• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الیکشن 11مئی کو ہوئے، لوگوں میں بڑا جوش و خروش تھا کہا جارہا ہے کہ اس بار ووٹرز بہت بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے کے لئے نکلے۔ اس میں کوئی شک نہیں میں نے پنجاب میں جوش و خروش اپنی آنکھوں سے دیکھا پورے ملک میں ایک ہی سی فضا تھی، کہیں کم اور کہیں زیادہ۔ سندھ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں خوف کی کیفیت کچھ زیادہ تھی۔ سیاسی پارٹیوں نے اور ان کے لیڈروں نے کامیابی کی بڑی بڑی توقعات قائم کر رکھی تھیں۔ وہ نعروں پر اور اپنی تقریروں اور شعلہ بیانی پر انحصار کئے بیٹھے تھے جب نتیجہ ان کی توقعات کے خلاف آگیا تو وہ کہہ رہے ہیں، دھاندلی ہوئی ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے پہلے بھی اسی طرح ہوتا رہا ہے کوئی ہار ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔ میں سمجھتا ہوں اے این پی کی قیادت نے، ان کے بڑوں نے بڑی اخلاقی جرأت کا ثبوت دیا کہ انہوں نے شکست تسلیم کرلی، یہ جمہوریت ہے اور یہ اس کی قدروں کا تقاضا ہے۔ پہلے بھی مجھے یاد ہے جب ولی خان انتخاب میں ہار گئے تھے تو انہوں نے بھی ایسا ہی کیا تھا بلکہ ان کو پنجاب کے ایک سیاستداں نے پنجاب کے ایک ضمنی انتخاب میں حصہ لینے کی دعوت دی تھی لیکن انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ جب میرے ہی لوگوں نے مجھے مسترد کر دیا ہے تو میں کہیں سے الیکشن نہیں لڑوں گا۔
پاکستان برطانیہ یا امریکہ میں جہاں کہیں جمہوری اصولوں کے مطابق اور آئینی روایات کے تحت الیکشن ہوتے ہیں یہاں وہ صورتحال آنے میں مزید سو سال لگ سکتے ہیں۔ پاکستان کا معاشرہ فیوڈل اور برادری نظام میں جکڑا ہوا ہے یہاں آئندہ بھی اسی طرح ہوگا جس طرح اب ہوا ہے لیکن یہ کہہ کر ہنگامہ اور شور و غل کرنا کہ دھاندلی ہوئی ہے اب پیپلزپارٹی یہ کہہ رہی ہے کہ پنجاب میں انجرڈ الیکشن ہوا ہے انہوں نے اس کے لئے جو لفظ استعمال کیا ہے وہ Manipulated ہے۔ زرداری صاحب کو یہ بات تسلیم کرلینی چاہئے کہ مسلم لیگ (ن) کی کامیابی پہلے سے ہی نظر آرہی تھی انہوں نے انتخابی مہم بڑے سلیقے سے اور منظم ہوکر چلائی۔
اب پاکستان تحریک انصاف بھی یہ کہہ رہی ہے کہ پنجاب میں دھاندلی ہوئی ہے، کراچی میں دھاندلی ہوئی ہے یہ ایک بڑا الزام ہے عمران خان سے بڑی معذرت کے ساتھ، ان کی انتخابی مہم میں منفی تاثر غالب تھا انہوں نے نوجوانوں کو متوجہ کرنے کی کوشش کی اور ایسے بہت رائے دہندگان نکلے لیکن انہوں نے سو فیصد ووٹ پی ٹی آئی کو نہیں ڈالے، ووٹ دیتے وقت کئی اور فیکٹر بھی کام کرتے ہیں جس کو ان کی پارٹی نے سامنے نہیں رکھا۔ اس بات سے کوئی انکار کرسکتا ہے کہ پنجاب کے ووٹر کا Mindset وہ نہیں ہے جو سندھ کے دیہی اور شہری علاقے کا ہے۔ بلوچستان کے لوگوں کا کسی بھی سیاسی عمل پر ردعمل بالکل مختلف ہوتا ہے خیبر پختونخوا کے لوگ خواہ وہ بوڑھے ہوں، جوان ہوں وہ کسی اور طرح سوچتے ہیں۔
میں دعوے سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ اگر خیبر پختونخوا میں مذہبی جماعتیں ایک پلیٹ فارم سے الیکشن لڑتیں تو شاید پی ٹی آئی کو اتنی نشستیں بھی نہ ملتیں وہاں مذہبی جماعتیں متحد ہونے میں ناکام ہوگئیں۔ یاد رکھیں بڑے بڑے جلسے کرنے سے کامیابی نہیں ہوتی۔ کراچی اور حیدرآباد میں ایم کیو ایم کو زیادہ سیٹیں ملنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے کراچی اور حیدرآباد میں کام کیا ہے اور اس کی تعریف سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس نے بھی کی تھی۔ پھر یہ کہ انہوں نے ایک ایسا Mindset بنادیا کہ یہاں کا ووٹر نمائندے کو ووٹ نہیں دیتا، پارٹی کو ووٹ دیتا ہے۔جو لوگ اور پارٹیاں الیکشن میں توقع کے مطابق کامیاب نہیں ہوئی ہیں انہیں ناکامی کے اسباب اپنے طرزعمل میں تلاش کرنا ہوں گے۔ پی ٹی آئی نے بہت زیادہ توقعات قائم کرلی تھیں یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ الیکشن میں دھاندلی نہیں ہوئی ہے امریکہ جیسے ملک میں صدارتی الیکشن میں دھاندلی ہوئی اور فلوریڈا میں گنتی کی ہیر پھیر ہوئی اور جیتا ہوا امیدوار الیکشن ہار گیا لیکن انہوں نے اپنے ملک کی خاطر اور سسٹم کی خاطر اس کو نظراندازکیا۔
پیپلزپارٹی کو الیکشن میں نقصان برے طرز حکمرانی کی بدولت ہوا، کرپشن کے بے انتہا الزامات لگائے گئے ان کے وزیراعظم کو سزا ہوگئی، زرداری صاحب کو خود معاملات کی تحقیقات کرنی چاہئے تھی۔ ANP کی کارکردگی بھی اچھی نہیں رہی ریلوے کو ANP کے وزیر نے اپنی نااہلی سے تباہ کیا۔ اے این پی کو تو الیکشن ہارنا ہی تھا وہ تو اس خلا میں الیکشن جیتے تھے جو ایم ایم اے کے الیکشن بائیکاٹ سے پیدا ہوا تھا اب جو خلا مذہبی جماعتوں کے عدم اتحاد سے پیدا ہوا اس میں پی ٹی آئی نے جگہ بنالی۔ ایم کیو ایم کی بڑی جیت کی ایک وجہ جماعت اسلامی کی کراچی میں ایم کیو ایم کی مخالفت بنی۔
تازہ ترین