• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کے اخبارات میں مولانافضل الرحمن اور میاں شہباز شریف کی ایک ”نادر“ تصویر شائع ہوئی ہے جس میں مولانا نے شہباز صاحب کو جھپا ڈالا ہوا ہے، یہ وہ جھپا ہے جسے ”جن جھپا“ کہا جاتا ہے۔ تصویر میں دونوں رہنما کھل کر ہنس رہے ہیں، اس تصویر کو میں نے ”نادر“ اس لئے قرار دیا ہے کہ پاکستانی عوام خواہ تصویر ہی میں سہی شہباز شریف صاحب کو پہلی دفعہ ہنستے دیکھ رہے ہیں۔ تاہم مجھے مولانا کے ہنسنے کی وجہ تو سمجھ میں آرہی ہے مگر میاں صاحب کی ہنسی میری سمجھ میں نہیں آئی۔ میرے نزدیک مولانا سیاست کے سب سے بڑے کھلاڑی ہیں، ان کا ہنسنا رونا، اٹھنا بیٹھنا، روٹھنا، من جانا سب ان کی سیاست کے تابع ہوتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے مولانا کی اس پیشکش پر تو معذرت کرلی کہ یہ دونوں جماعتیں مل کر کے پی کے میں حکومت بنائیں کہ مسلم لیگ عمران خان کی جماعت کو ملنے والے مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہتی ہے، تاہم شہباز صاحب اپنی جماعت کی طرف سے مولانا کے پاس یہ پیغام لے کر گئے کہ وہ مرکز میں ان کی حکومت میں شامل ہوں جس پر فرط مسرت سے مولانا کھلکھلا اٹھے مگر فرمایا کہ وہ مشاورت کے بعد اس ضمن میں کچھ کہیں گے۔ مولانا کی سیاسی سوجھ بوجھ کے آگے کس کی مجال ہے دم مارے، یہ بات انہوں نے ازراہ انکسار فرمائی ہے کہ وہ مشاورت کے بعد جواب دیں گے جبکہ یہاں بھی یہ محاورہ اٹل ہے کہ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں ہوتا ہے۔
اور اب اگر آپ میری رائے پوچھیں (یا نہ پوچھیں) تو وہ یہ ہے کہ مسلم لیگ نے قوم کی طرف سے دیئے گئے کیک کے حصے بخرے کرنے کی ابتداء کردی ہے، حالانکہ میاں نوازشریف صاحب نے انتخابات کے نتائج سامنے آنے سے پہلے اپنی تقریر میں قوم سے کہا تھا کہ وہ اسے اکثریت سے کامیاب کرائیں تاکہ عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل میں کوئی مصلحت اور کوئی ”مفاہمت“ رکارٹ نہ بن سکے۔ ”مفاہمت“ کی پالیسی زرداری صاحب کا وہ تحفہ ہے جس نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا کہ ان کی اتحادی جماعتیں ان کی گردن پر ”گوڈا“ رکھ کر اپنی ہر بات منوا لیتی تھیں، جس کا نتیجہ یہ نکالا کہ خود پیپلز پارٹی اور ان کی اتحادی جماعتوں نے کرپشن ”مفاہمت“ کی انتہا کردی اور یوں ملک کی بنیادیں ہلا دیں۔ میاں نوازشریف ہمیشہ یہ کہتے رہے ہیں کہ وہ اقتدار کی نہیں اقدار کی سیاست کے علمبردار ہیں۔ سو اگر انہیں یقین ہے کہ ان کی ”اتحادی“ سیاست سے ان کی ”اقداری“ سیاست پر کوئی حرف نہیں آئے گا تو بسم اللہ خواہ اس راستے پر مزید آگے بڑھیں اور مجھے لگتا ہے ایسے ہی ہوگا۔ مگر یاد رکھیں جس طرح قرآن مجید میں شراب کے ذکر میں کہا گیا ہے کہ اس کے فائدے کم اور نقصان زیادہ ہیں، سو اس سے اجتناب کرو تو یہ ”مفاہمتی“ سیاست بھی شراب سے ملتی جلتی چیز ہے جس کے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہیں، سیاست دان مجھ سے کہیں بہتر فائدے اور نقصان کی شرح سے واقف ہیں۔ لہٰذا مسلم لیگ نے اگر یہ فیصلہ کیا ہے تو اس کی شرح دیکھ کر ہی کیا ہوگا۔
آج کے اخبار میں ایک اور خبر بھی شائع ہوئی ہے جس کے مطابق نوازشریف کو متفقہ وزیراعظم بنانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں اور بڑی سیاسی جماعتیں اس پر آمادہ ہیں۔ خبر کے مطابق سیاسی قائدین نے ازخود اس موقف کا اظہار کیا ہے کہ وہ نوازشریف کو متفقہ قائد ایوان بنانا چاہتے ہیں۔ ن لیگ کے ذرائع کے مطابق پی پی پی، تحریک انصاف، جمعیت علماء اسلام، جماعت اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی سمیت مختلف جماعتوں کے ذمہ داران بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر اس امر کی یقین دہانی کرا رہے ہیں، اگر یہ خبر صحیح ہے تو میرے نزدیک بہت خوش آئند ہے لیکن میں اس پر فی الحال یقین نہیں کررہا۔ ہماری سیاسی جماعتیں کوئی کام ”فی سبیل اللہ“ نہیں کرتیں، وہ اللہ سے پہلے اس کا اجر بندوں سے مانگتی ہیں، تاہم ا گر نوازشریف کو متفقہ طور پر وزیراعظم بنایا جاتا ہے تو باہر کی دنیا کو بہت موثر اور مثبت پیغام جائے گا اور ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے لئے جو پالیسیاں وہ بنا ئیں گے ان پر پوری قوم کی مہر تصدیق ثبت ہوگی۔
