• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں فارغ لوگ آج کل جمہوریت کے جنون میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ عوام کو تو غمِ روزگار سے فرصت نہیں لیکن آج کل کی سیاست میں جمہوریت ہو یا نہ ہو، اُس کا تڑکا بہت ضروری ہے۔ لوگ اپنے دوستوں کی وجہ سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ ایک زمانہ میں ہم بھی امریکہ کے دوست تھے، دوستی کے نام پر اُس نے ہمیں بہت نوازا بھی، ہمارے سابق وزیراعظم، جو ریکارڈ یافتہ بھی ہیں، آپ غلط سوچ رہے ہیں، اُن کا ریکارڈ ’’تیسری بار وزیراعظم بننا‘‘ ہے اور یہ کام صرف جمہوریت کے پردے میں ہو سکتا تھا، اُن کو مکمل طور پر امریکہ اور ان لوگوں کی آشیرباد حاصل تھی جو ہمارے ملک میں امریکہ کے زیر اثر ہیں، کچھ لوگ تو اُن کو اسٹیبلشمنٹ کا نام دیتے ہیں اور کچھ دوست ان کو حساس خیال کرتے ہیں۔ جب جنرل مشرف میاں نواز شریف (سابق وزیراعظم پاکستان) کی سپاہ کے کمان دار تھے تو اُس زمانے کا ذکر ہے کہ امریکہ کی یومِ جمہوریہ کے دن وزیراعظم پاکستان نے امریکی صدر سے ملنے کا جتن کیا اور اُن پر اپنی محبت نچھاور کی۔ کشمیر میں بھارت پھنس چکا تھا، ہمارا ہمسایہ مجبور تھا سو امریکہ نے اُس کی مدد بھی کی۔تیسری بار کے وزیراعظم میاں نواز شریف کا دورۂ امریکہ کامیاب رہا۔ فوج کو کشمیر کا خیال چھوڑنا پڑا، وزیراعظم پاکستان اپنے سپاہ سالار سے بدگمان ہو چکے تھے، جن دوستوں اور بھائیوں کے مشورہ پر اُس کو اہمیت دی گئی تھی اُن کو خبر نہ ہونے دی اور ایک نئے جنرل کو تمام اختیار بخش دیا۔ مشرف اُس دن سری لنکا سے واپس آ رہے تھے، اُن کو اندازہ ضرور تھا، کچھ قسمت کی بات تھی کہ امریکہ کو بھی اِس معاملہ کی خبر نہ ہو سکی مگر وہ پاکستان کی غیرجمہوری تبدیلی پر ردِعمل بھی نہ دے سکا البتہ اُس نے سعودی عرب کی معرفت میاں نواز شریف کی مدد ضرور کی اور میاں صاحب بھی امریکہ سے خوش ہی رہے۔ صدر کلنٹن نے مشرف کے ساتھ کوئی مناسب سلوک روا نہ رکھا اور پاکستان کے عوام کو بھی نظرانداز کیا۔

وقت نے کروٹ لی اور پاکستان میں جمہوریت کو لانے کے لئے بےنظیر کو قربان ہونا پڑا۔ پاکستان میں جمہوریت کا نظام چلتا نظر آ رہا تھا، بے نظیر کو بڑے مناسب طریقہ سے جمہوریت کے لئے قربان کر دیا گیا۔ پاکستان میں انتخابات کبھی بھی قابلِ اعتبار نہیں رہے مگر بین الاقوامی منصوبہ سازوں کے مطابق پاکستان میں جمہوریت رائج الوقت خرابیوں سے مبرا نہ تھی اور آج کی دنیا میں جمہوریت ہی کرپشن اور بدانتظامی کی ذمہ دار سمجھی جاتی ہے۔ پاکستان میں آئین میں تبدیلی کا عمل شروع ہوا اور عوام کے مفادات کو نظرانداز کیا۔ پیپلز پارٹی کے کنوینر جو محترمہ بےنظیر کی وصیت کے خالق بھی بتائے جاتے ہیں، اُنہوں نے پارٹی میں جمہوریت پر بین لگا دیا اور امریکی آشیر باد سے پاکستان کی افواج کو یقین دہانی کروا دی کہ وہ صدرِ پاکستان بن کر جمہوریت کی مکمل نگرانی کریں گے۔ اُنہوں نے بڑے طریقے سے چین کو باور کرایا کہ سی پیک منصوبہ پر وہ امریکہ کو بھی راضی کر لیں گے اور اُن کے زمانہ میں امریکہ نے سی پیک پر کوئی اعتراض بھی نہیں کیا بلکہ وہ صدر زرداری کے چین جانے کے دورہ سے خوش تھا کہ اندر کی خبر تو مل رہی ہے۔

پھر امریکہ میں بھی انتخابات ہوئے اور مشہور زمانہ دولت مند ٹرمپ صدر بن گئے۔ کیا کمال کے صدر ثابت ہوئے۔ کچھ عرصہ قبل جب دوسری بار میدان سجا تو اُن کے مقابلہ پر سابق نائب صدر جو بائیڈن نظر آئے، صدر ٹرمپ کو اپنی دولت پر بہت ناز ہے اور اُن کا سب سے بڑا ہتھیار ہی دولت ہے۔ اُن کو دولت کمانا آتا ہے پھر اُن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ سفید فام اکثریت کے صدر ہیں، اُن کے زمانہ میں سیاہ فام امریکی قابلِ احترام بھی نہ رہے، سفید فام امریکی پولیس نے امریکی بین الاقوامی کردار کو داغ دار کر دیا۔ شکر ہے پاکستان سے اُنہوں نے کوئی پنگا نہیں لیا اور اُس کی وجہ کپتان عمران خان کا رویہ اور زبان تھی۔ جو اُن کی زبان میں جواب دے سکتا تھا مگر پاکستان اور چین تعلقات پر وہ برہم اور بےچین ہی رہے۔ اُن کو اصل میں وبا نے شکست سے دو چار کیا۔ ابھی تک انہوں نے شکست کو مکمل تسلیم نہیں کیا اور اس وقت بھی واشنگٹن میں جنگی کیفیت پائی جاتی ہے۔

جس طرح پاکستان میں اعلیٰ عدالتی فیصلوں نے سابق وزیراعظم کو سیاست سے دستبردار کیا ایسے ہی امریکی عدالتوں نے ٹرمپ کو مکمل طاقت سے کسی قدر محروم رکھا مگر ان کی بدزبانی اور بدکلامی کا چرچہ ہوتا رہا اور انہوں نے امریکی میڈیا کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ ٹرمپ میڈیا کو خرید نہ سکا۔ امریکہ کا بین الاقوامی کردار حالیہ انتخابات کے بعد مشکوک ہو چکا ہے کچھ ایسا ہی حال ہمارے سیاسی اور جمہوری نظام کا ہے۔ جو معاملہ قومی اسمبلی میں طے ہونا چاہئے، وہ ہم باہر اور عوام کو نظرانداز کر کے حل کرنا چاہتے ہیں، پاکستان میں جمہوریت ناکام ثابت ہو چکی ہے اور غیب سے نئے نظام کی آوازیں آ رہی ہیں۔

تازہ ترین