• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ تین چار دہائیوں سے وطن عزیز میںکسی بھی مسئلے پر احتجاج کے لئے سڑکوں اور شاہراہوں کو بند کرنے کا کلچر بہت عام ہو گیا ہے اور اب تو یہ عالم ہے کہ جو بھی تنظیم سو دو سو افراد کو اکٹھا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے وہ اپنے مطالبات منوانے کے لئے سڑکیں بند کر کے دوسروں کے حقوق کو سلب کرنے کے لئے میدان میں اتر آتی ہے کچھ عرصہ پہلے تک صرف بھٹہ مزدور اور اس قسم کی دوسری تنظیمیں اس نوع کے ہتھکنڈے استعمال کرتی تھیں مگر اب ڈاکٹروں، انجینئروں اور دوسرے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی تنظیمیں بھی اس عمل میں شامل ہو گئی ہیں، کسی حادثے کی صورت میں بسوں کو جلا دینے اور احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں کو بند کرنے کا یہ طریقہ اب اس قدر مقبول ہو گیا ہے کہ کسی بھی سڑک پر سفر کرتے ہوئے یہ پتہ نہیں ہوتا کہ کونسی سڑک احتجاجی سیاست گروں نے بند کر رکھی ہے اور کونسی وہاں تک پہنچتے پہنچتے بند ہو جائے گی اس صورتحال میں مسافروں کو جس شدید اذیت سے گزرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ صرف وہی کر سکتا ہے جس کو اس کرب سے گزرنا پڑتا ہے۔ بسا اوقات تو ایسا ہوتا ہے کہ کئی مریض اسپتالوں میں پہنچنے سے پہلے ہی اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں لیکن حیرت ہے کہ ہماری انتظامیہ کراچی سے لے کر خیبر تک یہ سارا تماشا روز اپنی آنکھوں سے دیکھتی ہے مگر اسے روکتی نہیں، پی پی پی کے دور اول میں جب اس کلچر کی ابتدا ہوئی تھی تو ایک معروف شخصیت نے ذوالفقار علی بھٹو کو یہ مشورہ دیا تھا کہ اس جن کو بوتل سے نہ نکالیں کیونکہ اگر یہ ایک دفعہ باہر آ گیا تو پھر اس کا دوبارہ بوتل میں بند کرنا مشکل ہو گا۔ اب یہ معاملہ اس مقام تک پہنچ گیا ہے کہ اگر اس کا سدباب نہ کیا گیا تو یہ انارکی پورے ملک اور قوم کو تباہی کی طرف لے جائے گی۔ حکمرانوں کو اس طرف سنجیدگی سے توجہ دینا ہو گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ احتجاج کے لئے ہر شہر میں ہائیڈ پارک کی طرز کی کوئی جگہ مخصوص کر دی جائے اور سڑکیں بند کرنے کے چلن کو پوری قوت سے ختم کر دیا جائے۔
تازہ ترین