ ہے۔ 

چلئے عمران خان کو بھی بٹھالیتے ہیں۔ فوری فیصلہ کرنا ہے۔ آرمی چیف کو اس عہدے پر پہنچنے میں 30سے 35سال لگتے ہیں۔ مختلف مراحل۔ تربیت۔ تعیناتی۔ اندرون بیرون ملک کورسز۔ اسی طرح سینئر بیورو کریٹ اے۔ سی۔ ایس ڈی ایم سے مختلف درجات طے کرتا۔ 

ملک بھر میں تعینات ہوتا۔ اندرون ملک بیرون ملک تربیتی کورسز کے بعد اس مقام پر ہے۔ بلاول بھٹو زرداری۔ مریم نواز۔ عمران خان۔ ان میں سے کسی تربیت سے نہیں گزرے۔ کوئی کورسز نہیں کیے ہیں۔ کسی بھی موضوع پر ان سب کے فرداً فرداً فیصلے کے معیار کا آپ سوچ سکتے ہیں۔ 

اگر فیصلہ فوری نہیں کرنا ہے ۔ تین چار دن ہیںتو آرمی چیف اور سینئر بیورو کریٹ کے پاس مشاورت اور ارضی حقائق جاننے کے لئے ملک بھر میں یونٹ دفاتر موجود ہیں۔ کسی پارٹی کی ملک بھر میں نہ تو شاخیں ہیں۔ نہ ایسا نظام کہ پارٹی سربراہ کو زمینی حقائق پر مبنی اصل معلومات اور اطلاعات مل سکیں۔ اس طرح بھی عمدگی اور قطعیت کس کے فیصلے میں ہوگی؟

ارضی حقائق اعداد و شُمار سے دانستہ بے خبری کی عادت سول حکمرانوں کو کمزور کرتی ہے۔ اب ذہانت استعمال ہونی چاہئے ۔ طاقت نہیں۔ میں نے پورے خلوص اور سنجیدگی سے اس تفاوت کو محسوس کیا اور اس پر بار بار لکھا۔ 

ایک بار محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک ہوٹل میں سیاسی کارکنوں کی تربیت کے لئے ایک سیمینار منعقد کیا تھا۔ جس کا موضوع تھا ’’ اکیسویں صدی میں سیاسی کارکن کا کردار‘‘ یہ زمانہ ہے بیسویں صدی کے آخری دو سال کا۔ میں نے ان کی موجودگی میں عرض کیا تھا اب پاکستان کو Agitatorsنہیں Administratorsدرکار ہیں۔ Oratorsنہیں Managersچاہئیں۔

سیاسی پارٹیوں کو چاہئے کہ اپنے وہ وفادار اور ذہین کارکنوں کو اپنے خرچ پر اندرون ملک اور بیرون ملک تربیتی کورسز کروائیں۔ صرف نعرے نہ لگوائیں۔ جلسوں جلوسوں کی طاقت نہ بنائیں۔

ہمارا اصل مسئلہ سیاسی پارٹیوں میں تنظیم اور جمہوری ڈھانچے کا نہ ہونا ہے۔ سیاسی کارکنوں میں اقتصادی اور انتظامی شعور نہ ہونا ہے۔ ان میں سوال کرنے کی جرأت نہیں ہے۔ سوال بنانا نہیں آتا۔

 سوال کرنے نہیں دیا جاتا۔ سوال کرنا اپنی تربیت۔ اپنے تحفظ کے لئے بھی ضروری ہے۔ مملکت کی ترقی کے لئے بھی۔ فوجی اداروں میں جو پیپرز تیار کیے جاتے ہیں۔ وہاں حقیقی صورت حال، مہنگائی، پیداوار، زراعت، برآمدات پر بھی تحقیق ہوتی ہے اور امکانی حالات پر بھی۔ 

مختلف سرکاری پرائیویٹ شعبوں میں کارکردگی کا معیار، خطرات کا ادراک بھی دیکھا جاتا ہے۔ مختلف منصوبوں پر اخراجات کی مانیٹرنگ بھی، ان کورسز میں ہر قسم کے سوالات کی اجازت ہوتی ہے۔

اس ہفتے مجھے Pakistan Institute of Pariliamentry Servicesکا دائرہ کار جاننے کا موقع بھی ملا۔ جہاں سینیٹ، قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اور ان کے اسٹاف کو تربیت دی جاتی ہے۔ آئندہ جائزہ لیں گے کہ یہاں کتنے معزز ارکان نے تربیت لی۔ 

ان کی شخصیت میں تربیت سے کیا بہتری آئی؟ ان کی کارکردگی کیسی رہی؟ اسی طرح نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ کے کورسز پر بھی بات کریں گے۔ ان شاء اللّٰہ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین