• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا روم قونیہ کے بازار سے گزر رہے تھے۔ ایک مزدور زور زور سے دھات پر ضربیں لگا رہا تھا۔ ان ضربوں میں ایک خاص رِدھم تھا۔ مولانا کو اس رِدھم میں محبوب کے نام کی تکرار محسوس ہوئی۔ اُن پر وجد کی کیفیت طاری ہو گئی۔ وہ اپنی علمیت کے شملے کی پرواہ کئے بغیر بیچ بازار جھومنے لگے۔ وہ گول دائرے میں گھوم رہے تھے۔ اس دائرے میں پورا جہان تھا اور جہان کا خالق بھی۔ ان کی روح کائنات اور روحِ مطلق میں ضم ہو گئی تھی۔ روحانی سرشاری اور لطف کے باعث مولانا ہوائوں میں اُڑ رہے تھے۔ علم سے معرفت کی طرف آغاز کا یہی لمحہ تھا جسے انہوں نے پہچانا تو پھر شمس تبریزؒ انہیں عطا ہوئے جن کی صحبت نے انہیں مبلغ سے عاشق بنا دیا اور معرفت کے وہ راز افشا کئے جو انسانیت کا اثاثہ ہیں۔ آج رقصِ رومی پوری دنیا میں تصوف کی راہ پر چلنے والوں کی سانسوں سے بندھا ہے جو ذات کی دریافت سے شروع ہو کر کائنات کے خالق سے وصل کا سبب بنتا ہے۔ یہ استغراق کی ایک مشق ہے جہاں ساری توجہ ایک نقطے پر مرکوز کر کے ذات کو ذاتِ مطلق سے ہم آہنگ ہونے کا موقع عطا کیا جاتا ہے۔ تصوف استغراق کا دوسرا نام ہے۔ مختلف طریقوں اور وسیلوں سے استغراق کی منزل حاصل کی جاتی ہے۔ عموماً شروعات ذکر سے کی جاتی ہے۔ ایک ہی نام کا ورد معمول بنا کر سوچ کا زاویہ سیٹ کیا جاتا ہے۔ یہ نام مجازی بھی ہو سکتا ہے اور حقیقی بھی۔ قوالی بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

کسی قول اور بات کو بار بار دہرانا قوالی کہلاتا ہے۔ قوالی میں کئی راز پنہاں ہیں۔ سب سے پہلے بیٹھنے کا انداز درویشانہ ہے۔ طبلہ کی تھاپ روح کے در پر دستک ہے۔ تالی بجانے کا انداز کثرت سے وحدت کی طرف سفر ہے۔ یہ کسی ظاہری خوشی، کامیابی پر بجائی جانے والی تالی نہیں بلکہ دو کو ایک بنانے کی کاوش ہے۔ دونوں ہاتھ سیدھے ملائے جاتے ہیں اور رُخ اوپر کی جانب ہوتا ہے۔ تالی کی آواز میں روحانی سرور ہے جو خوابیدہ دل کو جگانے اور روح کی آواز سننے کی طرف مائل کرتا ہے۔

قوالی کی جائے پیدائش برصغیر ہے۔ عرب میں اسلامی کلام کو موسیقی خصوصاً ’دف‘ کے ساتھ پیش کیا جاتا رہا ہے۔ برصغیر کے صوفیاء کی خانقاہوں سے قوالی کی جڑت رہی ہے۔ اس کی ابتداء حضرت نظام الدین اولیاء کے مرید خاص حضرت امیر خسرو سے منسوب ہے جو کہ اپنے عہد کے قد آور شاعر اور موسیقی کے ماہر تھے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ برِّصغیر پاک و ہند میں قوالی کی بدولت اشاعتِ اسلام کا فریضہ سرانجام دیا گیا۔ صوفیاء نے برصغیر کے ماحول اور مزاج کے مطابق موسیقی کے ذریعے اسلامی اقدار اور صوفیانہ تعلیمات کو لوگوں تک پہنچایا۔ قوالی میں رنگ بھی ہے اور رس بھی۔ قوالی میں حمد و نعت، منقبت، عشقِ حقیقی و عشقِ مجازی کے مضامین کے علاوہ اب جدید شاعری بھی پیش کی جا رہی ہے۔ پاکستان کے نامور قوال نصرت فتح علی خان نے یورپ میں قوالی کو مقبول کیا۔ وہ لوگ جو ہماری زبان نہیں سمجھتے تھے وہ بھی قوالی کے ذریعے روحانیت کی طرف مائل ہوئے۔

پنجاب حکومت کی طرف سے وزیر ثقافت خیال احمد کاسترو نے صوبہ بھر میں قوالیوں کے انعقاد کے حوالے سے جو اعلان کیا اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے میں پرامید ہوں کہ ہم دوبارہ اپنی اصل کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ ہم پر جو جبری نظام عائد کر دیا گیا تھا وہ رفتہ رفتہ معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ پنجاب اپنے فنون، میلوں اور محافلِ سماع کے ذریعے دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی اقدار حاصل کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے جس سے ایک پرامن معاشرہ جنم لے گا۔

فنون سے دور جا کر ہم سب جس ذہنی اور فکری انتہا پسندی کا شکار ہو چکے ہیں اس سے نکلنے کے لئے ہمیں ثقافتی سرگرمیوں کو تیز تر کرنا ہو گا۔ قوالی ہماری اس زمین کی ایجاد ہے اس لئے یہ ہمارے وجود میں رچی بسی ہے۔ جس موسیقی کو روح کی غذا کہا جاتا ہے قوالی اسی قبیل کی سردار ہے۔ ہمارے بیشتر صوفیاء، جو دیگر علاقوں سے آئے تھے، نے اس علاقے کے لوگوں کی دلچسپیاں اور سرگرمیاں دیکھ کر اپنا نظامِ اخلاق مرتب کیا۔ زیادہ تر لوگ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے۔ صوفیاء نے تقریر اور نصیحت کی بجائے عارفانہ کلام کو قوالی کے ذریعے پیش کرنے کو پسند کیا جس سے لوگوں کی روحانی تسکین بھی ہوتی تھی اور وہ خیر کی قدروں سے بھی روشناس ہوتے تھے۔ قوالوں کا یہ بھی بڑا احسان کہ ان کے ذریعے بہت سے صوفیاء کا کلام سینہ بہ سینہ محفوظ ہوا اور آگے بڑھتا رہا۔ لوگوں کو تفریح کے موقع فراہم نہ کئے جائیں تو ان کے وجود کے اندر جمع آتش فشاں پھٹ جاتا ہے جو ان کی اپنی ذات کے علاوہ ماحول کو برباد کر دیتا ہے۔ انھیں خوشی میں قہقہہ لگانے اور غمی کے لمحات میں رونے کا موقع نہ ملے تو وہ نارمل انسان نہیں رہتے۔ وہ کنکر جو آنسوؤں کی راہ بہہ جاتے ہیں جمع ہو کر انسان کو پتھر دل بنا دیتے ہیں۔ ’چھاپ تلک‘، ’اے رے سکھی ری مورے خواجہ گھر آئے‘ سے لے کر ’بھر دو جھولی میری یامحمد‘، ’تاجدارِ حرم‘ اور ’تو کجا من کجا‘ سن کر وجود پر سرور کی جو کیفیت طاری ہوتی ہے وہ بیان نہیں کی جا سکتی اور یقیناً روحانی سرور انسان کو نیکی اور خیر کی جانب لے کر جاتا ہے۔

تازہ ترین