• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان پیپلزپارٹی کو تین صوبوں میں ووٹ کیوں نہیں ملے؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی ایک بڑی اور مقبول سیاسی جماعت ہے۔ اس کی حیثیت پاکستان میں ایسی ہے جیسی بھارت میں کانگریس اور بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کی ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی اس طرح کی سیاسی جماعتیں موجود ہوتی ہیں جو ہر ملک کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جدوجہد میں عوام کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرتی ہیں اور جن کا بنیادی جوہر عوامی سیاست ہوتا ہے۔ 11 مئی2013ء کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی سندھ کے سوا دیگر تین صوبوں میں نشستیں حاصل نہیں کر سکی ہے۔ یہ پاکستان کی سیاست میں معمولی واقعہ نہیں ہے، اس کے اسباب کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔
یہ کہنا کسی بھی طرح درست نہیں ہو گا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کو شکست ہو گئی ہے یا پاکستان کے عوام نے اسے مسترد کر دیا ہے۔ ایسی رائے صرف وہ لوگ قائم کررہے ہیں جو انتخابی نتائج کی بنیاد پر اپنے تجزیئے کی عمارت کھڑی کرتے ہیں حالانکہ پاکستان میں ہونے والے بیشتر عام انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے شکوک و شبہات وقت گزرنے کے ساتھ گہرے ہوتے گئے۔ 11 مئی کے انتخابات کی شفافیت پر بھی کئی سوالات کئے جا رہے ہیں۔ اس کے باوجود یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ پاکستان کے عوام نے پیپلزپارٹی کو بھرپور مینڈیٹ دیا ہے لیکن کچھ ایسے عوامل بھی ہیں جن کا ادراک کرنا چاہئے۔
پہلی مرتبہ ایسا نہیں ہوا ہے کہ پیپلزپارٹی کو کم نشستیں ملی ہیں یا مسلم لیگ (ن) کو واضح اکثریت حاصل ہوئی ہے۔ 1997ء کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کو پورے ملک سے قومی اسمبلی کی صرف 16 نشستیں حاصل ہوئی تھیں اور اُس وقت بھی یہی کہا جا رہا تھا کہ عوام نے پیپلزپارٹی کو مسترد کر دیا ہے اور یہ پارٹی اب دوبارہ اپنے آپ کو بحال نہیں کر سکے گی۔ انہی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت ملی تھی اور سیاسی تجزیہ نگاروں کی یہ رائے تھی کہ مسلم لیگ (ن) ہی اب پاکستان کا مستقبل ہے لیکن 2002ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے اپنا وجود بھی ثابت نہ کر سکی۔ اس مرحلے پر بعض لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ اب اس پارٹی کا وجود ختم ہو گیا ہے لیکن وقت نے یہ ثابت کیا کہ انتخابی نتائج کی بنیاد پر جو بھی آراء قائم کی گئیں وہ بعدازاں غلط ثابت ہوئیں کیونکہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں عام انتخابات ایسے ہی ہوتے ہیں جن میں غیر جمہوری قوتیں اور عالمی طاقتیں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کا ایک میکانزم تشکیل دے چکی ہیں لہٰذا یہ کہنا بھی مناسب نہیں ہو گا کہ عوام نے پاکستان پیپلزپارٹی کو ہمیشہ کے لئے مسترد کر دیا ہے اور مسلم لیگ (ن) حزب اقتدار کی جماعت اور تحریک انصاف اپوزیشن کی سیاسی جماعت کی حیثیت سے پاکستان کی سیاست پر غالب آچکی ہیں۔ بھارت میں بھی کانگریس کو کئی مرتبہ اسی طرح کے انتخابی نتائج کا سامنا کرنا پڑا‘ جس طرح پاکستان پیپلزپارٹی کو اس وقت کرنا پڑا ہے لیکن کانگریس اور پیپلزپارٹی جیسی سیاسی جماعتیں ایک ایسا ادارہ ہیں جن کی ملکوں کو بحرانوں میں شدید ضرورت پڑتی ہے۔
اب آتے ہیں عوام کی طرف جن کی وجہ سے پیپلزپارٹی کو تین صوبوں میں توقع کے مطابق نشستیں نہیں ملی ہیں۔ ہر دوسرے شخص کی یہ رائے ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کی خراب کارکردگی کی وجہ سے لوگوں نے اُسے ووٹ نہیں دیئے، یہ دلیل انتہائی کمزور ہے اگر حکومت کی خراب کارکردگی عوام کے غم و غصے کا سبب بنتی تو پیپلز پارٹی کو سندھ میں پہلے سے زیادہ ووٹ اور نشستیں نہ ملتیں۔ یہ اور بات ہے کہ ان نشستوں کو کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حکومتی کارکردگی والی دلیل کو مان لیا جائے تو جنوبی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو ایک بھی نشست نہ ملتی کیونکہ اس خطے کے لوگ پنجاب حکومت سے واضح طور پر نالاں ہیں اور اپنی پسماندگی اور غربت کا ذمہ دار مسلم لیگ (ن) کو قرار دیتے ہیں۔ ادھر سندھ میں متحدہ قومی موومنٹ کو بھی نشستیں نہ ملتیں کیونکہ وہ بھی طویل عرصے سے حکومت میں شامل رہی ہے لہٰذا یہ دلیل بہت سطحی ہے۔ پیپلز پارٹی کو نشستیں نہ ملنے کے کچھ دیگر اسباب اور عوامل ہیں جن کا تعلق خالصتاً پاکستان پیپلز پارٹی کی اپنی پالیسیوں اور حکمت عملیوں سے ہے۔ پہلا اور بنیادی سبب یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کا اپنے تاسیسی منشور کے اس اہم نکتے پر یقین ختم ہوگیا ہے کہ ”طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں“ جس پیپلز پارٹی سے اسٹیبلشمنٹ خوفزدہ تھی‘ اُس پیپلز پارٹی کی اصل شناخت عوامی سیاست تھی۔ اب پیپلز پارٹی نے اپنے ”عوامی دانت“ نکال دیئے ہیں‘ جس کی وجہ سے اُس کا خوف ختم ہوگیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے کچھ عرصے سے مظلوم طبقات‘ گروہوں اور قومیتوں کے مسائل پر ویسی جارحانہ سیاست ترک کردی ہے جو اُس کا خاصا تھی۔ عوامی اور قومی جمہوری سیاست کے تضادات سے اُس نے اپنے آپ کو لاتعلق کر دیا ہے جن کی وجہ سے پیپلز پارٹی اور عوام کا تعلق تھا۔ مفاہمت کی سیاست نے پیپلز پارٹی کا ”سامراج مخالف“ کردار کسی حد تک ختم کر دیا ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے مخالفین نسلی‘ لسانی اور فرقہ وارانہ جذبات کو بھڑکا کر مختلف طبقات اور گروہوں کی جارحانہ حمایت کے حصول کی سیاست کررہے ہیں۔ دوسرا اہم سبب یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے اپنے کارکنوں کو سیاست میں خود غیر اہم بنا دیا ہے اور پارٹی پر اُن لوگوں کو مسلط کردیا ہے جن کا نہ پارٹی سے کبھی تعلق رہا اور نہ ہی وہ اس بات سے واقف ہیں کہ پارٹی اور عوام کے درمیان رشتہ کیونکر بنا اور اس رشتے کو کیسے قائم رکھا جاسکتا ہے۔ سیاسی دانش سے عاری ”پاور بروکرز“ اور پارٹی کے اندر ایک کلب تشکیل دینے والے لوگ پارٹی کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔ بعض لوگوں کی کرپشن بھی انتہائی تشویشناک ہے۔ وہ پاکستان کے عوام کی اجتماعی دانش سے ناواقف ہیں‘ وہ پاکستانی سماج کے تضادات‘ تہذیبوں‘ ثقافتوں‘ تاریخ اور عوام کی سامراج دشمن نفسیات سے قطعی طور پر نابلد ہیں۔ تیسرا اہم سبب یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے ملکی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کی نئی حکمت عملی کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار نہیں کیا ہے۔ وہ حکمت عملی یہ ہے کہ دنیا بھر خصوصاً ترقی پذیر ممالک کی حقیقی جمہوری قوتوں کو دہشت گردی کے ذریعہ کچل دیا جائے اور ان کے خلاف جنگی بنیاد پر پروپیگنڈہ کر کے مصنوعی سیاسی قوتوں کو مقبول سیاسی قوتیں بنا کر سامنے لایا جائے۔ مصنوعی انقلابات برپا کئے جائیں یا اپنی مرضی کا مخصوص ”جمہوری انتظام“ کیا جائے۔ اس کے لئے طاقت اور دولت کا بھی استعمال کیا جائے۔ تیسری دنیا کی تمام حقیقی جمہوری قوتوں کو بھی اس حکمت عملی کا سامنا ہے اور وہ اس کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنی حکمت عملی ترتیب دے رہی ہیں لیکن پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت یہ محسوس کررہی ہے کہ ان قوتوں کی بے رحمانہ طاقت کا مقابلہ آسان نہیں ہے اور خاص طور پر اس خطے میں ممکنہ ایک بڑے گیم کے پیش نظر کچھ عرصے تک کوئی محاذ نہیں کھولنا چاہئے۔
مذکورہ بالا تینوں اسباب پر سنجیدگی سے اور فوری غور و خوض کی ضرورت ہے۔ پیپلز پارٹی کو ایک بار پھر عوامی طاقت پر اپنا یقین بحال کرنا ہوگا۔ پارٹی کے سینئر اور قربانیاں دینے والے کارکنوں کو اہمیت دینا ہوگی اور ملکی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کے پیدا کردہ خوفناک حالات میں پارٹی اور عوام کے درمیان رابطے بہتر بنانے اور حقیقی عوامی قومی جمہوری سیاست کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ پارٹی کے پرانے اور سینئر عہدیداروں کی رائے کو اہمیت دینا ہوگی۔ مفاہمت کی سیاست ضرور کی جائے لیکن اس مفاہمت کے ذریعے فسطائی اور سامراج نواز سیاست کے خلاف عوام کی جدوجہد کو غیر موٴثر بنانے سے گریز کیا جائے۔ اس مرحلے پر سندھ میں (اگر پیپلز پارٹی کو حکومت بنانے دی جاتی ہے تو) وزیراعلیٰ اور کابینہ کے انتخاب میں بہت سوچ سمجھ کر فیصلے کرنا ہوں گے۔ پارٹی کارکنوں اور عوام کی دانش کی بنیاد پر پارٹی کی حکمت عملی ازسرنو ترتیب دینا ہو گی اور پارٹی کے اندر سیاسی بحث کو دوبارہ رواج دینا ہو گا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ عوامی سیاست سے پسپائی سے دہشت گردی کے خطرات میں اضافہ ہوگا‘ کمی نہیں اور پاکستان مصنوعی سیاسی اور جمہوری انتظام کی طرف بڑھے گا‘ بحرانوں سے نہیں نکل سکے گا۔
تازہ ترین