• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہم میں سے زیادہ تر، خاص طور پر میں، ملک کی سیاسی صورت ِ حال کو سمجھنے میں غلطی کرگئے کیونکہ نہ تو عمران خان کا تبدیلی کانعرہ سونامی میں تبدیل ہوا اور نہ ہی ، جیسا کہ انتخابات سے پہلے سیاسی پنڈتوں کا خیال تھا، معلق پارلیمنٹ وجود میں آئی۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ روایتی دانشوری اور زمینی حقائق اکثر اوقات ایک دوسرے سے کنارہ کش رہتے ہیں۔ اب جبکہ تمام منظر سامنے ہے … زرداری صاحب کی کرم نوازی سے پی پی پی کا پنجاب سے تقریباً صفایا ہو چکا ہے، ق لیگ تحلیل ہو کر تاریخ کا حصہ بن چکی ہے جبکہ عمران خان کے تبدیلی کے نعرے نے وہ اثر نہیں دکھایا ہے جس کی توقع کی جارہی تھی۔ اس عالم میں نواز لیگ کا راستہ کون روک سکتا تھا ؟ اس نے پانچ دریاؤں کی سرزمین میں عملاً تمام پارٹیوں کو روند کر رکھ دیا۔ یہاں اسے ایک مرتبہ پھر بھاری بھرکم مینڈیٹ ملا ہے ، تاہم اس کا حجم 1997 میں ملنے والی حمایت سے قدرے کم ہے۔
اُس بھاری مینڈیٹ کی کچھ تکلیف دہ یادیں ذہن میں موجود ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اُس وقت چھ ماہ کے قلیل عرصے میں ہی بھاری مینڈیٹ کے سراب کو حقائق کی تمازت محسوس ہونا شروع ہو گئی تھی جبکہ زیادہ سے زیادہ طاقت حاصل کرنے کے لئے میاں صاحب کا وقت صدر ِ مملکت، چیف جسٹس اور آرمی چیف کے ساتھ غیر ضروری تناؤ کی نذر ہو گیا۔ جو وقت اُس جنگ و جدل سے بچ رہتا، وہ زیر ِ تعمیر موٹر وے کے معائنے میں گزر جاتا۔ تاہم یہ سب کچھ چل رہا تھا اور ہو سکتا تھا کہ سلسلہ چلتا رہتا اگر کارگل کا مسئلہ پیش نہ آتا۔ تاہم خوش قسمتی سے اب مزید کسی کارگل کی گنجائش نہیں ہے جبکہ دفاعی اداروں کی توجہ دشمن نمبر ایک، طالبان پر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جمہوری حکومت کی کامیابی کے لئے حالات سازگار ہیں، لیکن کارکردگی بہر حال ایک سوالیہ نشان رہے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا تاریخ خود کو دہراتی ہے یا نواز شریف ایک نئی تاریخ لکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
آج ایک نئی تاریخ لکھی جا سکتی ہے بشرط یہ کہ ماضی کے مسائل سر نہ اُٹھائیں اور قائم ہونے والی حکومت اس بات کا ادراک کرنے میں کامیاب ہو جائے کہ پاکستان کو درپیش سنگین مسائل کے ہوتے ہوئے اُن کو کھیل تماشوں میں وقت اور توانائی ضائع کرنے والی حماقتوں، جیسا کہ لیپ ٹاپ تقسیم کرنا،میٹرو بس سروس اور موٹر وے جیسے منصوبے بنانا، سے احتراز کرنا اور پاکستا ن کو نئی راہوں پر گامزن کرنا ہوگا۔ یہ سب اچھے کام ہیں لیکن صرف یہی نہیں، بلکہ کرنے کو کچھ اور ناگزیر کام بھی ہیں۔ اس وقت انتہا پسندی، توانائی کا بحران اور بیمار معیشت پاکستان کے سنگین ترین مسائل ہیں اور ان کے ہوتے ہوئے کسی اور طرف حکومت کا دھیان نہیں بٹنا چاہیے۔
