• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
11 مئی کے انتخابات کے ذریعے پاکستان کے عوام نے اپنا فیصلہ صادر کردیا، جس میں ن لیگ نے واضح کامیابی حاصل کی اور وہ چھوٹی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کی مدد سے وفاق میں ایک مستحکم حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ یہ معیشت کے لئے مفید ہے کیونکہ مستحکم حکومت معیشت کو استحکام دینے میں کامیاب ہوجائے گی۔ ہم مانیں یا نہ مانیں پاکستان کی معاشی ترقی کافی حد تک کراچی میں امن و امان سے وابستہ ہے۔ پاکستان کی معاشی حالت اس حد تک ابتر ہو چکی ہے کہ وہ ملک کے معاشی مرکز میں عدم استحکام اور پُرتشدد کارروائیوں کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ یہاں پر صورتحال سے سیاسی طور پر نبردآزما ہونا ن لیگ کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ پاکستان کو کس طرح اگلے دو ماہ میں بیرونی ادائیگیوں کے زمرے میں دیوالیہ ہونے سے بچایا جائے، نئی حکومت کیلئے یہ ایک اور بہت بڑا چیلنج ہے۔ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے تنزلی کا شکار ہیں، جن میں دو سالوں میں8 /ارب ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے۔3مئی کو ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کی مالیت6.8/ارب ڈالر تھی اور اگر اس میں نجی بینکوں سے حاصل کردہ فارورڈ بائینگ کی2.6/ارب ڈالر کی رقم گھٹا دی جائے تو یہ 4.2/ارب ڈالر کی خطرناک حد تک کمی کی سطح تک پہنچ جائے گی۔ جون2013ء کے آخر تک ہمیں آئی ایم ایف کو 2کروڑ 64لاکھ ڈالر کی ادائیگی کرنی ہے جس کے بعد ہمارے ذخائر کی مالیت 4/ارب ڈالر رہ جائے گی۔ بیرونی ادائیگیوں سے نبرد آزما ہونے کیلئے پاکستان کو آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج حاصل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، سینیٹر اسحاق ڈار کے وزیر خزانہ بننے کے قوی امکانات ہیں، وہ معاشی چیلنجوں سے بہرہ ور ہیں اور وہ آئی ایم ایف پروگرام کیلئے ادارے سے بہتر طور پر مذاکرات کرسکیں گے۔ ن لیگ کی نئی حکومت کیلئے تیسرا فوری چیلنج بجٹ 2013-14ء کی تیاری ہے، جس کیلئے نئے وزیر خزانہ کو اچھی ٹیم تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ مزید یہ کہ بجٹ خسارے سے نمٹنے کیلئے آئی ایم ایف بیرونی آمد زر کا واضح تصور پیش کرے گا۔ چوتھا بڑا چیلنج آئی ایم ایف کا پروگرام حاصل کرنے کیلئے حکومت کا ملکی سطح پر معاشی اصلاحات کا ہمہ گیر ایجنڈا مرتب کرنا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے اور دوست ممالک کی توقع ہے کہ پاکستان میں ٹیکس اصلاحات اور اخراجاتی اصلاحات کا نفاذ کرکے اضافی وسائل فنڈز کی فراہمی کو ممکن بنایا جائے۔ قومی اداروں کی نجکاری معاشی ایجنڈے کا ایک اور جزو ہے جسے ن لیگ کے معاشی ایجنڈے میں اہمیت حاصل ہے، نجکاری کے عمل سے نبردآزما ہونے کے دو طریق کار ہیں، پہلا انہیں بیل آؤٹ پیکیج دے کر ان میں انتظامی اصلاحات کی جائیں تاکہ یہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں اور پھر ان کی نجکاری کی جائے، دوسرا طریق کار یہ ہے کہ ان کی فی الفور نجکاری عمل میں لائی جائے۔ کونسا طریق کار اپنایا جائے، یہ فیصلہ نئی حکومت کو کرنا ہے۔ توانائی کے شعبے کا بحران پیچیدہ اور کثیر الزاویہ ہے۔
اس شعبے کا مسئلہ طلب و رسد سے زیادہ انتظامی ہے، جسے بہتر انتظامی کارروائی سے کافی حد تک حل کیا جاسکتا ہے۔ توانائی کے شعبے کیلئے مطلوبہ اہداف پر مبنی سبسڈی کو جاری رکھا جائے جبکہ مکمل سبسڈی کو دو تین سال کے عرصے میں بالکل ختم کردیا جائے۔ نئی حکومت وزارت پانی و بجلی اور وزارت پیٹرولیم اور قدرتی وسائل کو ایک دوسرے میں ضم کرکے وزارت توانائی تشکیل دے سکتی ہے، جس سے حکومت کو توانائی کے بحران کو موثر طور پر حل کرنے میں مدد ملے گی۔ واپڈا کے ملازمین کو فوری طور پر مفت بجلی کی فراہمی بند کی جائے۔ نئی حکومت اپنے دور میں بجلی کی ترسیل کار کمپنیوں کی نج کاری کر سکتی ہے۔ گیس کے استعمال کو بجلی بنانے کیلئے ترجیح دینی چاہئے ناکہ ٹرانسپورٹ کے مصرف کیلئے اسے مختص کیا جانا چاہئے۔ نیز گیس کو صرف موثر بجلی ساز پلانٹس کو فراہم کیا جانا چاہئے۔ نئے این ایف سی ایوارڈ میں تبدیلیاں کئے بغیر بامعنی مالی اصلاحات نہیں کی جا سکتیں۔ نئے این ایف سی ایوارڈ کی فنی خامیوں پر قابو پانے کے کئی طریق کار ہیں، بس کر گزرنے کی نیت ہونی چاہئے۔ مرکزی بینک میں بھی اصلاحات نافذ کرنا معاشی ایجنڈے کی ضرورت ہے۔ ن لیگ کے پاس تجربہ کار اور بہتر ٹیم ہے جو ملک کو معاشی استحکام دلانے میں کامیاب ہوجائے گی۔ عوام نے ن لیگ کو ملک کا نظم و نسق چلانے کا ہی نہیں بلکہ معیشت کو تنزلی کی دلدل سے باہر نکالنے کا بھی مینڈیٹ دیا ہے۔
تازہ ترین