سوفیصد ہڈ حرامی یعنی ناغہ مارنے کا موڈ تھا۔ بستر پر نیم دراز اخبارات پڑھتے پڑھتے اچانک چیف جسٹس سپریم کورٹ عزت مآب افتخار چوہدری کے مختصر سے بیان پر نظر پڑتے ہی میں بے اختیار جھٹکے سے اٹھ بیٹھا حالانکہ کمر کی پرابلم کے سبب ڈاکٹرز نے اس طرح اٹھنے سے منع کررکھا ہے۔ حکم یہ ہے کہ سیدھا نہیں بلکہ پہلو کے بل کہنی کے سہارے آہستگی سے اٹھوں لیکن چیف جسٹس کے بیان نے ہیجان میں مبتلا کرکے سب کچھ بھلادیا۔
سچ یہ ہے کہ ہمارے ”بڑے“ بڑیں بہت ہانکتے ہیں اور بڑھکیں بہت مارتے ہیں یا بالکل بودی بیان بازیاں کرتے ہیں ڈھنگ کی، حکمت و دانش کی بات تقریباً نایاب سمجھئے لیکن چیف جسٹس کے ایک جملے نے مسحور کردیا اور فیصلہ کیا کہ اس پیغام کو اپنے قارئین کے ساتھ شےئر کروں۔
چیف جسٹس نے کہا
ہمارے پاس بھی ہر روز اتنا ہی وقت ہوتا ہے جتنا ہیلن کیلر، مدر ٹریسا، نیوٹن اور آئن سٹائن کے پاس“
18کروڑ آبادی کے اس ملک میں اگر صرف ایک فیصد لوگوں کو بھی اس ایک سطر کی سمجھ آجائے تو وہ 8لاکھ بنتے ہیں اور جہاں 18لاکھ لوگ زندگی کا یہ ” راز“ جان لیں تو پاکستان کا رنگ روپ ہی تبدیل ہوجائے کہ اصل کھیل واقعی ” کوانسٹٹی “ نہیں“کوالٹی کا ہوتا ہے۔ کچھ لوگ چند سال کی زندگی میں لاکھوں سال کی عمر جی لیتے ہیں اور بہت سے لوگ سو سو سال جی کر بھی ایسے جیسے کبھی پیدا نہیں ہوئے تھے۔ سائنسدانوں سے لیکر شاعروں اور ادیبوں تک جنگجوؤں سے لیکر سیاستدانوں تک اکثر کوڑے دان کی خوراک تاریخ کے بلیک ہولز میں گم لیکن جنہیں جج صاحب والی بات کی سمجھ ہو صرف ان کے بارے کہا جاتا ہے
بلھے شاہ اسیں مرنا ناہیں
گود پیا کوئی ہور
مرتے صرف وہ ہیں جنہیں زندگی گزارنے کی تمیز نہیں ہوتی۔ جو اس ناقابل تردید اور حسین ترین حقیقت سے بے خبر ہوتے ہیں کہ سب ہمارے پاس بھی اتنا ہی وقت ہوتا ہے جتنا ہیلن کیلر ،مدر ٹریسا، نیوٹن اور آئن سٹائن کے پاس۔ مجھے جج صاحب کے اس جملے نے اس لئے بھی بہت زیادہ انسپائر اور فیسی نیٹ کیا کہ بر سہابرس سے یہ میری تحریروں کا” مرکزی خیال “ ہے۔ میرے ریگولر قارئین جانتے ہیں کہ میں مختلف عدالتوں سے اس موضوع پر کتنا کڑھتا اور کرلاتا رہتا ہوں۔ اس جنون میں مجھے مغرب سے مرعوبیت کے طعنے بھی ملتے ہیں لیکن میں اسے عبادت سمجھ کر جاری رکھے ہوئے ہوں۔ میرے گزشتہ سے پیوستہ دو کالموں کا موضوع بھی یہی تھا کہ ہم وقت برباد کررہے ہیں اور وقت ہمیں برباد کررہا ہے ہم وقت ضائع کررہے ہیں اوروقت ہمیں ضائع کررہا ہے لیکن ہم اسے سمجھ نہیں رہے۔ سچ یہ ہے کہ وقت کا تو کچھ نہیں بگڑے گا ، ہماری صورتیں بالکل بگڑ چکی ہیں ورنہ اتنے بے کراں بیش قیمت وسائل ڈیڑھ ارب مسلمان 60کے لگ بھگ آزاد ملک اور عالم اسلام کی یہ حالت ؟؟؟
افراد اور اقوام کی زندگی میں فیصلہ کن بات یہ ہوتی ہے کہ ” وجہ مرگ “ اور ” جگہ مرگ“ کا انتخاب کیسا ہے۔
وقت ایک سوٹ کیس کی مانند ہے چاہو اسمیں چیتھڑے بھر لو یا ریشم، ہیرے بھر لو یا پتھر ، تخریب بھر لویا تخلیق و تعمیر ، اس میں خرافات و توہمات بھر لویا ایجادات، ہم سب کے پاس ایک ہی سائز کا سوٹ کیس ہے ۔ جسے پیکنگ کا ہنر آتا ہو وہ زیادہ سامان پیک کرلیتا ہے اور جو پھوہڑ ہو وہ ضروری سامان بھی پیک نہیں کرسکتا۔
صوفی شاعر کہتا ہے
لوئے لوئے بھرلے کڑئیے جے توں بھانڈا بھرنا
شام پئی تے فیر محمد گھر جاندی نے ڈرنا
اس کا مطلب وسیع ترین ہے کہ زندگی میں صرف موت کی ہی نہیں زندگی کی تیاری بھی ہماری ذمہ داری ہے حکم یہ ہے کہ بیشک تم غالب آؤ گئے اگر تم مومن ہو۔ غلبہ مومن کے مختلف شناختوں میں سے ایک ہے جس نے وقت کی قدر نہ کی اس بے قدرے کیلئے کیسی دنیا اور کون سی آخرت ؟
سبحان اللہ کیا خوبصورت جملہ ہے۔
he who kills time, injures eternity ہم لوگ تو گھڑی کی بے جان سوئیوں کی مانند ٹائم گزار رہے ہوتے ہیں بالکل ایسے جیسے کوئی گیرج میں کھڑی گاڑی کو سٹارٹ کردے، پٹرول پھنکتا رہے گا فاصلہ ایک انچ بھی طے نہ ہوگا۔ طلسمی شاعر نے کہا منیراس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ یہ وقت ہے کیا ؟ james garfieldکے اس جملے کی گہرائی میں جھانکو جس نے کہا تھا when god wants to grow a sguash, he grows it in one summer but when he wants to grow an oak he takes a century.اگر خالق و مالک و رزاق کیلئے بھی وقت یا معنی ہے تو اس مٹی کے پتلے کی کیا اوقات کہ وقت کو درخوراعتنانہ سمجھے۔ بے قدروں کیلئے وقت کا ٹ کر رکھ دینے والی تلوار بھی ہے۔ تھینک یو چیف جسٹس صاحب! ممکن ہو توکبھی کبھار ایسا انجیکشن دیدیا کریں، مریض بہتر محسوس کرینگے کہ یہاں تو ڈھنگ کی بات سننے کو سماعتیں ترستی ہیں۔