میں نے یہ بات کبھی نہیں چھپائی کہ میں مسلم لیگ (ن) کے لئے دل میں نرم گوشہ رکھتا ہوں کہ مجھے پاکستان سے عشق ہے اور میرے نزدیک یہ وہ جماعت ہے جسے موقع دیا جائے تو یہ دوسروں سے کہیں بہتر طور پر پاکستان کی خدمت کرسکتی ہے، اسے اقتدار دو دو سال کی قسطوں میں دیا جاتا رہا ہے جس سے ان کے بہترین منصوبے درمیان میں ہی دم توڑ دیتے تھے، اس کے باوجود ریکارڈ گواہ ہے کہ انہوں نے مختلف شعبوں میں شاندار کارکردگی دکھائی … اس بار پنجاب میں ان کو خدمت کا موقع ملا اور یہ بات ان کے حریف بھی مانتے ہیں کہ ان کی کارکردگی پاکستان کے باقی صوبوں سے بہت بہتر رہی، مگر یاد رکھیں پنجاب اسمبلی کے حالیہ انتخابات میں اگرچہ مسلم لیگ (ن) کو دو سو سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی مگر اس کے باوجود خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے، مسلم لیگ کی حریف جماعتوں اور آزاد امیدواروں نے بہت معیاری تعداد میں ووٹ حاصل کئے ہیں۔ خود تحریک انصاف نے ثابت کردیا ہے کہ وہ اب ”بڑی“ ہوگئی ہے، ”بالغ“ نہیں ہوئی۔ چنانچہ جواز تلاش کرنے کی بجائے اب مسلم لیگ (ن) کو اپنی ان کوتاہیوں اور خامیوں کا جائزہ لینا پڑے گا جس کا نتیجہ اس نئے چیلنج کی صورت میں سامنے آیا ہے، یاد رکھیں کارکردگی کے علاوہ اور بھی بہت سے امور ہوتے ہیں جنہیں دھیان میں رکھنا پڑتا ہے، کارکنوں کے چھوٹے چھوٹے مسائل حل کرنا پڑتے ہیں، میڈیاپرسنز کو OFFEND نہیں کیا جاتا۔ جونیئر افسروں سے سینئر افسروں کی جواب طلبی نہیں کرائی جاتی۔ ان کے ہاتھوں عوامی نمائندوں کی تذلیل نہیں کرائی جاتی۔ یہ لوگ اتنے فرعون بن جاتے ہیں کہ اہم سے اہم شخصیت کا فون سننا ہی گوارا نہیں کرتے۔ میرٹ کی پایسی بہت اچھی ہے مگر میرٹ SELECTIVE نہیں ہونا چاہئے۔ مسلم لیگ (ن) کو چاہئے کہ وہ حکومت سازی کے دوران ایسے سینئر بیورو کریٹس کو مناصب پر فائز کرے جو سینئر ہوں، بالغ نظر ہوں، جن کا کوئی وژن ہو، دیانتدار ہوں اور مخلص ہوں، میں نے آج ہی اخبار میں پڑھا ہے کہ ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر جاوید لغاری کو تبدیل کیا جارہا ہے، حالانکہ اعلی تعلیم کے فروغ کے لئے شب و روز کوشاں اس اسکالر نے پی پی کے دور حکومت میں حکومتی دباؤ کی پرواہ کیے بغیر اپنے فرائض انجام دیئے جس کے نتیجے میں انہیں اس کا خمیازہ بھی مختلف صورتوں میں بھگتنا پڑا۔ ان دنوں بہت سے دولے شاہ کے چوہوں نے اپنے داندان آز تیز کرنا شروع کردیئے ہیں، خدا کے لئے اس بار ان لوگوں کو قریب نہ پھٹکنے دیں جو آپ کو عوام سے دور لے جاتے ہیں۔ ایک اور ضروری بات عوام کو پہلی فرصت میں قبضہ گروپوں، تھانیداروں، رسہ گیروں، ذخیرہ اندوزوں، منافع خوروں، مختلف شعبوں کے جعلسازوں، دو نمبری ڈاکٹروں، حکیموں، جن نکالنے والوں اور دوسرے لٹیروں سے نجات دلائی جائے۔
اور آخر میں ایک بار مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے عرض کروں گا کہ مفاہمی پالیسی بہت اچھی چیز ہے اس کے ذریعے تصادم سے بچتے ہوئے ملک و قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے، قوم میں اتحاد اور یگانگت پیدا کی جاسکتی ہے، مگر یہ مفاہمت اقدار کے تحفظ کے لئے ہونا چاہئے جبکہ پی پی پی کی حکومت ہماری یہ تمام اقدار کو تباہ و برباد کرنے کا باعث بنی ہے۔ پاکستانی قوم میاں نوازشریف کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہی ہے۔ انہیں یقین ہے کہ ان کا یہ ناخدا قوم کی ڈوبتی کشتی کو منجدھار سے نکالنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ میں خود بھی انہی پرامید لوگوں میں سے ہوں مگر میاں صاحب معاف کیجئے مجھے آپ کا اٹھایا گیا یہ پہلا قدم اچھا نہیں لگا۔
تازہ ترین