• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زمانہ قدیم ہو یا جدید، انسانی معاشرے میں مکمل دیدہ دلیری، یا چلیں بے باکی ہی سے بدنامی کمانے والوں کی کبھی کمی نہیں رہی۔تبھی تو 19ویں صدی میں حالیؔ کی صحبت کے سخن فہم شاعر نواب مصطفیٰ خاں شیفتہ نے کیا خوب ارشاد کیا تھا

ہم طالب شہرت ہیں، ہمیں ننگ سے کیا کام

بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا

بات 19اور 20ویں صدی کی ہی نہیں، 21ویں صدی میں بھی یہ شوق بدنامی سر چڑھ کر بول رہا ہے، فقط ہمسائے میں مودی کے کافرانہ انداز حکومت میں ہی نہیں، یہ جنون سات سمندر پار امریکہ بھی جا پہنچا۔ امریکہ ہی نہیں وہاں کے بھی مرکز اقتدار میں۔ الیکشن ہارے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حواریوں اور سفید پرست جیالوں کو سخت سردی میں گرما کر جو کچھ واشنگٹن ڈی سی خصوصاً کیپٹل ہل (ایوانِ قانون سازی) میں دوران اجلاس جاری ڈگمگائی امریکی جمہوریت کا جو جلوہ دکھایا، اس سے ہماری پاکستانی اسٹیٹس کو کی برینڈڈ جمہوریت کا حسن بھی ماند پڑ گیا۔ اتنی اور ایسی بدنامی کمائی کہ گھنٹوں میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی جیسے پکے سچے یورپی حلیف ملکوں کے حکمرانوں نے بھی تبرا کرنے میں تاخیر نہ کی۔ بلاشبہ کیپٹل ہل میں کرائی گئی ہلاکت خیز مسلح ہلڑبازی نے ٹرمپ صاحب کی بدنامی کو دوچند کر دیا۔ منتخب صدر جوبائیڈن کو انتقالِ اقتدار کی جاری صدارتی (ٹرمپی) مزاحمت نے امریکی داخلی سیاست ہی نہیں عالمی آسمان ِسیاست پر طویل عرصے کیلئے یہ سوال جڑ دیا ہے کہ کہیں بدنام ہوتی امریکی جمہوریت شاخ نازک کا وہ آشیانہ تو نہیں جو نام نہاد عوامی زور، برترتہذیب، انسانی حقوق اور توقیر ووٹ کے نازک تنکوں سے بنا ہے اور جو مرشد اقبال کی مستقبل کی Visualization میں مانند قریب نظر آئی تو ارشاد فرمایا

دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دُکاں نہیں ہے

کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ آب زر کم عیار ہو گا

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی

جو شاخ نازک پہ جو آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا

جدید تاریخ کی حقیقت تو یہ ہی ہے کہ زمانہ قدیم میں جمہوریت کی منزل کی طرف جاتی جس راہ سیاست و حکومت کے فلسفے کو ارسطو نے بیان کیا تھا اس کا عملاً ارتقاء تو برطانیہ میں سات صدی قبل شروع ہونے والی منشوری تحریک (Magna Carta) سے ہوا یوں برطانوی پارلیمینٹ دنیا بھر کی پارلیمینٹس کی ماں کہلائی، لیکن ذہن نشیں رہے کہ منشوری تحریک کا آغاز بھی برطانوی نوابوں سے ہی ہوا تھا، انہوں نے ہی بادشاہ سے اختیارات کے زیادہ سے زیادہ حصول کی تحریک کو ختم نہ ہونے دیا، بالآخر ہائوس آف کامن تشکیل پایا بتدریج با اختیار ہوتا گیا اور ا س نے بذریعہ ووٹ منتخب پارلیمینٹ بھرپور اختیارات والا منتخب ایوان اچک لیا اور عوام ایمپاورڈ ہو گئے اور ہائوس آف لارڈ بس اپنی نوابی پر ہی اکتفا کرتا ہے۔ اس کے مقابل امریکی جمہوریت کا حقیقی سفر خاتمہ غلامی کیلئے بذریعہ تخفیف غلامی سے امریکی صدر ابراہام لنکن نے The Goverment of the people, by the people for the people کے فلسفہ جمہوریت سے شروع کیا جس کا بام عروج پہلے سیاہ فام امریکی صدر بارک اوباما کے وائٹ ہائوس میں منتخب صدر کے داخل ہونے سے ہوا، فارسی کہاوت کے مطابق سیاہ فام مسلم باپ کے بیٹے بارک حسین اوبامہ کا دوسری ٹرم کیلئے بھی انتخاب جیتنا فلسفہ لنکن کی پیروی میں عوام والی خالص جمہوریت کا کمال تھا۔ اوبامہ کو حاصل اس عروج کو دنیا بھر کے تجزیہ نگاروں نے امریکی جمہوریت کا کمال اور عروج قرار دیا لیکن صدر اوبامہ کے دوسرے دور کے بعد پہلے ہی انتخاب کے سفید فاموں کی بالادستی پر یقین رکھنے والے اور اپنی سیاسی گفتگو اور اقدامات میں اس کا کھلا اظہار کرنے والے ٹرمپ کے اندازے سے حقیقی جمہوریت پرستوں کے ماتھے ٹھنکنے لگے، جیت اور پھر دور اقتدار کے اختتامی سال پر تو جمہوریت کے ڈگمگانے کے خدشات میں دل دھڑکنے لگے۔ بالآخر یہ دل کی دھڑکن ٹھیک ہی تو ٹھہری شادباد امریکہ کے الیکشن 20کی انتخابی مہم میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے بلاجھجھک سیاسی ابلاغ اور اس سے قبل کتنے ہی اقدامات سے خود بطور صدر ثابت کیا کہ وہ دنیا بھر سے آئے آباد کاروں کے بنائے عظیم جمہوری معاشرے کو ’’خدا کی بستی‘‘ نہیں، صرف اور صرف دکان ہی جانتے ہیں یہ تو ان کے دور اور انتخابی مہم کے غیر جمہوری ابلاغ کی کہانی ہے اب جو واشنگٹن میں خون و خاک، دھونس دھاندلی اور گولی دھوئیں کا تھیٹر ٹرمپ کے پیروکاروں نے کیپٹل ہل میں لگایا ،جو کچھ ہوا جتنا اور جیسے ہوا اس نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی چولیں ایک بار تو بری طرح ہلا دیں۔ امریکی جمہوریت شاخ نازک کا آشیانہ ہی نظر آئی ، یوں لگا امریکہ کے حاضر منتخب پاپولر صدر نے امریکی جمہوری تہذیب کو ذبح کرنے کیلئے برہنہ خنجر تان لیا، پہلے دوچار وار بھی ہوگئے جمہوریت زخمی تو ہو گئی ۔مرہم پٹی جاری ہے۔ افاقہ ہو جائے گا، آئین و قانون کی نظر آتی بالادستی اور کلاسیکی ری پبلیکنز بشمول نائب صدر مائیک کی ٹرمپ سے بغاوت اور آئین سے وفا کا اثر افاقہ دیگا۔ لیکن امریکہ بڑے داخلی خطرات و خدشات میں تو آ گیا۔ ٹرمپ چٹان جیسا رجعت پسند پاپولر لیڈر اور وائٹ سپرامیسی، اس کے کروڑوں مقلد یو ایس اے کے بڑے طاقتور اور قابل فخر ’’یو‘‘ (یونائیٹڈ) کیلئے خطرہ نہیں بن گئے؟ جن سے امریکہ کے اقلیتی آباد کار سہم رہے ہیں۔ ﷲ نہ کرے جو کچھ کیپٹل ہل میں ہوا وہ کیپٹل ہل سے اور ڈی سی سے باہر نکلے ۔مسئلہ اور خدشہ ٹرمپ کے بلند درجے کے شوق بدنامی ان کی پیروکاروں میں مقبولیت اور فقط ’’وائٹ از رائٹ اینڈ مائٹ‘‘ پر مکمل یقین ہونے کا ہے۔

تازہ ترین