• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوویڈ 19نے پورے عالمی معاشرے میں طاقتور طبقات خصوصاً مذہبی و نسلی جنون اور نام نہاد جدت پرستی میں مبتلا اہم ترین ممالک کے حکمرانوں، کارپوریٹ سیکٹر اور دوسرے طاقتور طبقات اور غمِ روزگاراں میں مبتلا عوام الناس کی مکروہ تقسیم کو مکمل بےنقاب کر دیا ہے۔ لاکھوں پر مشتمل غالب طاقتور آبادی کی ارباہا کی عالمی اکثریت پر حکومت و سرمائے کی سفاکانہ برتری نے خیر کی بےبسی کے تمام تر ثبوت اس عالمی وبا میں فراہم کر دیے ہیں۔ 2021کا سال گہری تشویش و خطرات کے ساتھ وارد ہوا ہے۔ عالمی امن و استحکام کے حوالے سے پنڈتوں کے بول شروع ہوئے سال میں دنیا بھر کے لئے تشویشناک واقعات کی بنتی کہانیوں کی تصویریں پیشگی دکھا رہے ہیں۔ انسدادِ وبا کی ویکسین کا تجسس اور جلد حصول کی جو بےچینی اور انتظار مسلسل پیدا ہوا یا کیا گیا، یہ مسیحائی بھی متنازعہ بنتی جا رہی ہے۔ ’’علاج برائے کنٹرول‘‘ کا شک اور دعوئوں سے بھی بھرا بیانیہ جس کا یقین عوام الناس کے ہی خدشات و شبہات تک محدود نہیں، بڑے بڑے معالج اور متعلقہ ماہرین کا ایک مکتب اسے نئے سال میں امڈنے والے نئے عالمی خطرے سے تعبیر کر رہا ہے۔ ہدف عالمی سماج کی اس اکثریت کی غلامی (مکمل کنٹرول) کو بتایا جا رہا ہے جو پہلے ہی شر کے تشویشناک غلبے سے بےبس و بےکس اور مکمل غیرمحفوظ ہو گئی ہے۔ شر کی عالمی قوتوں کا احساس برتری بھی شدت پکڑ رہا ہے۔ گویا کل عالمی معاشرہ نارمل نہیں رہا۔ جمہوریت، نسلی برتری اور مذہبی جنون اور باہمی گٹھ جوڑ میں گھر گئی ہے، جمہوری عمل سے بنی ’’عوامی طاقت‘‘ کا گرتا گراف تیز تر ہے۔ ترقی پذیر دنیا ہی نہیں امریکہ اور یورپ میں بھی معیار زندگی کو مسلسل بڑھانے کا عزم اور خواب دونوں ہی ٹوٹ پھوٹ رہے ہیں۔ کورونا کی بلا نے چند ہی ماہ میں عالمی سماج کی ترجیحات اموات سے زیادہ موت کے خوف سے تبدیل کر دیں۔ نجی جان و مال کے تحفظ کی اولین ترجیح سے بڑھ کر سماج کی بقا اور روزگار و کاروبار زندگی معمول پر ہی جاری و ساری رہنا اب عالمی سطح کا سب سے بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ عوامی سطح پر تو یہ احساس بھی شدت سے ہوا کہ انسانیت، تہذیبی ارتقا کی پٹری سے اتر کر ترقی کے نام پر فقط مادہ پرست کی اسیر ہو گئی، اب اسی کا دائرہ پھیلتا جا رہا ہے مسلمانانِ عالم کے لئے حج و عمرے کے صدیوں سے جاری و ساری مقدس عبادتی سلسلے میں تعطل ایک بڑا دھچکا تھا، تاہم مساجد بھی ویران ہوئیں تو گھروں چھتوں سے اذانیں آوازیں بلند ہونے لگیں، اللہ کی مدد کے ورد میں تیزی آئی پابندیاں نرم ہوئیں تو دنیا بھر میں ہر مذہب کی عبادت گاہیں معمول سے کہیں زیادہ آباد ہوئیں دنیا کے سب سے بڑے بین الاقوامی شہر نیویارک میں ایک امریکی جوان شہر کے سنسان و ویران ماحول میں تنہا اللہ کے حضور گڑ گڑا رہا تھا، چیخ چیخ کر دعا مانگ رہا تھا کہ ہم سب گمراہ ہو گئے، وہ چیخ چیخ کر گناہوں کی معافی اور لوگوں کو ہوش سنبھالنے کا پیغام دے رہا تھا۔ مندرجات سے لگ رہا تھا وہ خدا پر یقین رکھنے والا مسیح ہے لیکن ٹی وی پر شہر بھر میں اپنی آواز پہنچانے کی اس کی تڑپ واضح تھی۔ وہ اللہ سے معافی کی طلبی کے بعد اس کے بندوں سے مخاطب ہو کر انہیں سنبھلنے اور مذہب و انسانیت کی طرف لوٹنے کی بات گھروں میں بند ہر شخص تک پہنچانے کےلئے بےچین نظر آیا یوں لگ رہا تھا سرمائے سے پیدا کی گئی دنیاداری میں عالمی سماج کے ڈوبنے پر تو بہ تائب میں وہ سرمائے سے گمراہ ہوئے پورے عالمی معاشرے کی نمائندگی کر رہا ہے۔ تشویش سے لبریز عین ان ہی دنوں میں امریکی صدر کی عالمی وبا سے متعلق پریشان کن ابلاغی گولہ باری زوروں پر تھی ،جس سے دنیا بھر میں یہ بنتا زاویہ نگاہ (PERCEPTION)عام ہوا کہ وبا امریکہ، چین شروع ہوتی ٹریڈ وار کی پیداوار ہے۔ اسی اثنا میں ایشیا کو مکمل جنگ میں دھکیلنے کی تمام تر شیطانی وارداتیں ہوئیں۔ سخت نارواسفارتی وبا سے عرب اور مسلم دنیا مزید تقسیم ہوئی۔ صدر ٹرمپ بھارت یاترا پر گئے تو دوران قیام ہی شاہین باغ کے احتجاجیوں پر دہلی کو پُرامن رکھنے کا اہتمام کرتے کرتے مسلمانوں کے گھر اور دکانیں جلنے لگیں۔ لداخ کے متنازعہ علاقے کو سی پیک پر حملہ آور ہونے کی تیاریوں سے بےبندوق جو ’’سرجیکل وار‘‘ ہوئی اس میں بھارت متنازع علاقے کے بڑے سرحدی حصے سے تو محروم ہوا لیکن پورے ریجن کا ماحول تادم جنگی ہے۔ مشرق و سطیٰ سے لیکر ترکی و آذر بائیجان تک شدید جنگی ماحول بنتے بنتے جنگ بھی ہوئی اور نپے تلے اقتصادیات اور عسکری اہداف پر حملے بھی۔ عراق و شام تو پہلے ہی مکمل جنگ زدہ ہیں۔ افغانستان میں امن کوششیں اور محدود جنگ تادم ساتھ ساتھ جاری ہیں۔ سائوتھ چائنہ سی ایشو پر ملائیشیا سے جنوبی کوریا تک پورا خطہ کسی بھی وقت کوئی جنگ ہونے کی کیفیت میں مبتلا رہا کچھ کمی آئی تو امریکی انتخاب سے۔ جنوبی ایشیا میں مسئلہ کشمیر کی آئینی حیثیت کو ہڑپ کرنے کی دیدہ دلیری مودی کو آخری اور مرضی کا نتیجہ نہ دے سکی اور اب پاک بھارت سرحدیں پہلی مرتبہ اپنے اپنے جنگی حلیفوں کی مدد سے ہونے والی مکمل مشترکہ جنگی ماحول میں مبتلا ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی دھجیاں تو مودی کے ہٹلرانہ اقدام اور ڈیل آف سنچری جیسے امن دشمن اقدامات سے پہلے ہی اڑ گئیں اب فقط ڈبلیو ایچ او ہی اس کا اہم ترین ادارہ بن گیا ہے جس کی چھتری میں ایک ہی عالمی حکومت کے قیام کی دھمکی بذریعہ میڈیا و سوشل میڈیا ببانگ دہل دی گئی۔ گویا 2021ارباہا پر مشتمل عالمی آبادی کے لئے لاکھوں پر مشتمل حکومت و سرمائے کے گٹھ جوڑ سے ارباہا کی دنیا پر غلبے اور عالمی معاشرے پر کنٹرول اور اسے غلامی میں لانے کا چیلنج لاکر وارد ہوا ہے۔

تازہ ترین