• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بالآخر انتظار گاہ میں بیٹھی حکمران جماعت کا پیمانہٴ صبر لبریز ہو گیا اور شہباز شریف کو باضابطہ تنبیہ جاری کرنا پڑی کہ ”نگران حدوں میں رہیں“۔ جمعہ کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”نگرانوں کی باگ ڈور اب بھی صدر زرداری کے ہاتھ ہے۔ تھوک کے حساب سے تقرریاں اور تبادلے ہو رہے ہیں۔ نگران وزیراعظم جس طرح افسروں کی اکھاڑ پچھاڑ کر رہے ہیں، اخلاقی طور پر اس کا کوئی جواز نہیں۔ اگر وہ باز نہ آئے تو ہم سخت رویہ اختیار کریں گے“۔ چوہدری نثار علی خان نے بھی ایک پریس کانفرنس کے ذریعے نگران وزیراعظم سے کہا کہ وہ صدر زرداری کے ہاتھوں میں نہ کھیلیں اور نئی حکومت کی آمد سے صرف چند دن قبل اہم عہدوں پر تقرریوں سے باز رہیں۔ چوہدری صاحب نے مزید کہا کہ تمام تقرریوں، تبادلوں اور ترقیوں کا ازسرنو جائزہ لیا جائے گا اور ضرورت پڑی تو عدلیہ کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا جائے گا۔ ایسی ہی پُرزور تنبیہ خواجہ آصف بھی جاری کر چکے ہیں لیکن نگرانوں کا نیلام گھر جوبن پر ہے۔ بولیاں لگ رہی ہیں، منصب بک رہے ہیں۔ ایوان صدر سے رشتہ و تعلق رکھنے والے من پسند نشیمنوں کا رخ کر رہے ہیں۔ کرپشن اور اقربا پروری کی لہر چل رہی ہے۔ جو دیانتدار افسر غلط حکم نہیں مان رہا، اسے راستے سے ہٹایا جا رہا ہے۔ موم کی ناک بننے والوں کو نوازا جا رہا ہے۔ کارپوریشنوں، سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں بیٹھے چہیتوں یا پشت پر دست شفقت رکھنے والوں کو اپ گریڈ کیا جا رہا ہے۔ قاعدہ، قانون، اہلیت، صلاحیت، میرٹ سب حرف غلط۔ ایک بے ننگ و نام سرکس جاری ہے اور آنے والی حکومت کی راہوں میں کانٹے بوئے جا رہے ہیں۔
اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بطن سے پھوٹنے والی پہلی نگران حکومت یقیناً اس معیارِ مطلوب پر پوری نہیں اتری جس کی اس سے توقع کی جا رہی تھی یا جو اس کا جوازِ تخلیق تھا۔ میر ہزار خان کھوسو نے وزارت عظمیٰ کی ریشمی چادر اوڑھی اور وزیراعظم ہاؤس کی ایک آراستہ پیراستہ خواب گاہ میں گہری نیند سو گئے۔ آنکھ کھلی تو پہلا کام یہ کیا کہ بلوچستان حکومت میں ملازم اپنے صاحبزادے کی فائل منگوائی جو گریڈ سترہ میں کام کر رہا تھا، اسے فراواں مراعات کے ساتھ نیشنل ہائی وے اتھارٹی میں گریڈ اٹھارہ پر لانے کا فرمان جاری کیا۔ عالی مرتبت شفقت حسین کھوسو نے ایک دن گریڈ اٹھارہ کے منصب کا چارج سنبھالا اور اگلے دن انہیں گریڈ انیّس کے منصب بلند پر کام تفویض کر دیا گیا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اتنی بڑی بے ضابطگی اور اقربا پروری کے خلاف آواز اٹھائی لیکن اس نقار خانے میں ایسی طوطیوں کی کون سنتا ہے۔ یہ صاف ستھرے انتخابات کے لئے قائم کی گئی اجلی اور بے داغ نگران حکومت کا آغاز سفر تھا۔ کابینہ اور بیوروکریسی کو واضح پیغام مل گیا کہ نگرانوں کے عزائم کیا ہیں سو ایک دبستان کھل گیا اور عہدوں کی چھینا جھپٹی شروع ہو گئی۔
ہفتہ بھر قبل صنعت کے سابق وفاقی سیکرٹری شفقت نغمی سپریم کورٹ پہنچے اور زنجیر عدل ہلاتے ہوئے فریاد کی کہ انہیں راتوں رات اپنے منصب سے ہٹا کر ایک ایسے شخص کو وفاقی سیکرٹری لگا دیا گیا جس کے پَر جھڑ چکے تھے اور جو ریٹائرمنٹ کی دہلیز پر کھڑا تھا۔ شفقت نغمی نے اپنی پٹیشن میں وجہ یہ بتائی کہ نگران، یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کے لئے اسلام آباد میں ایک ارب پچھتر کروڑ روپے مالیت کی ایک عمارت خریدنے کے لئے بے تاب ہیں۔ یہ ڈیل دو دفعہ پہلے بھی ایجنڈے پر لائی گئی لیکن بورڈ نے منظوری نہ دی۔ اب پھر اجلاس بلایا گیا اس ڈیل کو تیسری بار ایجنڈے پر رکھا گیا۔ میٹنگ سے ایک دن قبل شفقت نغمی کو تبدیل کر دیا گیا جو اس ڈیل کی مزاحمت کر رہے تھے۔ اگلے دن انہیں اجلاس میں بھی نہ بیٹھنے دیا گیا۔ دو تین دن قبل کامران خان نے اپنے شو میں چونکا دینے والی تفصیل کے ساتھ بتایا کہ نگرانوں نے اسلام آباد میں کیسا بے ننگ و نام سرکس لگا رکھا ہے۔ کامران خان کا کہنا تھا ”نگران حکومت کچھ ایسے فیصلے کر رہی ہے جو آنے والی حکومت کا ناک میں دم کر دیں گے۔ آنے والی حکومت کے لئے جو فیصلے پریشانی کا باعث بنیں گے ان میں ایک فیصلہ اس وقت زیر غور ہے جس کے ذریعے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی آڑ میں منافع خور ادویات کی قیمتوں کے نئے فارمولے کو حتمی شکل دے رہے ہیں۔ اس فارمولے کے تحت لاگت کے علاوہ 550 فیصد منافع وصول کیا جائے گا۔ ایسے فیصلے کی نظیر پوری دنیا میں نہیں ملتی۔ اس فارمولے کے اطلاق سے75 فیصد ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو جائے گا۔ مجوزہ فارمولے کی حمایت کرنے والوں میں ایک سینیٹر کردار ادا کر رہے ہیں جن کا تعلق فارماسوٹیکل انڈسٹری سے ہے۔ اسی قسم کے درجنوں اور فیصلے کئے جا رہے ہیں جن کی اس وقت قطعاً کوئی گنجائش نہیں“۔
ہفتہ کو شائع ہونے والی انصار عباسی کی رپورٹ میں بھی چشم کشا انکشافات کئے گئے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ”ایک طرف عوام نے مینڈیٹ دے دیا ہے اور نئی حکومت دو ہفتوں کے اندر اندر اقتدار سنبھال لے گی لیکن نگران حکومت نہ صرف چند بڑے بڑے منصوبوں پر دستخط کر رہی ہے بلکہ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کے متنازع من پسند افراد کو وفاقی ٹیکس محتسب اور وفاقی محتسب مقرر کر رہی ہے۔ یہ دونوں عہدے متعینہ آئینی میعاد والے ہیں۔ موجودہ وفاقی ٹیکس محتسب اپنے عہدے کی میعاد مکمل کرنے والے ہیں لیکن یہ عہد ایک متنازع شخص کو پیپلز پارٹی حکومت کی خدمات کے عوض بطور انعام پیش کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح عارضی وفاقی محتسب کو بھی باقاعدہ محتسب کے طور پر لگایا جا رہا ہے۔ نگران حکومت نے متنازع انداز میں چیئرمین نیپرا کا تقرر بھی کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے ایک من پسند شخص کو سیکرٹری داخلہ لگا دیا گیا ہے۔ وزیراعظم کھوسو تین اہم بیوروکریٹس کے ذریعے ایوان صدر کے مکمل کنٹرول میں ہیں۔ ڈیڑھ سو ملین ڈالرز مالیت کے جی او ٹی اے پروجیکٹ کی مفاہمتی یادداشت پر دستخط کرنے سے انکار کرنے پر جمعہ کو وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دو ممبران عامر ملک اور کامران علی کو کوئی وجہ بتائے بغیر ہٹا دیا گیا، دونوں اس اقدام کی مخالفت کر رہے تھے۔ چیف کمشنر طارق پیر زادہ کو حال ہی میں عہدے سے ہٹا دیا گیاکیونکہ انہوں نے وزیراعظم سیکرٹریٹ کی بااثر شخصیت کو شراب فروشی کا لائسنس دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر عامر احمد علی بھی اسی جرم کی سزا پا چکے ہیں“۔
اگر تفصیلات بیان کی جائیں تو شاید اتنے کئی کالم ناکافی ہوں۔ نگرانوں نے صاف شفاف انتخابات کے تقاضوں کی آبیاری کے سوا ہر وہ کام کیا جو کوچہ و بازار کے طفلانِ خود معاملہ کیا کرتے ہیں یا چند روزہ اقتدار سے ہم آغوش ہو جانے والے فرزندان حرص و ہوس کا شیوہ ہوا کرتا ہے۔ میر ہزار خان کھوسو نے اس پیرانہ سالی میں اپنی عزت و توقیر بڑھانے کے بجائے پیپلزپارٹی کے سانچے میں ڈھلے ایک بے چہرہ شخص کا کردار ادا کیا۔ وہ صدر زرداری کا انتخاب تھے، انہوں نے اپنی کابینہ کے ارکان چنتے وقت بھی صدر زرداری کی توثیق ضروری سمجھی۔ کابینہ میں کچھ نیک نام لوگ بھی تھے لیکن وہ بھی یا تو اس حمام میں بے لباس ہو گئے یا چپ سادھ لینے میں عافیت سمجھی۔ یہ نگران بندوبست عملاً پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ حکمرانی کا تسلسل ثابت ہوا اور اس کے لچھن بھی وہی رہے جو پی پی پی کی بدعنوان حکومت کا طرہٴ امتیاز تھے۔ ہر وزارت میں ایک نہ ایک اسکینڈل موجود ہے اور ہر تقرری یا تبادلے کے پس منظر میں ایک متعفن کہانی کروٹیں لے رہی ہے۔ کتنی شرمناک بات ہے کہ چند روزہ اقتدار کا حامل نگران وزیراعظم توہین عدالت میں مطلوب ہے۔
معلوم نہیں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی تنبیہ کتنی کارگر ثابت ہوتی ہے لیکن نواز شریف نیک نام افراد کی ایک کمیٹی قائم کریں۔ یہ کمیٹی روز اول سے روز آخر تک نگرانوں کی تقرریوں، تبادلوں، ترقیوں، نوازشات، بے جا ٹھیکوں، معاہدوں، اقربا پروری اور بد عنوانیوں کا جائزہ لے۔ بدمست ہو جانے والے بیوروکریٹس کا محاسبہ کرے اور ایک شفاف نظام یا عدالتی کارروائی کے ذریعے ان کی گردنیں دبوچے تاکہ آئندہ آنے والے نگرانوں کو نصیحت ہو۔ وہ فاتحین کی طرح مال غنیمت سمیٹنے، حلوائی کی دکان پر نانا جی کی فاتحہ پڑھنے اور اس طرح کے حیا باختہ نیلام گھر سجا کر بولیاں لگانے کی جسارت نہ کر سکیں۔
تازہ ترین