• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بہت دنوں سے بہت سے ادیبوں اور پڑھنے والوں کا اصرار تھا کہ آپ ادب اور ادیبوں کے بارے میں بہت کم لکھتی ہیں۔ اب کیا کروں جب بھی دوچار ادبی کتابوں کے بارے میں لکھنے کا ارادہ کرتی ہوں تو اتنی بہت سی رپورٹیں، فلیپ لکھنے کے لئے مسودے اور مجموعہ ہائے کلام پہنچ جاتے ہیں کہ میں سب کے ساتھ انصاف نہیں کرسکتی ہوں۔ کبھی ٹھہر جاتی ہوں کہ پھر لکھوں گی اور کبھی قلم اٹھا کر یکے بعد دیگرے ان کتابوں پر رواں ہوجاتی ہوں جن سے گریز ناممکن اور جن پر لکھنے کو جی چاہتا ہے۔ باقر نقوی ان میں سے ایک سینئر محقق اور مترجم ہیں۔ وہ ایسے موتی تلاش کرکے لاتے ہیں اور اتنا خوبصورت ترجمہ کرتے ہیں کہ پڑھتے جاؤ اور عش عش کرتے جاؤ۔ پہلے انہوں نے نوبل انعام یافتگانِ ادب کے تراجم کئے۔ پورے آٹھ سو صفحات پر مشتمل کتاب شائع کی۔ بعدازاں جن لوگوں نے امن کے لئے نوبل انعام حاصل کیا تھا۔ ان کے خطبات کا ترجمہ کیا۔ وہ بھی آٹھ نو صفحات پر مشتمل تھا۔ اب ان کا قلم چلا ہے سائنس میں جن لوگوں نے نوبل انعامات لئے ہیں ان کے خطبات کا ترجمہ کیا ہے۔ یہ بڑا مشکل کام تھا کہ ان اصطلاحات کو رمزِ اردو سے آشنا کرنا۔ کہیں کہیں جو مشکل الفاظ تھے ان کے انگریزی نام بھی وضاحت کے لئے لکھ دیئے ہیں۔ یوں تو باقر نقوی نے پہلے بھی الیکٹرونکس اور خلئے کے بارے میں کتابیں اردو میں منتقل کی تھیں مگر ادویات والی کتاب بڑی جانفشانی چاہتی تھی اور یہ حق انہوں نے ادا کیا۔ ابھی تو صرف مطلع کی بات ہوئی ہے۔ اب آیئے مقطع کی طرف دیکھیں تو ایک اور اہم کتاب سامنے آتی ہے۔ وہ بھی نوبل انعام یافتہ جرمن مصنف گنٹرگراس کے عالمی شہرت یافتہ ناول ٹن ڈرام کا ترجمہ ہے جسے باقر صاحب نے نقارہ کے نام سے ترجمہ کیا ہے ۔ ان ناول پر فلم بھی بنی تھی جو کہ ناول کی طرح مشہور ہوئی۔
اب ذرا شاعری کی سمت سفر کرتے ہیں یہ صابر ظفر ہیں جو کہ تیس سے زائد شعری مجموعوں کے خالق ہیں۔ بہت ہی مشکل ردیف می رقصم کو نبھانے کی بھی کوشش کی ہے۔ اس ردیف کے صحیح ہونے کی سند، علامہ طالب جوہری سے بھی لی ہے۔ دوسری کتاب ”پلکوں میں پروئی ہوئی رات“ جس کے عنوان کے ساتھ بھی تحریر ہے۔ 107 نئی غزلوں پر مشتمل اکتیسواں شعری مجموعہ ، مزاج یار کو برا نہ لگے تو عرض کروں کہ غالب کی تو صرف ساڑھے چار سو غزلیں ہیں، جس کی تشریح کرتے ہوئے، نقاد بیدم ہوئے جاتے ہیں۔ سیکڑوں تشریحات ہوچکیں مگر ابھی تک پورا غالب سمجھ میں نہ آسکا ہے۔ شعر کی ماہیت بہت ضروری ہے۔ بہ نسبت اس غایت کے کہ کس قدر مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ ویسے صابر ظفر بہت پر گو شاعر ہیں۔ سلامت رہے ان کی زود گوئی کہ یونہی شعر کہتے رہنے سے یہ تو ممکن ہوگا کہ کوئی ادب دوست ان کا منتخب کلام شائع کرسکے گا۔
