• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الیکشن کی رات نوجوان نسل نے چاند رات کی طرح گزاری، جوش وخروش گھر سے گلی تک اور گاؤں سے شہر تک ہر طرف دیکھنے کو ملا، اس شام رجب المرجب کا نیا چاند بھی طلوع ہونا تھا اور نئے پاکستان کا آغاز بھی۔ اسلام آباد کے بڑے بڑے پوش علاقوں کے مقیم جو اپنے اڑوس پڑوس کی غمی خوشی میں بھی شریک نہیں ہوتے وہ پولنگ اسٹیشنوں پر قطار اندر قطار پاکستان کی خوشی میں خوش تھے مجھے بہت سارے حلقوں اور پولنگ اسٹیشنوں پر جانے کا اتفاق ہواجہاں بھی گیا لوگوں کو شاد پایا، خواتین نے کمال بیداری کا مظاہرہ کیا، لڑکیوں نے اپنی پسند کی پارٹی کے جھنڈوں کے رنگوں والی چوڑیاں اور دوپٹے لئے ہوئے تھے۔ نوجوان کانوائے کی صورت میں موٹر سائیکل لئے گلیوں میں اپنے ہونے کا احساس دلاتے دکھائی پڑے۔ سچی بات ہے اس روز مجھے بھی اپنے لڑکپن کے زمانے میں چلے جانے کا دل کر رہا تھا، بھبھکا لگانے کو دل بلیوں ناچ رہا تھا اظہار ضبط کے بندھن توڑنے کو تھا کہ سید عارف کا یہ شعر گنگنا کر مصلحت کی بکل اوڑھ لی کہ
وہی بچپن کے دن اچھے تھے عارف
بڑے ہو کر تو چھوٹے ہو گئے ہیں
چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم کی نیک تمناؤں کے مطابق ووٹ ڈالنے کی شرح ساٹھ فیصد رہی بعض علاقوں میں اس سے بھی زیادہ تھی، چند ایک جگہوں پر خصوصی حالات کی وجہ سے ”ٹرن آؤٹ“ تھوڑا کم رہا مگر مجموعی طور پر توقعات سے بڑھ کر تھا، تاریخ پر نظر رکھنے والے اگر پہلی بار بالغ حق رائے دہی کے نظام کے تحت دسمبر 1970ء میں منعقد ہونے والے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخاب جنہیں پاکستان کی تاریخ کے پہلے عوامی انتخابات کہا جاتا ہے کو دیکھیں تو ان انتخابات میں بھی لوگوں نے کمال جوش وخروش اور شعور کا مظاہرہ کیا تھا جس کا مجموعی ٹرن آؤٹ 63 فیصد تھا۔ 1977 کے متنازع انتخابات کا ٹرن آؤٹ بھی 63 فیصد ہی تھا گویا عام آدمی بیدار ہے اسے اپنا اچھا برا پتہ ہے یہ اور بات کہ چناؤ کے بعد آنے والے عوام کے مفادات کو بھول کر اپنی ترجیحات تراش لیں تو اس میں عوام کا کوئی دوش نہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نوجوان نسل نے عمران خان کو زیادہ ووٹ دیئے تو ایسا کہنا بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ ایک پولنگ اسٹیشن پر ایک ضعیف العمر شخص جو چلنے کی سکت بھی نہیں رکھتا تھا اسے دو نوجوان ایک عام سی پلاسٹک کی کرسی پر اٹھائے جا رہے تھے میں نے بڑھ کر ان لوگوں کی مدد کی تو وہ صاحب نعرے لگانے لگے کہ ”عمران خان زندہ باد“ میں نے کہا اب اس قسم کا نعرہ لگایا تو میں کرسی نیچے رکھ دوں گا، وہ بولا بے شک رکھ دو میں نے ووٹ عمران خان کو ہی ڈالنا ہے بعض خواتین کا ووٹ ڈالنے کا اپنا انداز ہے ایک زنانہ پولنگ بوتھ پر خاتون اپنی پسند کے امیدوار کو مہر لگانے لگی تو ساتھ کھڑی خاتون کو مخاطب کر کے کہا کہ ارادہ تھا عمران خان کو ووٹ دوں گی مگر اب وہ بستر پر پڑا ہے کیا فائدہ ووٹ ضائع کرنے کا، چلو جماعت اسلامی کو ڈال دیتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوا عمران خان نے ہمدردی کا ووٹ بھی نہیں لیا اور نواز شریف کا ووٹ بھی نہ توڑا جا سکا عمران خان کا سونامی پیپلز پارٹی کو بہا کر لے گیا ہے وہ پیپلز پارٹی جس نے 1970ء کے انتخابات میں مغربی پاکستان میں کلین سوئپ کیا تھا وہ 43 سال بعد 35 نشستوں تک آگئی ہے لیکن اسکا یہ حال اس کے اپنوں نے کیا ہے۔ پی پی پی کے سنجیدہ حلقے حفیظ جالندھری کا یہ شعر رہ رہ کر دہراتے ہونگے کہ
