• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قائداعظم نے کہا تھا‘ قیادت کے انتخاب میں احتیاط لازم ہے کیونکہ نصف جنگ تو قیادت کے صحیح انتخاب سے ہی جیت لی جاتی ہے۔11 مئی کو حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے جن قابل رشک افراد کو ہم نے اپنی نمائندگی کیلئے چنا‘اس سے آدھی جنگ کی فتح و شکست کا فیصلہ بہرحال ہو چکا ہے اور اب محاذ جنگ ہموار ہو یا دشوار‘ سوچنا بے کار اور لاحاصل و عبث ہے۔ بہر طور وہ آشفتہ سر جو تبدیلی کیلئے بیتاب ہوئے جاتے تھے انہیں خبر ہو کہ قوم نیا پاکستان بنانے میں چنداں دلچسپی نہیں رکھتی اور پرانے پاکستان کو ہی آزمودہ مکینک سے ٹھیک کرا کے یونہی چلتے رہنے پر اکتفا کر چکی ہے۔ انقلاب کے خواب دیکھنے والوں کو نوید ہو کہ سردست وطن عزیز کی مٹی کشت ویراں امیدوں کی فصل برگ و بار لانے کی متحمل نہیں ہو سکتی البتہ ہتھیلی پر سرسوں جمانے کے بجائے پیہم ریاضت و مشقت کا سلسلہ جاری رہے‘ قلب و روح کی ہموار زمین کو خلوص و ایثار کی نمی دستیاب ہو‘ بے لوث پیار کی موافق آب و ہوا میسر کی جائے‘ وارفتگی کے بے میل جذبوں کی تمازت فراہم ہو‘ آغوش مادر جیسا سایہ مہیا ہو‘ ناامیدی و مایوسی کی جھاڑیاں نکال دی جائیں‘ ذاتی مفادات کے بل پر پرورش پاتی سنڈیوں کا قلع قمع کر دیا جائے اور پھر اس فصل گل کو اندیشہ ٴ زوال سے بچانے کا اہتمام ہو تو یہ مٹی واقعی زرخیز ہو سکتی ہے۔
قسمت ایک مرتبہ پھر میاں محمد نواز شریف پر مہربان ہو چکی اوروہ تختِ لاہور بچانے میں کامیاب ہو گئے بلکہ اسلام آباد میں وفاقی حکومت بنانے کیلئے بھی سرخُرو ٹھہرے۔ یقیناً میاں صاحب کے حق حاکمیت کیلئے یہی جواز کیا کم ہے کہ انہیں اقتدار کے ایوانوں سے نکلے ہوئے 14 برس ہونے کو ہیں اور پانچ سال تک نہایت خندہ پیشانی و ثابت قدمی کے ساتھ انہوں نے اپنی باری کا انتظار کیا۔ باقی رہا یہ سوال کہ آخر عوام نے انہیں اپنا قائد کیوں منتخب کیا؟ اس کا جواب بھی بہت سیدھا اورسادہ ہے۔ ابراہم لنکن نے کہا تھا کسی سیاستدان کو بے نقاب کرنے کا طریقہ اسے مسترد کرنا نہیں بلکہ منتخب کرنا اور بااختیار بنانا ہے لہٰذا پنجاب نے میاں نواز شریف‘ خیبر پختونخوا نے عمران خان‘ سندھ نے آصف زرداری اور بلوچستان نے قوم پرستوں کو ووٹ دے کر آزمائش و ابتلا کی اس بھٹی میں دھکیل دیا ہے جہا ں سے 5 سال بعد کچھ لوگ کندن بن کر نکلیں گے اور بعض وقت کے دھندلکوں میں گم ہو جائیں گے۔ یہ پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کا بستر ہے۔ میاں صاحب بلٹ ٹرینیں چلانے اور موٹروے بنانے کے وعدے کر آئے ہیں۔ اگر ان اعلانات نے عملی اقدامات کی شکل اختیار نہ کی تو پیپلز پارٹی اور اے این پی کا انجام یاد رکھیں۔
اس صورتحال پر اگلے کالم میں گفتگو ہو گی فی الوقت تو اس تنی ہوئی رسی کا تذکرہ ہو جائے جس پر عمران خان کو چلنا ہے۔ جوڑ توڑ کے ماہر مولانا فضل الرحمن کی خواہش ہے کہ ”اسپاٹ فکسنگ“ کے ذریعے صوبائی حکومت کی ٹرافی کپتان کے ہاتھ سے چھین لیں اور ساز باز کر کے آزاد امیدواروں کی مدد سے اپنا وزیراعلیٰ لے آئیں مگر میاں نواز شریف سے یہ توقع نہیں کہ وہ کسی کا مینڈیٹ چرانے کی کوشش میں ممدو معاون ثابت ہوں گے لہٰذا توقع یہی ہے کہ تحریک انصاف، جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی لیکن یہ مرحلہ ٴ شوق طے ہونے کے بعد کیا ہوگا؟ ڈرون حملے روکنے یا طالبان سے مذاکرات کرنے کیلئے صوبائی حکومت کو وفاقی حکومت کا تعاون درکار ہوگا۔ اگر تحریک انصاف نے مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو ٹف ٹائم دیا تو جواباً اسے خیبرپختونخوا میں کچھ نہیں کرنے دیا جائے گا چنانچہ مجلس عمل کی طرح تحریک انصاف کی حکومت بھی عوامی توقعات پر پورا نہ اتر سکی تو اگلے انتخابات ”واٹرلو“ کا میدان ثابت ہوں گے اس لئے کپتان کو یہ اننگ نہایت حکمت و تدبر سے کھیلنی ہو گی اور وکٹیں بچاتے ہوئے چوکے چھکے بھی لگانے ہوں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام کی اکثریت نے تبدیلی پر تجربے کو فوقیت دی ہے اور جہاں بینی کے مقابلے میں جہاں بانی کو قابل ترجیح گردانا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سونامی کی تندوتیز لہریں‘ عصبیتوں‘ جتھہ بندیوں‘ گروہی مفادات اور سماجی تضادات کو مکمل طور پر بہا لے جانے میں ناکام رہا ہے۔ عوام تاحال برادریوں کے خول سے مکمل طور پر باہر نکلے نہ اپنے معمولی نوعیت کے سطحی اور ذاتی مفادات سے دست کش ہوئے ہیں‘ دھڑے بندیوں کی سیاست ہنوز قائم و دائم ہے مگر طرفہ تماشا یہ ہے کہ عوام ان زنجیروں سے آزاد ہونے کو تیار ہیں نہ تبدیلی کے خوابوں سے دستبردار ہونے پر آمادہ ۔ یہ تو ایسے ہے جیسے فصل بوئے بغیر اناج کی خواہش کرنا‘ جیسے شریک سفرہوئے بغیر حصول منزل کی حسرت ناکام ‘ جیسے علاج کئے بغیر صحت یاب ہونے کی معصوم آرزو‘ جیسے امتحان دیئے بغیر پاس ہونے کی تمنا اور جیسے کام کاج کئے بغیر دولت مند ہونے کے خواب دیکھنا۔
وہ سیاسی تجزیہ نگار جن کا خیال ہے کپتان ہار گیا‘ وہ بھی اس غلط فہمی سے نکل آئیں۔ میاں صاحبان کا قلعہ فتح تو نہیں ہوسکا مگریہ وہی لاہور ہے جہاں میاں نواز شریف کسی کھمبے کو ٹکٹ دیا کرتے تھے تو وہ بھی منتخب ہو جایا کرتا تھا مگر اسی شہر میں خود میاں نواز شریف مدمقابل تھے اور ڈاکٹر یاسمین راشد جیسی50 ہزار ووٹ لینے میں کامیاب ہوئی۔ خواجہ سعد رفیق جیسے عوامی رہنماوٴں کو قومی اسمبلی کی سیٹ نکالتے دانتوں پر پسینہ آ گیا۔ حامد خان‘ محمد مدنی‘ عاطف چوہدری اور ولید اقبال جیسے امیدوار جو پہلی مرتبہ میدان میں اترے اور ہزاروں کی تعداد میں ووٹ لینے میں کامیاب ہوئے۔ ممکن ہے دھاندلی کے الزامات درست ہوں مگر تحریک انصاف کی قیادت کو اس جھمیلے میں پڑنے کے بجائے عوام کے فیصلے پر سرِ تسلیم خم کرنا چاہئے، عوام کا تغافل اور تجاہل انہیں مبارک مگر عرض تمنا کرتے رہنا ہی افلاکی و لولا کی قیادت کا طرز عمل ہوا کرتا ہے۔ خدا نہ کرے کہ اب ہمارے ملک میں قلیل المدتی انتخابات ہوں عوام نے جس جماعت کو حق حاکمیت ودیعت کیا ہے اسے اپنی مدت پوری کرنا چاہئے تاکہ عوام کو بھی معلوم ہو کہ جمہوریت کی شاہراہ میں کوئی ریورس گیئر ہے ناں یو ٹرن۔ اگلی مرتبہ لوگ سوچ سمجھ کر ووٹ دیں۔ عمران خان کوئے ملامت کا طواف کرنے کے بجائے جس قدر جلد رجوع کر لیں ان کے حق میں بہتر ہوگا عوام کے حسن انتخاب پر انگلیاں اٹھانے اور ووٹروں کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے خود اپنا محاسبہ کیا جائے اور یہ طرز عمل اختیار کیا جائے کہ
تجھے اعتبار الفت نہ جو آ سکا ابھی تک
میں سمجھ گیا یقینا ابھی مجھ میں کچھ کمی ہے
تازہ ترین