• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ کی ’’مثالی جمہوریت‘‘ کا یوں حشر ہوگا کس کے گماں میں تھا؟ امریکی صدر ٹرمپ نے نہ صرف انتخابی نتائج ماننے سے انکار کردیا، بلکہ اپنے فاشسٹ شیدائیوں کو مشتعل کر کے کیپیٹل ہل (پارلیمنٹ) پر حملہ کروا دیا اور اس وقت جب کانگرس کا مشترکہ اجلاس نائب صدر کی صدارت میں صدارتی انتخابات کے نتائج کی تصدیق میں مصروف تھا۔ بلوائیوں نے دونوں ایوانوں کو تہس نہس کردیا ، امریکہ کے منتخب نمائندوں کو پناہ لینا مشکل ہوگیا۔ کیپیٹل پولیس پہنچی بھی تب، جب فسادی تباہی مچاچکے تھے۔ نومنتخب صدر بائیڈن نے ٹھیک یاد دلایا کہ بلیک لائیوز میٹر کے پرامن جلوس کے ساتھ تو خوفناک سلوک کیا گیا تھا لیکن سفید فام نسل پرستوں کے متشدد اور باغیانہ مظاہرین کو پارلیمنٹ پر حملے کے لئے راستہ دیا گیا۔ جمہوریت پہ شب خون مارنے کی ذمہ داری اگر کسی پر ہے تو وہ جمہوریہ کا اب بھی صدر ہے۔ اب ڈریہ ہے کہ کہیں جنونی ٹرمپ نیوکلیئر بٹن ہی نہ دبادے یا پھر ایران یا کسی اور ملک پر حملے کا حکم ہی نہ دے دے۔ ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف سے ملاقات کر کے ایسی کسی مہم جوئی کو روکنے کی استدعا کی ہے لیکن فوج کرے بھی تو کیا کہ ٹرمپ ابھی کمانڈر انچیف بھی ہے جس کی حکم عدولی ممکن نہیں تا آنکہ حکم غیر قانونی ہو۔ ٹرمپ کی صدارت کو ختم ہونے میں ابھی دس روز باقی ہیں اور ہر ایک کو تشویش ہے کہ وہ جاتے جاتے جانے کیا کیا طوفان کھڑا کردے گا جو اگلی حکومت کے لئے سنبھالنا مشکل ہوجائے گا۔ آئینی راستہ بچا بھی ہے تو آرٹیکل 25کے تحت نائب صدر کابینہ کی منظوری سے صدر کو اختیارات سے محروم کردے یا پھر کانگریس مواخذے کی تحریک لے آئے جسے دو تہائی اکثریت سے منظور کرنے کےلئے کئی ہفتے درکار ہوں گے جس کا وقت نہیں بچا۔ البتہ کانگریس ٹرمپ کو آئندہ کے لئے نااہل ضرور قرار دے سکتی ہے۔ ٹرمپ نہ تو انتخابی نتائج اُلٹ سکتا تھا، نہ آئین توڑ سکتا تھا، تو پھر اس نے جمہوریت شکنی کا راستہ کیوں اختیار کیا؟ ٹرمپ کی سیاست کی بنیاد ہی نفرت، نسل پرستی اور سفید چمڑی کی قوم پرستی پہ ہے اور وہ سیاسی طور پر زندہ بھی تب ہی رہ سکتا ہے جب وہ امریکی سماج میں موجود تفرقوں کو ہوا دیتا رہے۔ اس کی ’’کامیابی‘‘ اسی میں ہے کہ وہ امریکہ کو خوفناک طور پر تقسیم کئے رکھے۔ گو کہ مواخذہ کے ڈر سے وہ کچھ پیچھے ہٹنے پہ مجبور ہوا ہے کہ اس کے خلاف فوجداری جرائم میں مقدمات بننے اور مواخذے کے امکانات ہیں۔ اس کی ری پبلیکن پارٹی بری طرح سے رسوا اور تقسیم ہو چکی ہے، لیکن اسے قدامت پسند پارٹی کے تین چوتھائی لوگوں کی حمایت اب بھی حاصل ہے۔ گو کہ اس کے ذاتی اور صدارتی سوشل میڈیا کھاتوں پر سنسر لگ گیا ہے لیکن وہ ابلاغ کی چائنا شاپ میں اودھم مچائے رکھنے کے منصوبے بنارہا ہے۔

امریکی انتخابات سے لے کر نتائج کے مرتب ہونے اور اقتدار کی منتقلی تک امریکی سیاست اور ریاست کو مسلسل دھچکے لگ رہے ہیں۔ خود 2016ء میں ٹرمپ کا انتخاب امریکی مقتدرہ اسٹیبلشمنٹ نیو لبرل واشنگٹن اتفاق رائے، امریکہ کی عالمی فوجی صف بندی، عالمی اداروں ، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن ، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، اقوام متحدہ، حتیٰ کہ پیرس کے ماحولیاتی تحفظ کے معاہدے تک سے منہ پھیر لیا اور ’’پہلے امریکہ‘‘ کے نعرے پہ معاشی تحفظ پسندی کا راستہ اپنایا جو اس کے قوم پرستانہ ایجنڈے ہی کا شاخسانہ تھا۔ اس اعتبار سے تو وہ بظاہر ’’بڑا انقلابی‘‘ نظر آئے گا، لیکن وہ دراصل بدترین علاقائی، فسطائی اور اجارہ دارانہ رجحان کا نمائندہ بنا جو وہائٹ سپر میٹسٹ یا سفید نسلی بالادستی کے قوم پرستانہ فسطائی نظریے کاپر تو ہے۔ امریکہ اور دنیا پر غالب نیولبرل ورلڈ آرڈر کو تو اس نے تہس نہس کیا ہی لیکن اس کی جگہ وہ ایک فاشسٹ ورلڈ آرڈر کو مسلط کرنے کی راہ پر گامزن بھی رہا۔ اب امریکہ فاشزم اور اس کے نسل پرستانہ متعصب رجحان اور نیولبرل ازم کے ’’جمہوری‘‘ نظریہ کے ماننے والوں میں بری طرح سے تقسیم ہوگیا ہے۔ نومنتخب صدر بائیڈن اور ان کی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی پرانے نیولبرل آرڈر کی بحالی چاہے گی اور امریکی مقتدرہ اس کے ساتھ ہوگی۔

امریکہ کا موجودہ سیاسی بحران دراصل اس کی خوفناک سرمایہ داری، ماحولیاتی تباہ کاری، حیاتیاتی و جینیاتی بحران اور وبائی لا ینحل بحران ہے۔ دنیا کا امیر ترین ملک اپنے لوگوں کی صحت اور زندگیوں کو محفوظ رکھنے میں ناکام رہا ہے۔ معاشی ابتلا کے زمانے میں بھی اس کے ارب پتیوں کی دولت میں کھربوں ڈالرز کا اضافہ ہوا ہے، جبکہ ایک فیصد امیر لوگ امریکہ کی تقریباً دو تہائی دولت پر قابض ہیں اور کروڑوں محتاج اور بیروزگار، اس بحران میں جب منڈی کی معیشت کا پہیہ رک گیا تو پھر ریاست کو ڈالرزچھاپ کر بڑی مالیاتی اور صنعتی کارپوریشنز کا شکم بھرنا پڑا اور لوگوں کو سوشل ویلفیئر فنڈ دینا پڑا کہ وہ اشیاء کی طلب کو برقرار رکھ سکیں۔ اس کے خلاف اگر کوئی سماجی رجحان برنی سینڈرز کی صورت میں سامنے آیا بھی تو بڑی کارپوریشنز کے مفادات سے جڑی ڈیموکریٹک پارٹی کی مقتدرہ نے اس کا گلا گھونٹ دیا۔ اب بائیڈن کے لئے نیو لبرل ایجنڈے یعنی آزاد منڈی کی معیشت کو برقرار رکھنے میں کافی مشکلات کا سامنا ہوگا۔ ٹرمپ ازم کا مقابلہ کرنے کے لئے اسے بائیں بازو کی مدد کی ضرورت ہوگی اور وہ عالمی سطح پر جمہوری ایجنڈے اور ملکی سطح پر عوامی امنگوں کو بظاہر تشفی دینے پر مجبور ہوگا۔ البتہ جو تجارتی جنگ ٹرمپ نے چین کے خلاف شروع کی تھی وہ بائیڈن جاری تو رکھنا چاہتے ہیں لیکن چین نے پہلے سے ہی آسیان اور یورپین یونین کے ساتھ تجارتی معاہدے کر کے اس کا سدباب کرلیا ہے۔ دنیا پھر سے عالمگیریت کی جانب مراجعت تو کرے گی لیکن اس میں امریکی عالمی کارپوریشنز کی اجارہ داری قائم رکھنے کی کوششوں کو بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دولت کی عالمی اور مقامی غیر منصفانہ تقسیم، بڑھتی طبقاتی خلیج اور جدید سائنسی و تکنیکی و ابلاغی انقلاب کے بعد دنیا کا نقشہ بدلنے جارہاہے۔ اب پرانے اجارہ دارانہ سرمایہ دارانہ عالمی نظام کو پرانے، سامراجی طریقوں سے برقرار رکھنا مشکل ہوگا، جس کے نتیجے میں مختلف طرح کی انتہا پسند، فسطائی اور عالمی جمہوری سوشسلٹ تحریکیں جنم لیں گی۔ امریکہ میں فسطائی اور نیولبرل تقسیم بڑھتی جائے گی اور اس میں سے سماجی جمہوری تحریک کا کوئی نیا ورژن بھی برآمد ہوگا۔ اسی طرح دنیا بھر میں خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں نئی الٹ پلٹ ہوگی۔ لگتا ہے کہ 2021ء نئی حیران کن تبدیلیوں، بعض تباہیوں اور نئی عوامی تحریکوں کے ساتھ جلوہ گر ہوگا۔

تازہ ترین