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
پیپلز پارٹی کو بہت سے سنجیدہ ورکر چھوڑ گئے چند ایک اقتدار میں ہوتے ہوئے تنقید کرتے رہے، طبقاتی سیاست سے بلند ہو کر عوام کی سیاست کی بات کرتے رہے جس کا نعرہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے لگایا تھا۔ 2008 کی اسمبلی میں کوئٹہ کے حلقے این اے۔259 سے سید ناصر علی شاہ مسلسل ایوان صدر پر تنقید کرتے رہے اسمبلی فلور پر وہ چیخ چیخ کر جیالوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور عام آدمی کے حق میں آواز بلند کرتے رہے۔ انہوں نے راجہ پرویز اشرف کو احتجاجاً اعتماد کا ووٹ بھی نہیں دیا تھا مگر انہیں ایک سازش کے تحت علیحدہ کر دیا گیا۔ این اے 268 کے آیت اللہ درانی بھی احتجاج ریکارڈ کراتے رہے مگر کسی نے پرواہ نہ کی ٹکٹوں کی تقسیم پر بھی اقرباء پروری مقدم رہی جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ ڈاکٹر پروفیسر نثار ترابی کے بقول
ایک سازش سے الٹ جاتی ہے شاہی ساری
ایک دشمن پس دیوار بہت ہوتا ہے
بہر طور الیکشن ہو گئے جن کو الیکشن ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے تھے، انہوں نے بھی دیکھے۔ میاں محمد نواز شریف سے جنرل پرویز مشرف نے جتنا بڑا عوامی مینڈیٹ 12 اکتوبر 1999 کو چھینا تھا، عوام نے 11 مئی 2013ء کو واپس کر دیا ہے۔ پنجاب بھی مسلم لیگ ”ن“ کے پاس ہے، وفاق بھی آگیا خیبر پختوانخواہ میں تحریک انصاف کو قسمت آزمائی کا موقع دیا جانا چاہئے بالکل ویسے ہی جیسے 2008 میں سندھ میں پیپلز پارٹی سادہ اکثریت سے حکومت بنا سکتی تھی مگر کسی قسم کی بدمزگی سے بچنے کیلئے انہوں نے ایم کیو ایم کو ساتھ ملا لیا تھا۔ مولانا فضل الرحمن کی مسکراہٹوں سے میاں محمد نواز شریف محفوظ رہے ہی تھے کہ گزشتہ روز میاں شہباز شریف بھی اسلام آباد سے بچ کر نکل گئے۔ یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ اب کی بار مسلم لیگ ن کی پورے ملک میں نمائندگی موجود ہے! اگر میاں صاحب نے چھوٹے میاں شہباز شریف کی طرح محنت کی اور وعدے پورے کئے بجلی بحران ختم کرنے ساتھ ساتھ بیروزگاری کا قلع قمع کیا تو اگلا انتخاب بھی ان کا، وگرنہ پھر بحران سر اٹھا لے گا۔
موجودہ الیکشن 2013ء میں الیکشن کمیشن کا کردار مثالی رہا پولیس حتیٰ کہ نیشنل ہائی وے پولیس، رینجرز، فوج، اساتذہ اور خفیہ اداروں نے پوری دیانتداری کا مظاہرہ کیا باوجود اس کے بہت سی جگہوں پر ہنگامہ آرائی بدنظمی دیکھنے میں آئی بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کی بات تو سمجھ میں آتی ہے مگر راولپنڈی کے حلقہ این اے 54 کا نتیجہ بھی انتخاب کے تین دن بعد تک نہ دیا جا سکا۔ بہر طور اس قسم کے تین چار انتخابات کے بعد ہم سیاست کے گرم سرد اور دھوپ چھاؤں سے آگاہ ہو جائیں گے۔
تازہ ترین