• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ روز میں نے ایک غیر ملکی میڈیا چینل پر اُردو زبان میں دکھائی جانے والی ڈاکیومینٹری فلم دیکھی جو اسلام آباد کے نواحی علاقہ میں رہنے والے ایک ایسے خواجہ سرا کے متعلق تھی جس نے ناچ گانا اور دوسرے ایسے معالات جو عموماً اس کمیونٹی کے ساتھ جڑ چکے ہیں اور جو گناہ کے کام ہیں، اُن سب کو چھوڑ کر خواجہ سراؤں کے لیے ایک مدرسہ کھولا، جہاں اُنہیں قرآن کی تعلیم دی جاتی ہے، اسلام سے جوڑا جاتا ہے اور گناہ و ناچ گانے کے کاموں سے دور رہنے کی تلقین کی جاتی ہے۔

میں نے کچھ ایسی وڈیوز بھی دیکھیں جن میں کچھ خواجہ سرا اسلام کی تبلیغ کرتے دکھائی دیے اور دوسروں کو دین کی طرف بلانے اور گناہ کے کاموں سے روکنے کی ویسی ہی تعلیم دے رہے ہیں جیسی تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد عموماً دیتے ہیں۔ مجھے یہ دونوں وڈیوز دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کیوں کہ یہ ہمارے معاشرے کا وہ طبقہ ہے جس کے بارے میں نہ ریاست اپنی ذمہ داری پوری کر رہی ہے، نہ معاشرہ اور نہ ہی پاکستان کا دینی طبقہ۔ میں نے پہلی وڈیو دیکھ کر پاکستان کے ایک اہم مفتی صاحب سے رابطہ کیا، اُنہیں وہ وڈیو بھیجی جس میں ایک خواجہ سرا کو مدرسہ میں دینی تعلیم دیتے دکھایا گیا ہے اور جس میں پڑھنے والے بھی تمام خواجہ سرا ہی ہیں۔ میں نے مفتی صاحب سے سوال کیا کہ ریاست اور معاشرہ نے اس مخصوص طبقہ کے ساتھ جو سلوک روا رکھا ہوا ہے، اُس نے اُنہیں ایک ایسی زندگی گزرانے پر مجبور کر دیا جس کا تعلق گناہ اور ناچ گانے سے ہے۔

میں نے مفتی صاحب سے یہ بھی پوچھا کہ اگر ایک خواجہ سرا اس گناہ کی زندگی کو چھوڑ کر نیکی کے کام اور اسلام سیکھنے اور سکھانے کے لیے مدرسہ کھولتا ہے اور اُس کا اصل مقصد اپنے طبقہ کی ہی تبلیغ ہو تو کیا یہ ذمہ داری ہمارے دینی طبقہ کی نہیں کہ وہ بھی اس مسئلہ کے بارے میں سوچے۔

اگر اسلامی سکول اور مدرسے بچوں، بچیوں یا مردوں اور عورتوں کے لیے علیحدہ علیحدہ کھولے جا سکتے ہیں تو خواجہ سرا کی دینی تربیت اور اصلاح کے لیے کیوں نہ کوئی مدرسہ کھولا گیا اور نہ ہی کوئی اور نظام بنایا گیا؟ اگر ماضی میں ایسا نہیں ہوا تو کیا اس بارے میں اب کچھ کیا جا سکتا ہے؟ مفتی صاحب نے مجھ سے کہا کہ وہ وڈیو دیکھ کر اور معاملہ کے تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد مجھے اس بارے میں جواب دیں گے۔

اس کالم کے ذریعے میں یہی سوال اسلامی سکالرز، تبلیغی جماعت کے ارکان اور مفتی حضرات کے سامنے رکھتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اس بارے میں سوچ بچار کی جائے گی تاکہ ایک حکمت عملی کے ذریعے معاشرہ کے دوسرے افراد کی طرح خواجہ سرا کمیونٹی کے ارکان کی اصلاح اور تبلیغ کے لیے بھی منظم طریقہ سے کام شروع کیا جا سکے۔

جو کچھ اس طبقہ کے ساتھ اس وقت ہو رہا ہے، جس طرح ایک خاص سوچ اور مائنڈ سیٹ ہمارے معاشرہ کا بن چکا ہے کہ خواجہ سرا کا تو کام ہی یہی ہے، اسے بدلنے کی ضرورت ہے کیوں کہ اس سے نہ صرف گناہ اور بُرائی پھیلتی ہے بلکہ بحیثیت معاشرہ ہم خواجہ سرائوں کو ایسی زندگی گزرانے پر مجبور کرتے ہیں جو اُن کے لیے بھی اچھی نہیں اور معاشرہ کو بھی آلودہ کرتی ہے۔

علماء حضرات اور دینی طبقہ کے علاوہ ریاست اور معاشرے کو بھی اس طبقہ کے لیے ایسے حالات مہیا کرنے چاہئیں جن میں وہ بہتر، باعزت اور عام انسان کی طرح زندگی گزار سکیں اور اُنہیں ایسے ماحول کا سامنا نہ ہو کہ اُن کے لیے بُرائی اور گناہ والی زندگی گزارنے کے علاوہ کوئی آپشن ہی نہ چھوڑا جائے۔ سرکاری نوکریوں کے علاوہ، خواجہ سراؤں کو اُن کی تعلیمی قابلیت کو دیکھتے ہوے نجی شعبہ میں نوکریاں دی جائیں، مختلف ہنر سکھائے جائیں تاکہ وہ حلال طریقے سے اپنا رزق کما سکیں۔

یہ وہ طبقہ ہے جس پر ہمیں خصوصی توجہ دینی چاہیے نہ کہ اُن کے ساتھ وہ سلوک روا رکھا جائے جس کا اُنہیں اس وقت سامنا ہے۔موجودہ بگاڑ میں ہماری ریاست، ہمارا معاشرہ اور ہمارا دینی طبقہ سب کا برابر کا حصہ ہے، اس لیے اس بگاڑ اور خرابی کو بھی ٹھیک کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے جس سے ہم بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین