• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روحانیت سے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر یہ ’’رہونیت‘‘توہم پرستی کا دوسرا نام ہے۔ بیشتر حکمراں اقتدار کھو جانے کے خوف سے ’’رہونیت‘‘ پر ایمان لاتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ان تمام تدبیروں کے باوجود ان کے پیشرو فرمانرواکرسی نہیں بچاپائے۔

فرانسیسی رہنما نپولین جس کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ وہ اپنی تقدیر خود تحریر کرنے کا قائل تھا، وہ بھی اس قدر تو ہم پرست تھا کہ اس نے مستقبل کا حال بتانے والے ایک نجومی کے کہنے پر اپنا نام تبدیل کرکے نپولین بونا پارٹ رکھا۔ مغل بادشاہوں کے دربار میں ستارہ شناسوں اور جوتشیوں کو بہت اہمیت حاصل رہی۔

بادشاہ سلامت کب دربار میں تشریف لائیں گے اور کب تک محل میں قیام کریں گے، دربار میں داخل ہوتے وقت دایاں پاؤں پہلے رکھنا ہے یا بایاں، شکار کے لئے نکلنے کا موزوں وقت کونسا ہے، کس روز کس رنگ کا لباس زیب تن کرنا مناسب رہے گا، فتوحات کی غرض سے لشکر کشی کرنی ہو تو کب سفر شروع کیا جائے، یہ سب تفصیلات، قیافہ شناس اور علم نجوم پر دسترس رکھنے والے وہ درباری طے کیا کرتے جنہیں بادشاہ سلامت کی قربت حاصل ہوتی۔

امریکی تاریخ دان آڈری ٹرشکی جنہوں نے ’’اورنگ زیب :دا مین اینڈ مِتھ‘‘نامی کتاب میں مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے حوالے سے بہت سی غلط فہمیوں کا پردہ چاک کیا ہے، وہ لکھتی ہیں کہ اورنگ زیب کے دربار میں ہندو اور مسلمان دونوں قسم کے نجومی موجود ہوتے اور وہ ان کے مشوروں کی روشنی میں معمولات زندگی ترتیب دیا کرتے تھے۔

ایک بار وہ جنوبی ہند میں قیام پذیر تھے تو سیلاب آگیا اور یہ خدشہ پیدا ہوگیا کہ شاید ان کی شاہی قیام گاہ بھی زیر آب آجائے ۔

اورنگ زیب نے اپنے درباریوں کے مشورے سے ایک تعویز لکھ کر پانی میں ڈال دیا اور طغیانی کا سلسلہ تھم گیا۔ لیکن کوئی بھی جوتشی، نجومی یا ستارہ شناس ان کے اقتدار کو برقرار نہیں رکھ پایا اور یہ سب حکمراں مہلت ختم ہو جانے پر رُخصت ہوگئے۔

ہمارے ہاں بھی اہل اقتدار کا ’’رہونیت‘‘کی طرف مائل ہونا کوئی نئی بات نہیں۔ مانسہرہ میں ایک قصبہ ہے ’’لساں نواب‘‘ یہاں سے سات کلومیٹر کے فاصلے پر ایک پہنچے ہوئے بزرگ کا آستانہ ہے جن کا نام تو رحمت ﷲ دیوانا بابا تھا، انہیں بابا نانگا بھی کہا جاتا تھا مگر انہیں بابا دھنکا کے نام سے شہرت حاصل ہوئی سب سے پہلے ظفر ﷲ جمالی کی والدہ یہاں تشریف لائیں اس کے بعد ظفر ﷲ جمالی نے بابا دھنکا کے ہاتھوں پر بیعت کی۔

بابا دھنکا ایک چھڑی لے کر بیٹھتے تھے اور عقیدت مندوں کا تصور یہ تھا کہ جسے چھڑی لگ جاتی ہے اس کی دنیا و آخرت سنور جاتی ہے۔

جمالی نے یہاں آ کر چھڑیاں کھائیں تو جلد یا بدیر وہ وزیراعظم بن گئے ان کے متعارف کرانے پر نواز شریف نے بابا دھنکا کی زیارت کی اور چھڑیاں کھا کر دوبارہ وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوگئے۔ ان کی دیکھا دیکھی بینظیر بھٹو بھی چھڑیاں کھانے جا پہنچیں۔

نواز شریف نے بابا دھنکا کے آستانے پر ہیلی پیڈ بنوایا اور قصبہ ’’لساں نواب‘‘ سے ان کی درگاہ تک تنگ و تاریک راستے کو پختہ سڑک میں تبدیل کرنے کیلئے تین کروڑ روپے کی گرانٹ جاری کی۔ اس دوران میاں صاحب کی حکومت رخصت ہو گئی تو محترمہ نے یہ منصوبہ مکمل کرایا۔

میاں صاحب کے داماد کیپٹن صفدر بھی بابا دھنکا کے مریدوں میں شامل تھے سابق وزیراعظم غلام مصطفیٰ جتوئی بھی دوبارہ وزیراعظم بننے کی چاہ میں چھڑیاں کھانے جا پہنچے مگر ان کی خواہش پوری ہونے سے پہلے ہی بابا دھنکا دار فانی سے کوچ کر گئے۔

مستقبل کا حال جاننے کیلئے جوتشیوں اور نجومیوں کا سہارا لینا ہر دور کے حکمرانوں کا محبوب ترین مشغلہ رہا ہے۔ اپنے کل کے بارے میں جاننے کا اشتیاق اس اندیشے اور خوف کی کوکھ سے جنم لیتا ہے کہ کہیں ان کا تاج و تخت چھن نہ جائے‘ ان کے اقتدار پر کوئی قبضہ نہ کر لے‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ قتل کر دیئے جائیں یا جلا وطن ہونا پڑے۔

پرانے زمانے کے بادشاہ فال نکلواتے تھے‘ زائچے بنواتے تھے‘ کاہنوں اور جوتشیوں سے صلاح مشورے کیا کرتے تھے آج بھی کوئی حکمراں تعویز باندھتا ہے، کوئی امام ضامن پر بھروسہ کرتا ہے، کوئی اپنے پیر صاحب سے مشورہ کرتا ہے۔

آصف زرداری ایوان صدر کے مکین تھے تو پیر اعجاز شاہ انہیں ہر قسم کی بلاؤں اور آفتوں سے بچانے کے لئے کوشاں رہتے۔ایک بار زرداری صاحب کراچی گئے اور پھر کئی ہفتے وہیں مقیم رہے۔ چہ مگوئیاں ہونے لگیں کہ اسلام آباد سے طویل عرصہ دور رہنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے ۔

معلوم ہوا کہ جناب صدر زلزلے کے خوف یا سیاسی جوار بھاٹا کے اندیشوں کے باعث کراچی نہیں گئے بلکہ پیر اعجاز شاہ نے پہاڑیوں سے نازل ہوتی مصیبتوں کو دیکھ لیا تھا اسلئے صدر مملکت کو مشورہ دیا گیا کہ وہ کچھ عرصہ پہاڑوں سے دور قیام کریں۔

یوسف رضا گیلانی کے بعد راجہ پرویز اشرف وزیراعظم بنے تو وہ اپنے ساتھ پیر عبدالمجید خان کو لے آئے اور نااہلی سے بچانے کا کریڈٹ انہی کو دیا جاتا ہے۔

ہم سب کا کپتان تو بچپن سے ہی’’رہونیت‘‘کی طرف مائل ہے۔ کرکٹ کھیلتے وقت کپتان لاہور کے نواحی گاؤں میں ’’بابا جھلا‘‘کی بات نہیں ٹالتے تھے۔پھر ان کی زندگی میں ایک اور بزرگ میاں بشیر آئے۔ سیاسی سفر کا آغاز ہوا تو انواع و اقسام کے پیروں پر انحصار بڑھ گیا۔ مگر 2015ء میں ان کی زندگی نے ایک نیا موڑ لیا۔

لودھراں میں این اے 154کے ضمنی انتخابات میں ایک شخصیت نے جہانگیر ترین کی کامیابی کی بشارت دی اور پھر ویسا ہی ہوا تو وہ اس شخصیت کے عقیدت مندوں میں شامل ہوگئے۔ پاناما لیکس کی سماعت کا سلسلہ آخری نہج پر تھا تو اسی شخصیت نے مشورہ دیا کہ میدانی علاقے سے دور پہاڑوں پر بسیرا کرو۔

چنانچہ کپتان نتھیا گلی ریسٹ ہاؤس منتقل ہوگئے اور تب تک نیچے نہ اُترے جب تک سیاسی مخالفین کو شکست نہ ہوگئی۔اب اسی شخصیت نے کہا تھا، چاہے کچھ بھی ہوجائے، مردہ شخص کے پاس نہ جانا ورنہ اقتدار کا سنگھاسن ڈول جائے گا۔ لوگ نہ جانے کیا کیا چہ مگوئیاں کرتے رہے مگر کوئی انہیں یہ نہیں بتا سکا ’’اِٹ اِز رہونیت ایڈیٹ ۔‘‘

تازہ ترین