• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل سیاسی بازار کافی گرم ہے۔ ایک طرف جلسوں کا زور ہے، حزب اختلاف کی پرجوش تقاریر ماحول کو گرما رہی ہیں تو دوسری طرف حکومت کی طرف سے ناکامی کا اعتراف کے بعد سے حمایتی اراکین کے تیور ہی بدل گئے۔ اب وہ حکومت سے علیحدہ ہونے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ کبھی کوئی کچھ بیان دے رہا ہے اور کبھی کچھ۔ اس کے برخلاف حزب اختلاف کا مسلسل دعوٰی کہ حکومت وقت سلیکٹڈ ہے الیکٹڈ نہیں ہے۔ لیکن جب بھی حزب اختلاف کی کارکردگی تو دیکھا جائے تو عام فہم آدمی کے دماغ میں بھی یہ بات آتی ہے یہ حزب اختلاف کے لوگ جو کچھ بھی کر رہے ہیں کیا وہ خود ہی کر رہے ہیں یا کسی کے اشارے پر کر رہے ہیں ؟ کیونکہ ہر ذی شعور انسان یہ بات جانتا ہے کہ انسانی نفسیات کے مطابق کسی بھی عمل / action کا فوری ردعمل / ری ایکشن ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے سیاست دانوں کے ساتھ معاملہ بالکل ہی الٹا ہے۔ یہ کئی سال گزرنے کے بعد اچانک اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہیں ۔ اور شور ایسا ہوتا ہے کہ جیسے واقعہ ابھی کا ہو۔ کیا یہ سب بیوقوف ہیں یا عوام کو بیوقوف سمجھتے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن پہ سال کے سال احتجاجی دھرنے ابھی تک عام لوگوں کے ذہن میں محفوظ ہیں۔ کیا اب ان کے متاثرین انصاف کے طلب گار نہیں رہے یا یہ وہ سخت سردی کے دھرنے کسی خاص مقصد کے لئے کچھاندازہ نہیں۔ اسی طرح ن لیگ کی قیادت گرفتاری دینے بڑی بہادری سے لندن سے آتی کچھ عرصے قید میں رہنے کے بعد رہا ہوتی ہے اور گوشہ نشینی اختیار کرلی جاتی ہے ۔ کسی بڑے سے بڑے مسئلہ پہ خاموشی اختیار کی جاتی ہے ،ٹیوٹر اور فیس بک پر سناٹا چھایا رہتا تھا۔ اب اچانک کون سا انقلاب آیا یا کوئی خاص سیل ان کے جسم میں ڈالے گئے ہیں کہ پھر سے یہ اپنی پرانی ڈگر پر چل پڑے ہیں۔ حسب اقتدار کو مسلسل للکار رہے ہیں۔ بہادری کا یہ عالم ہے کہ اپنے آپ کو گرفتار کروانے کے لئے پیش کر رہے ہیں۔ عام آدمی پریشان ہے کہ پہلے کیوں خاموش ہوئے تھے اور اب پھر کیوں بول رہے ہیں۔ کیا یہ بھی کسی dictation کے منتظر تھے؟ادھر پی پی پی کی قیادت کا بھی یہی حال ہے۔ غصہ میں ہوتے ہیں تو خوب ذومعنی گفتگو کرتے ہیں ، طنز کے تیر چلاتے ہیں اور اشارتا دھمکی دے کر ملک سے باہر چلے جاتے ہیں۔ پھر ایک لمبی خاموشی اور سناٹا چھاجاتا ہے۔ کچھ عرصے بعد کوئی دوسرا خاندان کا فرد آکر پارٹی کی قیادت سنبھالتا ہے اور اپنا نیا بیانیہ لاتا جو سینئیر قیادت کی للکار سے مختلف ہوتا ہے۔ اور ایسے میں سینیئر قیادت منظر عام سے غائب رہتی ہے۔ بےنظیر شہید تو گردانی جاتی ہیں لیکن ان کی شہادت کے ذمہ داروں کو پکڑنے، ان کے خلاف کارروائی کرنے متعلق اب کوئی بیان نہیں۔ ہر طرف راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ کبھی قاف لیگ قتل لیگ تھی لیکن ضرورت پڑنے پہ اس سے سمجھوتہ ہوجاتا ہے۔ کیونکہ عوام کی یاداشت تو بہت خراب ہے۔ ادھر اٹھارہ سال کشمیر کمیٹی کی سربراہی کے باوجود کشمیر کے مسئلہ پہ کوئی پیش رفت نا کرنا لیکن پھر پارلیمان کا حصہ نا بننے پہ حکومت وقت کے خلاف اپنی فوج تیار کرلینا اور زور دار احتجاجی تحریک کی قیادت کرنا کیونکہ عوام تو معصوم ہے۔ آخر میں مردم شماری کے بعد گنتی کی کمی پر خاموش رہنا اور اب دو سال کے بعد اچانک کم گنئے جانے کے خلاف احتجاج سمجھ سے بالاتر ہے ۔ عوام خاموش ضرور ہیں لیکن سمجھتے سب ہیں کہ الیکشن سے صرف سلیکشن نہیں ہوا بلکہ ہر سیاسی جماعت کسی نا کسی اشارہ یا چمک کی منتظر ہوتی ہے پھر دوسروں پہ طنز کیوں۔جب ایک ہی حمام میں سب ایک ہی جیسے ہیں تو پھر یہ ہنگامہ کیا؟

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین