• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پرانے کراچی کے ہوتے ہوئے، نیا پاکستان نہیں بن سکتا۔ یہ وہ حقیقت ہے کہ جسے انتخابات کے دن اور اس کے بعد کراچی میں ہونے والے واقعات نے مزید اجاگر کر دیا ہے۔ یوں تو کراچی اپنی آبادی کی ست رنگی اور اپنے احساس کے لحاظ سے ملک کے باقی علاقوں سے مختلف ہے لیکن یہ شہر کئی معنوں میں پاکستان کی سلامتی، خوشحالی اور ترقی کا ضامن بھی ہے۔ ایک اور رشتہ کراچی کا باقی ملک سے یوں استوار ہے کہ تقریباً سارے مسائل اور تضادات جو ملک کے کسی بھی علاقے میں پروان چڑھے ہوں ان کا کراچی میں اجتماع ہے۔ چپکے سے طالبان بھی کراچی آپہنچے ہیں۔ آپ شاید یہ کہیں کہ بڑے شہر تو مقناطیس کی مانند دوردراز کے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے ہی ہیں۔ خواب دیکھنے والے طالع آزما، مہم جو اور اپنے آپ کو منوانے کی خواہش رکھنے والے ہمیشہ کراچی جیسے شہروں کا رخ کرتے ہیں اور یہی انسانی وسائل دراصل ان شہروں کی دولت بن جاتے ہیں۔ کراچی کی حد تک یہ معاملہ ذرا پیچیدہ ہے کئی برسوں کی افراتفری اور امن وامان میں خلل کے سبب اب یہ ایک ایسا شہر ہے کہ جس سے بھاگ جانے کی ضرورت بھی محسوس کی جا سکتی ہے تو یہ کیا ہوا کہ اس قدر امکانات کے باوجود کراچی بے چینی، اضطراب اور تشدد کی آماجگاہ بن گیا ہے؟
میں خود کو کراچی کا نوحہ گر سمجھتا ہوں کیونکہ نوجوانی سے لیکر اب تک جب عمر کی نقدی تمام ہونے کو ہے، میں نے ایک صحافی کی حیثیت سے جیسے کراچی کی خبرگیری کی ہے اس کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرتا رہا ہوں۔ ایک زمانے میں ”کراچی ڈائری“ کے عنوان سے میں نے ایک انگریزی اخبار میں کالم لکھے۔ سن ساٹھ کی دہائی سے اب تک جو کچھ ہوتا رہا اس کی گواہی دے سکتا ہوں۔ سن ساٹھ کی بات بہت پرانی لگتی ہے۔ اس دہائی کے آخری سالوں میں اس شہر کی لائبریریاں اور سینما گھر گویا میری درسگاہ تھے۔ ایک ایسا زمانہ تھا کہ جس کا ذکر میں آج کل کے نوجوانوں سے کرتا ہوں تو انہیں یقین نہیں آتا۔ میرا تو خیال ہے کہ ایک نیا پاکستان بنانے کے لئے ہمیں اس کھوئے ہوئے ماضی کو تلاش کرنا پڑے گا۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جب سے اب تک جو کچھ ہوا اس کو رد کرنے کی یا اس سے انحراف کرنے کی ضرورت ہے؟ اور کیا یہ ممکن ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ وہ وقت نہیں ہے کہ ہم کراچی بلکہ برصغیر کی تاریخ کی چھان بین کریں۔ میں تو صرف انتخابات اور اس کے بعد کی صورتحال کے تناظر میں کراچی کے دکھوں پر ایک سرسری نظر ڈالنے کی کوشش کر رہا تھا اور اصل موضوع اس وقت تو قومی سطح پر ہونے والے انتخابات اور ان کے نتائج ہیں۔ بنیادی طور پر یہ عمل بہت امید افزاء ہے۔ دہشت گردی اور دوسری تخریبی کارروائیوں کے باوجود انتخابات کا نسبتاً پرامن ہو جانا ہی ہم مایوسی کے مارے ہوئے لوگوں کے لئے ایک ایسا تحفہ ہے جس کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے ڈر لگتا تھا۔ اسے بھی آپ ایک خوش نصیبی کہئے کہ ایک جماعت نے اکثریت حاصل کر لی اور سیاسی جوڑ توڑ اور سودے بازی کا کھیل کھیلنے کا موقع نہیں آیا۔ ہاں، سونامی کے نہ آپانے سے کافی لوگ مایوس بھی ہوئے۔ ویسے سونامی کی تباہی ساحلی علاقوں تک ہی محدود ہوتی ہے۔ سو کراچی میں ہم نے طوفانی ہواؤں کا زور دیکھا اور گرج چمک کے کیفیت بھی رہی۔
