• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیاست دانوں کی بدعنوانی اور غیر فعالیت فوج کی سسٹم میں مداخلت کی ایک وضاحت ہوسکتی ہے ، جواز نہیں۔ پاناما لیکس، جو ظاہر کرتی ہیں وزیر ِ اعظم اور اُن کے قریبی اہل ِ خانہ اس مالیاتی اسکینڈل میں براہ ِ راست ملوث ہیں، کے پس ِ منظر میں آرمی چیف نے بدعنوانی کے خلاف ایک بیان جاری کیا۔ اس سے قطع نظر کہ کیا دہشت گردی کو کچلنے اور بدعنوانی کے خاتمے کے درمیان کوئی تعلق بنتا ہے، آرمی چیف نے بے لاگ احتساب کے عمل میں اپنے ادارے کی رضاکارانہ حمایت کا اعلان بھی کیا۔ اس بیان کی ٹائمنگ اور حاصل ہونے والی عوامی مقبولیت سے تاثر ملتا ہے کہ سول ملٹری عدم توازن مزید وسیع ہوچکا ہے ۔
تاہم اگر، جیسا کہ ناقدین کاکہنا ہے ، آرمی چیف کو آئی ایس پی آر کے ذریعے ایسا بیان جاری نہیں کرنا چاہئے تھا، تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وزیر ِ اعظم درست ہیں اور پاناما پر اُن کی حمایت کی جانی چاہئے ۔ بھاری اکثریت سے منتخب ہونے والے حکمرانوں کے خلاف قابل ِ اعتماد تحقیقات اور استغاثہ کے مسائل ایک طرف، وزیر ِ اعظم کی کہانی کی کوئی وضاحت دکھائی نہیں دیتی۔ پارک لین اپارٹمنٹس کم و بیش دوعشروںسے اُن کے اہل ِ خانہ کے زیر ِاستعمال ہیں۔ 2000ء میں نواز شریف کا ایک بیان ریکارڈ پر ہے کہ یہ اُنھوں نے کرائے پر حاصل کئے ، لیکن اس سوال پر ، کہ جن اپارٹمنٹس میں وہ رہائش پذیر ہیںوہ کس کی ملکیت میں ہیں ، اُن کی وضاحت ایسی تھی کہ ایک واجبی عقل رکھنے والا ناخواندہ شخص بھی سمجھ آجائے کہ دال میں ضرور کچھ نہ کچھ کالا ہے ۔
آج بھی یہ اپارٹمنٹس اُنہی سمندر پار کمپنیوں کی ملکیت میں ہیں جن کی ملکیت میں 2000ء میں تھے۔ پاناما لیکس سے ایک ماہ قبل وزیر ِ اعظم کے بیٹے حسین نواز نے رضاکارانہ طور پر اعتراف کیا تھا کہ یہ اپارٹمنٹس2006ء سے سمندر پار کمپنیوں کے ذریعے نواز شریف صاحب کے بچوں کی ملکیت ہیں۔ اگر اُن کی بات پر یقین کرلیا جائے تو اس کی منطقی وضاحت یہ سامنے آتی ہے کہ شریف خاندان واقعی ان اپارٹمنٹس میں ایک عرصے تک بطور کرایہ دار رہا ،لیکن وہ جائیداد اتنی پسند آگئی کہ اُنھوں نے اسے خریدنے کا فیصلہ کر لیا۔ جہاں تک اُس مہنگی جائیداد کی خرید کے لئے رقم کا تعلق ہے تو سعودی عرب میں جلاو طنی کے دور ان اُن کے ہاتھ کہیںسے سونا لگ گیا ، اُسے فروخت کیا اور اگلے ہی دن سمندر پار کمپنیوں کے ذریعے وہ اپارٹمنٹس خرید لئے ۔
یہ معاملہ تو سیدھا سادہ اور دوٹوک ہے ، اس میں چھپانے کو کچھ بھی نہیں، تو پھروہ اس کی تفصیل منظر ِعام پرکیوں نہیں لاتے ؟وہ سمندر پار کمپنیاں شریف فیملی سے پہلے بھی کسی کی ملکیت ہوں گی اور جب وہ کرایہ ادا کررہے تھے تو وہ کمپنی اُن کی لینڈ لارڈ تھی۔ اس کے بعد سابق مالک سے یہ جائیداد خریدنے کا بھی ان کے پاس معاہدہ ہوگا اور اس پر یقینا تاریخ بھی درج ہوگی۔ وہ اس معاہدے کو ناقدین کے منہ پر کیوں نہیں مارتے کیونکہ اُن دستاویزات میں قانونی طریقے سے، جیسا کہ وزیر ِا عظم کے بیٹے کا دعویٰ ہے ( ہمارے پاس اُن پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں)،سعودی عرب سے پاناما اور پھر وہاںسے لندن رقم منتقل کئے جانے کی تفصیل درج ہوگی؟
