• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بڑے بڑے انکشافات ہورہے ہیں اور ایسے ایسے لوگ جو کل تک کوئی اور راگنی الاپ رہے تھے 11 مئی کے بعد نئے سُر اور سنگیت کے ساتھ میدان میں آگئے ہیں۔ میں زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤں گا مگر چند مثالیں دے کر کوشش کروں گا کہ لوگوں کو کچھ شرم اور ندامت کا اظہار کرنا چاہئے ۔ آجکل کے مادر پدر آزاد سوشل میڈیا میں کسی بھی حقیقت کو چھپانا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ سب سے پہلے ہمارے بہت پیارے اور ہر دلعزیز فخرو بھائی کو اب چاہئے کہ وہ گھر جائیں اور جو عزت باقی بچ گئی ہے اسے سنبھالیں ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ نہ دین کے رہیں نہ دنیا کے۔ انہوں نے یہ منصب لے کر ملک اور قوم پر بڑا احسان کیا تھا مگر آج ذرا صورتحال دیکھ لیں۔ ملک کی ہر بڑی اورچھوٹی سیاسی پارٹی، چاہے وہ الیکشن جیتے ہوں یا ہارے الزام لگا رہی ہے کہ کہیں نہ کہیں دھاندلی ضرور ہوئی ہے۔ ان پارٹیوں میں ن لیگ، پی پی پی، تحریک انصاف، مولانا فضل الرحمن کی جمعیت، جماعت اسلامی، متحدہ قومی موومنٹ، اے این پی، بلوچستان کی پارٹیاں، ق لیگ اور باقی تمام سب ہی کہہ رہی ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے۔نتیجہ یہ نکلا کہ ہر ایک الیکشن کمیشن کی کارکردگی سے خوش نہیں۔ اصلیت یہ ہے کہ فخرو بھائی نے کچھ کیا ہی نہیں۔ہر ایک کو اور ہر پارٹی کو اس کے حال پر چھوڑ دیا اور جو جتنا زور لگا کر اپنا حصہ چھین سکتا تھا وہ چھین کرلے گیا۔ فخرو بھائی دیکھتے ہی رہ گئے یا سوتے رہ گئے۔ ان کے نیچے جو ممبر بنائے گئے تھے وہ سب سیاسی تھے اور خاموشی سے فخرو بھائی کی چھتری تلے اپنا کام کرتے رہے، تاکہ نہ میڈیا میں ان کا نام اور تصویر آئے اور نہ کوئی اُن پر انگلی اٹھا سکے۔ یہ ساری ا سکیم زرداری صاحب نے سوچ سمجھ کر بنائی تھی۔ مگر افسوس کہ ان کے کام نہ آئی مگر جو وہ چاہتے تھے یعنی سندھ میں کنٹرول وہ تو انہیں مل گیا اب وہ نواز شریف کی ایمانداری اور شرافت پر انحصار کریں گے کیونکہ فیصلہ تو بہت پہلے ہی ہوگیا تھا کہ پہلی بازی زرداری اور پھر میاں صاحب کی باری۔ جس طرح پی پی پی نے میدان چھوڑ دیا وہ تو ظاہر کرتا ہے کہ میاں صاحب کی باری کیلئے انتظام کیا گیا۔ درمیان میں ایک کھلاڑی اور قوم کے نوجوان اور سوشل میڈیا آگیا اور زرداری صاحب کو سیاست سے ہاتھ دھونے کی نوبت آگئی۔ اب اگر میاں صاحب نے زرداری کو کھلی چھٹی دے دی اور وہ اپنا لوٹا ہوا مال و متاع لے کر ملک سے چلے گئے تو ثابت ہوجائے گا کہ مک مکا ہی تھااور باری باری کا کھیل جاری ہے۔ اب آتے ہیں دوسرے بے شرم لوگوں کے بے شرمیوں پر کیا ہٹ دھرمی ہے کہ کل تک جو لوگ زرداری اور ان کے ٹولے کو ملک اور قوم کا سب سے بڑا اور عظیم سیاستدان لکھ رہے تھے وہ اچانک میاں صاحب کے گُن گانے شروع ہو گئے ہیں۔ بڑے بڑے جغادری لکھاری جن کے محلوں کے سامنے سسرال سے آئی ہوئی مرسیڈیز گاڑیاں کھڑی رہتی ہیں اور جو زرداری کے خلاف ایک لفظ لکھنے والے ہر صحافی پر لاکھ لاکھ لعنتیں بھیجتے تھے اچانک ان کی ساری خرابیاں گنوانے لگے ہیں۔ کئی ناگ اور سپیرے، پاجی اور بھاہ جی اپنی بین لے کر پھر نکل آئے ہیں اور اب دوسرے جیتنے والوں کے سامنے رقص شروع کردیا ہے۔ کئی تو ایسے بے شرم ہیں کہ خود اور اپنے بھائی، بہنوں کو زرداری صاحب سے اسمبلی کی نشست اور کابینہ میں وزارتیں دلوائیں اور خاموش راتوں کے کئے۔ ہر ایوان صدارت میں کروڑوں اور اربوں کے سودے کرواتے رہے اور اب میاں صاحب کے کیمپ میں چھلانگ لگا کر آدھمکے ہیں۔ تعریفوں کے وہ پُل باندھ رہے ہیں کہ شرم کو بھی شرم آجائے۔ ایسے ناگ ہر ایک کو ڈسنے کے لئے تیار رہتے ہیں اور اب میاں صاحب کی باری ہے کیا ہی اچھا ہو کہ خود زرداری صاحب ان لوگوں کے کردار لوگوں کے سامنے کھول کر بتائیں کہ کتنے بھارت سے امن کے گیت گاتے اور کون کون زرداری صاحب کے دشمنوں کے سر کچلنے کیلئے ان سے کتنے کروڑ اور ارب وصول کرگئے اور اب دوسرے کیمپ میں جا گھسے۔ سانپ پالنے کا یہی نتیجہ ہوتا ہے جب وقت آئے تو پہلے مالک کو ہی ڈسے گا۔