اپنے بارے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ انتخابات کا خمار ابھی باقی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ میں ”جیو“ کے انتخابات کی نشریات میں شامل رہا۔ یہ ایک اچھوتا تجربہ تھا۔ پاکستان میں ٹیلیویژن کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں۔ اتنے بہت سے لوگ ”جیو نیوز“ سے وابستہ سارے بڑے نام ایک جگہ موجود تھے اور ذہنی اور جذباتی طور پر خود کو بنتی ہوئی تاریخ کا ایک حصہ تصور کر رہے تھے۔ ایک سرشاری کا سا عالم تھا اور پھر تشویش کا بھی۔ خاص طور پر کراچی کے حوالے سے۔ یہاں میرا اشارہ کسی انتخابی بدعنوانی کی جانب نہیں ہے کیونکہ اس کی خبریں تو کئی مقامات سے آئیں۔ اگر کہیں کیمرے کی رسائی نہیں تھی تو وہاں بھی کچھ ہوا ہو گا۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں ناخواندگی بھی ہو، طبقاتی جبر بھی ہو، عدم برداشت بھی ہو اور دہشت کا سایہ بھی، وہاں انتخابی عمل پورے نظم وضبط کے ساتھ کیسے جاری رہ سکتا ہے۔
یہ سوال کہ ان انتخابات کا کراچی کی سیاست پر کیا اثر پڑے گا اپنی جگہ کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو، میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایک بار پھر ہمیں یہ سوچنے کا موقع ملا ہے کہ آخر کراچی کو بچانے، اس کو سدھارنے اور اسے پرامن اور مہذب بنانے کی ذمہ داری کس پر ہے اور یہ کام کیسے ہو گا۔ اب تک کے حکمرانوں نے تو کراچی سے وفا نہیں کی۔ اس کا ثبوت واضح ہے۔ مثلاً چند ہفتے پہلے لیاری میں جو کچھ ہوا اس کے بیان سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایسے اچھے اچھے لوگ نامعلوم دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہوگئے۔
اسی ہفتے انسانی حقوق کے ایک اور پاسبان عبدالوحید کے قتل نے مجھے دہلا دیا۔ اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمن کا قتل پہلے ہی ہمارے ذہنوں کو مفلوج کر چکا تھا ایک عجیب وحشت ہے جو معاشرے کی رگوں میں دوڑ رہی ہے جن کے ہاتھوں میں آتشیں ہتھیار ہیں وہ جیسے ہر طرف ہمارا راستہ روکے کھڑے ہیں۔ ہم خوف کی سلطنت میں رہتے ہیں۔اب ذرا یہ سوچئے کہ ایک شہر کو جو ملک کا سب سے بڑا شہر بھی ہو اور صنعتی مالیاتی، تجارتی مرکز بھی ہو بندرگاہ بھی ہو، جو بے شمار تعلیم یافتہ اور تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال افراد کا گھر بھی ہو تو اسے کیسا ہونا چاہئے۔ اس سوال کا جواب تو بہت آسان ہے۔ اپنے ہی جیسے دوسرے ملکوں کے سب سے بڑے شہروں کو دیکھ لیں۔ فرق صاف ظاہر ہے۔ میں جب شام کے بعد بڑی شاہراہوں پر لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح بسوں کی چھتوں پر بیٹھے دیکھتا ہوں تو دل کٹ کے رہ جاتا ہے۔ جب امتحانوں میں کھلے عام نقل کرنے کا تصویری ثبوت ٹیلیویژن پر دکھایا جاتا ہے تو حیرت ہوتی ہے کہ کیا کسی کو یہ بھی معلوم ہے کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ تمام بڑے شہروں میں ملک کے مختلف علاقوں کے لوگ آباد ہوتے ہیں۔ مختلف نسلوں، زبانوں، فرقوں اور عقیدوں کی یہ پچی کاری ہی دراصل کسی معاشرے کی تخلیقی قوت بنتی ہے۔ امریکہ کو دیکھ لیجئے اور بڑے شہر جیسے پبلک ٹرانسپورٹ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے اسی طرح وہ ایک ایسے ماحول کے بغیر ترقی یافتہ نہیں بن سکتے کہ جس میں ذہنی اور ثقافتی آزادی ہو۔ ایک کھلی فضا کہ جس میں نوجوان، اپنی سوچ اور صلاحیت کی بنیاد پر ستاروں کو چھو لینے کی کوشش کریں۔ سب سے زیادہ دکھ مجھے کراچی کے تعلیمی اداروں کو دیکھ کر ہوتا ہے کہ جہاں نئے خیالات کا داخلہ جیسے ممنوع ہو اور کچھ ایسے گروہ بھی ہوں کہ جن سے اختلاف آپ کی جان کوخطرے میں ڈال دے جیسا کہ میں نے شروع میں کہا۔ اس کراچی کے ساتھ تو پاکستان کبھی بدل نہیں سکتا۔ تو کیا ہمارے حکمران یہاں سے لے کر وہاں تک ایک نیا پاکستان بنانا نہیں چاہتے؟
تازہ ترین