عوامی نمائندے اپنی پرائیویسی کا جواز پیش کرنے کا حق نہیں رکھتے ۔ موجودہ وزیر ِاعظم 1980کی دہائی سے عوام کی نمائندگی کررہے ہیں۔ اس طویل عرصے میں اکثر اوقات اُن پر اقتدار کی دیوی مہربان بھی رہی۔ اب اُن پر الزام لگایا جارہا ہے کہ اُنھوںنے مبینہ طور پر اپنی اتھارٹی( جو اُن کے پاس عوام کی امانت تھی) کو استعمال کرتے ہوئے کالا دھن سمندر پار منتقل کیا ۔ اس ضمن میں پاناما لیکس کو ثبوت کے لئے طور پر پیش کیا جارہا ہے ۔ اگرچہ عام شہری یہ دعویٰ کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ فلاں اثاثے اُس کا بزنس ہیں لیکن عوامی نمائندے ایسا نہیں کرسکتے۔ اگروہ ان کی تفصیل ظاہر کئے بغیر عام شہریوں کے لئے مروج اصول’’جرم ثابت ہونے تک بے قصور ‘‘ کی ڈھال استعمال کریںتو ہر کوئی اس کا منفی نتیجہ ہی نکالے گا۔ اپوزیشن لیڈر، سول سوسائٹی، میڈیا اور شہری، سب وزیر ِا عظم سے پاناما اکائونٹس پر سوال کرنے کا حق رکھتے ہیں، لیکن آرمی چیف نہیں۔جنرل راحیل شریف کی طرف سے بدعنوانی کا دہشت گردی سے تعلق جوڑنے سے پہلے بھی عوامی سطح پراتفاق ِ رائے پایا جاتاتھا کہ پاناما لیکس کی تحقیقات ہونی چاہئیں اور قصور واروں کو سز ا ملنی چاہئے ،لیکن جیسے ہی آرمی چیف نے اپنا وزن اس پلڑے میں ڈالا، بہت سے ناقدین نے شور مچانا شروع کردیا کہ پاکستان کو اس کے علاوہ بھی بہت سے مسائل کا سامنا ہے ۔ بہت سوں کو یاد آیاگیا کہ ناقص سیکورٹی پالیسی کی وجہ سے ملک پچاس ہزا ر سے زائد جانیں گنوا چکا ہے ۔ یہ بھی بیانیہ سامنے آیا کہ احتساب کے نام پر صرف سیاست دانوں کو دیوار کے ساتھ لگایا جاتا ہے ،اور سول ملٹری عدم توازن پر بھی بات ہونے لگی۔
آرمی چیف کی طرف سے دہشت گردی کابدعنوانی کے ساتھ تعلق جوڑنا پریشان کن ہے ۔ یہ دونوں مسائل ہیں لیکن ان کی نوعیت بہت مختلف ہے ۔ بدعنوانی نہ تو دہشت گردی کی بنیاد ہے کہ اس سے ارتقا پاتے ہوئے دہشت گردی ریاست کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیتی ہے ، اور نہ ہی یہ اس کے خاتمے کی راہ میں بنیادی رکاوٹ ہے ۔ یہ ریاست ہے جس نے ابھی تک نام نہاد نظریاتی گروہوں سے بعض نامعلوم وجوہ کی بنیاد پر جان نہیں چھڑائی۔ یہ ریاست ہے جس نے ابھی تک اُس انتہاپسندی کا تدارک نہیں کیا جو دہشت گردی کی جڑہے ۔ اور کہنے کی اجازت دیجیے کہ ریاست کے اس حصے ، جس کا تعلق نظریات سے ہے ، پردفاعی اداروں کی اجارہ داری ہے ۔ چنانچہ جب آرمی چیف دہشت گردی کے خلاف جنگ کو بدعنوانی کے ساتھ جوڑتے ہیں توملک میں پریشانی کی لہر دوڑ جانا فطری بات ہے ۔ ضرب ِ عضب کی کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے کیا ہمیں یہ بتایا جارہا ہے کہ فوج نے دہشت گردی کے خلاف آپریشن منطقی انجام تک پہنچا دیا ، اب بدعنوان سیاست دانوں کی باری ہے ؟یا کہنے کا یہ مقصد ہے کہ چونکہ قومی سلامتی فوج کے دائرہ کار میں آتی ہے ، اور چونکہ دہشت گردی کا بدعنوانی کے ساتھ پراسرار تعلق بنتا ہے ، اس لئے اب بدعنوانی سے بھی خاکی وردی پوش ہی نمٹیں گے؟جو بھی وجہ ہو ، یا تو تعلق جوڑنے میں جلدبازی سے، یا پھر جان بوجھ کر فکری مغالطے سے کام لیا گیا۔
اس سے پہلے ہم نے دیکھا کہ کراچی میں رینجرز نے بدعنوانی پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی، بہت سے چھاپے مارےگئے اور ہمیں بتایا گیا کہ ڈاکٹر عاصم حسین بھی دہشت گردوں کے سہولت کار رہے ہیں۔ ثبوت کے طور پر کہا گیا کہ اُن کے اسپتال میں مشتبہ دہشت گردوں کا علاج ہوتا رہا ہے ۔دراصل بات یہ نہیں ہے کہ خاکی وردی پوشوں کو بدعنوانی کے معاملے کو اپنے ہاتھ میں نہیں لینا چاہئے کہ اس کا (بدعنوانی) کوئی نقصان نہیں، بلکہ اس لئے کہ یہ ایک ایسی دلدل ہے جس سے نمٹنا نہ صرف فوج کے دائرہ کار سے باہر ہے اوراس کے پاس ا س کی مہارت بھی نہیں، بلکہ اس لئے بھی کہ اس کی وجہ سے فوج کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں توجہ بٹ جائے گی۔
اس کے علاوہ آرمی چیف کے بیان کی ٹائمنگ بھی اہمیت کی حامل ہے ۔ جب اُن کے ریٹائر ہونے میں صرف سات ماہ باقی رہ گئے ہیں تو اُنہیں احتساب کے عمل کو آگے بڑھانے کا خیال کیوں آیا۔ اس کی تین وضاحتیں دی جاسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ایک محب ِوطن ہونے کے ناتے پاکستان کو درپیش تمام مسائل سے نمٹنا چاہتے ہیں۔ یہ ہر پاکستانی کی خواہش ہے ، لیکن وہ ایک عام شہری نہیں ہیں، بلکہ ریاست کے سب سے طاقتور ادارے کی قیادت کررہے ہیں، وہ ادارہ جس نے اس ملک کے قیام سے لے کر اب تک کی کم و بیش نصف مدت تک حکومت کی اور سویلین حکومت کے دوران بھی سیاست دانوں کو پس ِ پردہ کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔ چونکہ فوج سوچ سمجھ کر بیان دیتی ہے ، اور پھر یہ بیان بھی باقاعدہ ریلیز کی صورت سامنے آیا، تو یہاں آرمی چیف کے استدلال پر سوال اٹھے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ خاکی وردی پوش حکومت کوپریشان رکھنا چاہتے ہیں۔ اس وقت سیاسی درجہ حرارت پہلے ہی بلند ہے تو 90کی دہائی کے آثار نمایاں ہوتے دکھائی دیتےہیں۔ وزیر اعظم کو تین طریقوں سے گھر بھیجا جاسکتا ہے ،پاناما لیکس پر آئس لینڈ کی طرز پر ہونے والےوسیع عوامی احتجاج کے ذریعے، شفاف تحقیقات سے وزیر ِاعظم کی غلط کاری کا ثبوت اوچاہئےر عدالت کی طرف سے اُن کی چھٹی، یا پھر تیسرا طریقہ دھرنا جسے واقعی کسی امپائر کا تعاون حاصل ہو۔تیسری بات یہ کہ جنرل راحیل شریف کے کوئی سیاسی عزائم نہیں ہیں، لیکن وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر فوج کی بطور ادارہ مزید ساکھ بلند کرنا چاہتے ہیں، کہ یہ قوم کے لئے انتہائی اہم کردار ادا کررہی ہے ۔
تاہم آرمی چیف سے توقع کی جانی چاہئے کہ وہ پاکستان کے بہترین مفاد کو ذہن میں رکھیں گے ۔ لیکن ’’ہم ‘‘ بالمقابل ’’وہ‘‘ نے پاکستان کا بھلا نہیں کیا ہے ۔ پاکستان کی بقا، ترقی اور خوشحالی کے لئے تمام ریاستی اداروں کو اپنے اپنے فرائض سرانجام دینے چاہئیں۔ ایک ادارہ ، چاہے وہ کتنا ہی طاقتور اور منظم کیوں نہ ہو، پوری ریاست کو نہیں چلا سکتا۔ یہ بات تسلیم کی جانی چاہئے کہ بدعنوان فوجی افسران کو برطرف کرتے ہوئے آرمی چیف نے اہم پیش رفت کی ہے ۔ اب گیند سویلین کے کورٹ میں ہے کہ وہ اپنا احتساب کس طرح کرتے ہیں۔
تازہ ترین