ان میڈیا کے بھگوڑوں اور لوٹوں کی بات چھوڑیں خود پی پی پی کے اندر کتنے بے ضمیر ہیں جو کسی شرم و غیرت کے بغیر لوگوں کو الّو بنانے سے باز نہیں آتے۔ بہت ہی باعزت نام اعتزاز احسن کا ہے۔ کیا عروج تھا کہ پوری قوم نے ان کو سر پر بٹھایا ہوا تھا۔ وہ چیف جسٹس کے ڈرائیور ہیں نہیں تھے۔ سیاسی مشیر اور وکیل بھی تھے۔ انہوں نے پارٹی کا ٹکٹ نہیں لیا اور کئی کروڑوں کے کیس لینے سے انکار کیا۔ کیا عروج تھا اور پھر کیسا زوال، دکھ ہوتا ہے کہ یہ ہمارے سب سے پڑھے لکھے اور سیاسی صف اول کے لوگوں کا حال ہے۔ نہ صرف خود ایک سینیٹ کی سیٹ لی، بیگم کو ایک کرکٹ کی جعلی پوزیشن پر لگوایا اور پھر بیگم ہی کو ٹکٹ دلوا کر ذلیل کروایا۔ اب لوگوں کو بے وقوف بنا رہے ہیں کہ میں استعفٰی دینے کو تیار ہوں اگر پارٹی کہے۔ کیا پارٹی پاگل ہے کہ انہیں سینیٹ کی سیٹ سے ہٹا کر ن لیگ کو وہ سیٹ دے دے کہ الو بنانے کا خیال تھا چاہئے تو یہ تھا کہ باعزت طریقے سے سب سیاسی عہدوں اور غیر سیاسی نوکریاں اور CNG کے ٹھیکوں اور کوٹے کو واپس کرکے اپنے وکالت کے پیشے سے کروڑوں کماتے عزت بھی ہوتی اور غلطیوں کا ازالہ بھی۔ مگر اتنی ہمت کہاں آخر یہ وہی اعتزاز صاحب ہیں جو بے نظیر اور زرداری کو ہر کرپشن کے کیس میں بچانے کی کوشش کرتے تھے اور نجی محفلوں میں کئی دفعہ خود میرے سامنے دونوں کو کہتے تھے کہ دونوں کرپٹ ہیں۔ میں تویہ بیان حلفیہ دینے کو تیار ہوں اور کئی دوسرے دوستوں کے نام بھی میں دوں گا جن کے سامنے یہ کہا وہ چاہے مُکر جائیں مگر سچ بولنا ہر ایک کیلئے مشکل ہوتا ہے۔ جہاں ذاتی مفاد آجائے۔ اس الیکشن نے اعتزاز احسن کو ان کے کئے کی سزا دے دی ہے اب انہیں چاہئے وہ چوروں اور ڈاکوؤں کی وکالت کرنا چھوڑدیں۔
میاں نوازشریف صاحب کا بھی امتحان شروع ہوگیا ہے کیونکہ اب انہیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ پانچ سال جو انہوں نے زرداری کی حکومت کی لوٹ مار پر پردہ ڈال کر ان کو بچائے رکھا وہ مک مکا کا پلان نہیں تھا اور پہلے میری پھر تیری باری کی سازش نہیں تھی۔ جس طرح الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کی کرسی کو کمزور کیا گیا اور پھر اپنے پسند کے ممبر لگائے گئے اور اب جو نتیجے سامنے آرہے ہیں اس سارے کھیل میں ملی بھگت نظر آرہی ہے۔ میاں صاحب کو یہ دکھانا ہوگا کہ نہ صرف ان کی حکومت بدعنوان نہیں ہوگی بلکہ جو لوٹ مار ملک کے ساتھ ہوچکی ہے وہ بھی پکڑنی ہوگی۔ سو سب سے پہلے نئی حکومت کو FIA - WAB اور دوسرے احتساب کے اداروں میں ایسے لوگوں کو لگانا ہوگا جن کا ماضی داغدار نہ ہو اور جو کسی کو بچانے کے لئے کام نہ کریں بلکہ چوروں کو گھر تک پہنچا کرآئیں۔ایک لمبی لسٹ ہے جو میاں صاحب کے پاس ہونی چاہئے جس پر فوری عمل کرتے ہوئے ان لوگوں کو ECL پر فوری طور پر ڈالنا ہوگا تاکہ چور بھاگنے نہ پائیں۔ ایک باعزت اور نیک شہرت والا اٹارنی جنرل فوری طور پر لگانا ہوگا تاکہ عدالتوں میں حقائق توڑمروڑ کر نہ پیش کئے جائیں۔ اور آخر میں اپنے میڈیا کے دوستوں اور بھائیوں سے گزارش کہ اگر انہوں نے چوروں اور لیٹروں کا ساتھ دیا ہے تو اب بس کردیں انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا گھر واپس لوٹ آئیں۔
تازہ ترین