اسی طرح جلدی جلدی شعری مجموعے چھپوانے میں خلیق اور علی اکبر ناطق کا نام بھی آتا ہے مگر یہ خود ہی بہتر شاعری کا انتخاب کر لیتے ہیں۔ حارث نے چونکہ دنیا بھر کا ادب پڑھا ہوا ہے اس لئے تازہ شعری مجموعہ ”میلے میں“ عمدہ نظموں کا آئینہ دار ہے جبکہ ناطق نے جہاں سفیر لیلیٰ جیسی کمال نظمیں تحریر کی ہیں وہیں باجرے کی ڈالیوں جیسی زمین سے رشتہ رکھنے والی نظمیں بھی ہیں۔ ناطق نے چونکہ عربی اور فارسی بھی پڑھی ہوئی ہے اس لئے مضاف دریا جیسی تراکیب استعمال کی ہیں۔ ان ترکیبوں سے ماورا انوکھے انداز میں پوری ایک نظم محبت کی کہانی کی شکل میں ایسی کتاب ہے کہ منظوم ڈرامہ نہیں بلکہ دو کرداروں سنبل اور ظفر کی محبت کی کہانی ہی نہیں بلکہ آج کل جو نیٹ پہ واہیات باتیں کرتے ہیں ان کے لئے نسخہٴ کیمیا کے طور پر کام آسکتی ہے۔ اردو شاعری میں مکالماتی شاعری کی یہ پہلی کتاب ہے۔چونکہ ایوب خاور ڈرامہ رائٹر، ڈائریکٹر اور شاعر ہیں۔ یہ تینوں رموز ان کی اس کتاب میں خوبصورتی سے عیاں ہو گئے ہیں۔ شعری ابلاغ بھی جگہ جگہ نظر آتا ہے۔
وہ آنسو ابھی تک جو سنبل کے لہجے میں بل کھا رہے تھے۔ اب آہستہ آہستہ آنکھوں کے زینے اترنے لگے ہیں۔ ایسی لائنیں ایوب خاور شاعر کی یاد دلاتی ہیں۔ یہ کتاب اسٹیج پہ یا ٹی وی پر بڑی خوبصورتی سے اسٹیج کی جاسکتی ہے۔ آج کل ناپا نے سنجیدہ ڈراموں کی پیشکش کا جو بیڑہ اٹھایا ہوا ہے وہ یہ کوشش بآسانی کرسکتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر انور سجاد ”ویلنٹائن ڈے“ جیسے موقعوں کے لئے یہ بہت کامیاب کتاب ہوسکتی ہے مگر لوگ ایک گلاب کا پھول دے کر بھی مطمئن ہو جاتے ہیں۔ کتاب پڑھنا اور پھر اس کو استعمال کرنا، مشکل محبت ہے!
ڈاکٹر اقبال آفاقی نے افسانے کی متنی جزئیات کو پہلے تاریخ کے بطن سے نکالا پھر اس کی تھیوری پر نظر ڈالی، بعد ازاں کرشن چندر، بیدی، منٹو، انتظار حسین، منشا یاد، احمد داؤد اور آخر میں کافکا کی کہانیوں کا تجزیہ کہا ہے۔ ایک نقاد جو کہانی سے محبت کرتا ہے اور پھر ہر افسانہ نگار کی کردار نگاری کا تجزیہ کرتا ہے وہ منطقی استدلال اور معروضی تجزیئے کے ساتھ افسانہ نگار کے متن کا جائزہ لیتے ہیں۔ بیانئے کی دلکشی کی تعریف کرتے ہیں اور یہ تذکرہ بھی کرتے ہیں کہ آخر کو انیسویں صدی میں کہانی ساری دنیا میں لکھنے کا رواج کیوں عام ہوا۔ اب آخر میں ایک مختصر مگر بہت اہم کتاب جو پی این اے کی تحریک یعنی1977ء میں اخبارات نے کیا کردار ادا کیا۔ یہ کتاب ڈاکٹر نور فاطمہ کی تحقیق پر مبنی ہے۔ یہ کتاب دراصل پریس اور سیاست کے درمیان واضح رشتوں اور تفاوت کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس موضوع پر کچھ کام ہوا ہے مگر اس قدر نہیں جتنی کہ ضرورت ہے کہ مذہب کو عمومی نفسیات کے لئے اور لوگوں میں مذہبی جوش پیدا کرنے کے لئے جس قدر سلوگن بنائے گئے ہیں۔ وہ اب طالبان کی شکل میں ایسے واضح ہوئے ہیں کہ بہت سے رجعت پسند بھی یہ کہنے پہ مجبور ہیں کہ لبرل ہونا کوئی برا نہیں ہے کم از کم قتل و غارت گری سے تو بچے رہتے ہیں۔ نور نے نہ صرف ہر اخبار کی تحریروں کا تجزیہ کیا ہے بلکہ ان کے اداریوں کو بھی تفصیلاً سیاق و سباق کے ساتھ پیش کیا ہے کہ یہ پہلی دفعہ ہوا تھا کہ پریس نے تھوڑی سے آزادی حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ اب آپ سب لوگ مطمئن کہ میں نے ادبی تحریروں پر تبصرہ کردیا ہے!
تازہ ترین