مفادات کا ٹکراؤہمارے ہاں ایک دیرینہ مسئلہ ہے اور یہ بے حد پیچیدگی اختیار کر چکا ہے۔ اس ضمن میں ایک بات ذہن میں بٹھانے کی ہے کہ اگر آپ حکومت میں ہیں تو آپ اپنے کاروبار کو وسعت دیتے ہوئے فیکٹریوں کی تعداد نہیں بڑھا سکتے ہیں۔ نواز شریف خاندان پر ماضی میں یہ الزام بھی لگا تھا کہ جب وہ اقتدار میں تھے، اُنھوں نے نئی فیکٹریاں لگائیں ، تاہم اب ماضی کو دفن کر تے ہوئے مستقبل کی طرف دیکھنا چاہیے کہ آئندہ کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملے ، ورنہ افواہ سازی کے وصف میں اس عالم ِ فانی میں ہمارا کوئی ثانی نہیں ہے۔ کیا ہی بہتر ہو اگر شریف خاندان کے ذمے واجب الادا کوئی بنک قرضہ( ہو سکتا ہے کہ کوئی بیس سال پرانا کھاتہ نکل ہی آئے) ہے تو اسے پہلے ادا کر لیا جائے تاکہ ایک اچھی شروعات کی جا سکے ، کیو ں کہ اگر آپ اپنے ہم وطنوں سے ایمانداری اور حب الوطنی کا مطالبہ کر رہے ہیں تو پھر…”اول خویش…“ والے محاورے پر عمل کیجئے۔ تاہم اگر ہم اپنی سیاسی قدروں پر نگاہ ڈالیں تو ایسا ہونا ناممکنا ت میں سے لگتا ہے۔چنانچہ اس ضمن میں لب سیتے ہوئے دل میں خاموش دعا کا ورد جاری رہے کہ یہ معاملہ اب دبا رہے اور یہ کہ مزید قرض لینے کی نوبت نہ آئے۔ اسی طرح دعا ہے کہ اصغر خان کیس بھی طاق نسیاں میں ہی پڑا رہے کیونکہ ہماری فاضل عدالتیں بارہا یہ ثابت کر چکی ہیں کہ کچھ کیسز پر قانون تیزی سے حرکت میں آتا ہے جبکہ کچھ کو دیکھ کر اس پر سستی کا غلبہ طاری ہو جاتا ہے۔ یہ امتیاز کرنا صرف قانون کا ہی استحقاق ہے ، ہماشما کی اس میں دخل دینے کی مجال نہیں۔ تاہم اس وقت ان قباحتوں کو بھی فراموش کر دیں ورنہ تمام وقت ماضی کو درست کرنے میں ہی لگ جائے گا۔ اس وقت نواز شریف پہلے سے بدلے ہوئے لگ رہے ہیں۔ اس وقت وہ جتنے پر اعتماد اور بااختیار دکھائی دے رہے ہیں، بھٹو کے بعد سے کسی وزیر ِ اعظم کو اتنا پرا عتماد نہیں دیکھا۔ اس کے علاوہ آج اُن کو اتنی قوی اپوزیشن کا سامنا نہیں ہے جتنا بھٹو صاحب کو تھا۔ اب جبکہ نواز حکومت کو دفاعی اداروں، جو طالبان کے خطرے کا سامنا کر رہے ہیں، اپوزیشن اور عدلیہ (توقع ہے کہ اب سو موٹو نوٹس کم لئے جائیں گے) کی طرف سے کوئی دباؤ نہیں ہوگا ، کارکردگی نہ دکھانے کا کوئی جواز باقی نہیں ہو گا۔اگر وہ کارکردگی دکھاتے ہیں تو ان کے پاس موقع ہو گا کہ وہ ایک مستقل حکمران جماعت بن جائیں ، جیسا کہ ملائیشیا اور ترکی میں ہے۔ اگرایسا نہ ہوا تو پھر وقت ہاتھ سے نکل جائے گا اورشاید دوبارہ ایسا موقع نہ ملے۔
کیا کسی سیاسی رہنما کے لئے جسمانی طور پر لیڈر دکھائی دینا ضروری ہے؟ میرا خیال ہے کہ اس سے اثر پڑتا ہے۔ جسمانی ہیئت کے اعتبارسے بھٹوصاحب دیکھنے میں ذہین فطین نظر آتے تھے اور یہ شاید اُن کی والدہ کے ہندوآباؤاجداد کا اثر تھا ، یا شاید سر شاہنواز بھٹو کا، میں اس پر حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا ہے۔ بے نظیر بھٹو بھی جاذب نظر شخصیت کی مالک تھیں، لیکن وہ شکل و صورت کے اعتبار سے بھٹوخاندان سے مختلف تھیں۔ جب وہ 1986 میں وطن واپس آئیں تو لوگ اُن کی پر کشش شخصیت کے سحر میں کھوگئے۔ اس وقت دونوں شریف برادران، جن کو وقت نے عظیم رہنماؤں کی صف میں لا کھڑا کیا ہے، کو اُس فنکار کا بھی ممنون ہونا چاہئے جس نے بڑی مہارت سے اُن کے سر پر بال لگائے ہیں۔ ہٹلر کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اگر اس کا نام ایڈولف ہٹلر کی بجائے کچھ اور ہوتا یا اُس کے سر پر گھنے بال نہ ہوتے یا وہ سرے سے ”فارغ البال “ ہوتا تو کیا وہ پھر بھی ایسے ہی سخت گیرآمر ہوتا ؟ میرا خیال ہے کہ ایسا نہ ہوتا۔ بہرحال جہاں تک شریف برادران کے لندن سے مصنوعی بال لگوانے کا تعلق ہے تو نظر یہی آتاہے کہ اس عمل نے ان کا لہجہ اور طرز ِ عمل بدل دیا ہے۔
نواز شریف اور ان کے بھائی کو پاکستان کی تاریخ کا خوش قسمت ترین سیاست دان کہا جا سکتا ہے کیونکہ وہ جن حالات سے آگے آئے ہیں، وہاں بہت سے لوگ ناکامیوں سے ہمکنار ہو چکے ہیں۔ پہلے ان کی تربیت خفیہ اداروں، جنرل حمید گل کی رہنمائی میں ہوئی ، لیکن جب اُنھوں نے 1993 میں صدر غلام اسحاق کو چیلنج کیا، اُنھوں نے تبدیلی کی راہ اپنالی۔ تاہم ایک حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ خفیہ اداروں کی خواہش تھی کہ پی پی پی کو کم از کم پنجاب سے نکال دیا جائے ۔
یہ حکمت ِ عملی کافی کامیاب رہی ہے کیونکہ مرکز میں جس کی حکومت بنے، پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی گرفت مضبوط رہتی ہے۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ پنجاب پر ہمیشہ کے لئے ان کی حکومت طے ہو چکی ہے۔ اس تمام سفر میں ، تاہم نواز شریف نے خود کو کافی بدل لیا ہے اور اُنہیں اس بات کا کریڈٹ دینا پڑے گا۔ اب جب کہ اُن کی حکومت قائم ہونے جارہی ہے ، یہ دیکھا جاناہے کہ اب وہ انتہا پسندی سے کس طرح نمٹیں گے ؟اس وقت ، جبکہ ملک کو ایک مضبوط حکومت کی ضرورت ہے، ہم ان کے لئے دعا کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب رہیں اور اس ملک کو مسائل کے انبار سے نکالیں۔ یہ وقت بھاری بھرکم ضیافتیں اُڑانے کا نہیں ہے اور جو خوش قسمت نواز شریف کے ہاں لنچ کر چکے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ پر تکلف انواع و اقسام کے کھانوں ، جس میں بھنی ہوئی مچھلی ضرور ہوتی ہے، کے بعد کچھ کرنے کی تاب نہیں رہتی۔
پس ِ تحریر: مجھے پاکستان مسلم لیگ (ن) سے قومی اسمبلی کے ٹکٹ کا مطالبہ نہیں کرنا چاہئے تھا، لیکن میں نے کیا اور مسترد کر دیا گیا۔ اس کے بعد مجھے پارٹی کے حوالے سے تنقیدی مضامین نہیں لکھنے چاہئے تھے مگر میں نے لکھے۔ اس سے بد مزگی پیدا ہوئی ، کیونکہ کچھ افراد نے اسے ”انگور کھٹے ہیں“ کے مترادف سمجھا ، حالانکہ میں بطور صحافی نواز لیگ پر اُس وقت بھی تنقید کرتا تھا جب میں اس کی ٹکٹ پر ایم این اے تھا۔ تاہم جو بھی ہوا، مجھے اس پر افسوس ہے۔
تازہ ترین