• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا اور یہی وقت اور زمانے کی شان ہے۔ دھوپ، چھاؤں، تاریکی، روشنی اور خزاں و بہار نظام قدرت کے تحت بدلتے رہتے ہیں۔ یہی صورت انسانی زندگی کی ہے کہ کبھی غم کبھی خوشی کبھی فراق کبھی وصال اور کبھی عروج اور کبھی زوال زندگی کے خاکے میں مختلف رنگ بھرتے رہتے ہیں۔ دراصل یہی نیرنگی، اتار چڑھاؤ اور بدلتے رنگ ہمیں غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔ زندگی اور دنیا کے انداز دیکھتے رہیں اور غور و فکر کی کھڑکیاں کھلی رکھیں تو زندگی کا راز تھوڑا تھوڑا سمجھ میں آنے لگتا ہے ورنہ تو زندگی بھر بیکراں ہے انسان مرتے دم تک اس سمندر کا چلوبھر ہی سمجھنے میں کامیاب ہوتا ہے۔
مجھے ایسے ہی خیال آیا اور میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس کا اظہار کردوں۔ خزاں بہار اور عروج و زوال یہی ہے کہ اکتوبر 1999ء میں میاں نواز شریف تقریباً پونے تین برس وزارت عظمیٰ کے مزے لینے کے بعد اٹک قلعے میں بند تھے جہاں انہیں جسمانی و ذہنی اذیت دینے کے پورے انتظامات موجود تھے۔ ناز ونعمت میں پلے، دولت میں کھیلنے والے اور طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے شخص پر کیا گزرتی اور بیتی ہوگی، تصور کریں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ میں اس تفصیل میں جانے کا ارادہ نہیں رکھتا لیکن آج دیکھئے کہ چودہ برس بعد وہی میاں نواز شریف خاصی اکثریت اور عوامی حمایت کے ساتھ وزیراعظم بننے جارہے ہیں اور 1999ء کا طاقتور کل اختیارات کا مالک فوجی آمر جس نے نواز شریف کو ہتھکڑی لگوا کر اپنے معتمد جرنیل سے دھکے دلوائے تھے آج اپنے محل نما گھر کے دو کمروں میں قیدی بنا تڑپ رہا ہے۔ اس کے پاس بے حد دولت ہے، اس کی جائیداد اور بینک اکاؤنٹس دبئی اور انگلستان سے لے کر امریکہ تک پھیلے ہوئے ہیں لیکن آج فون، انٹرنیٹ اور دوسری بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہے۔ وہ چاہتا تو بقایا زندگی یورپ و امریکہ میں عیش کرتے گزار دیتا لیکن وہ خود اپنے جال میں پھنس گیا۔ قدرت کو عبرت کا ساماں، زندگی کی بے ثباتی اور غور و فکر کرنے والوں کو یہ پہلو بھی دکھانا مقصود تھا کہ قرآن حکیم کے فیصلے کے مطابق ”یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں“ (آل عمران)
یہ جاننے کے باوجود کہ دنیا فناکی جگہ اور فنا کا مقام ہے جہاں ہر شے کو فنا ہونا ہے اور جہاں دولت، اقتدار، حکومت، اختیار، حسن، جوانی اور کسی بھی شے کو ابدی حیثیت حاصل نہیں۔ انسان اتنا کمزور ہے کہ دولت، حکومت، اقتدار اور جوانی کے معمولی نشے سے بہک جاتا ہے اور سمجھنے لگتا ہے کہ یہ چمک دمک اور شان و شوکت مستقل چیزیں ہیں، دنیا ہمیشہ اس کے تابع رہے گی اور وہ قیامت تک یونہی عیش و عشرت کرتا رہے گا۔ اگر انسان کھلے ذہن سے اور دل سے یہ قبول کر لے کہ مجھے جتنی نعمتیں ملی ہیں یہ سب اللہ سبحانہ تعالیٰ کی امانت ہیں۔ یہ میری ملکیت نہیں اور یہ کسی وقت بھی واپس لی جاسکتی ہیں تو وہ نہ مغرور ہو نہ غرور سے اس کی گردن اکڑے، نہ خوشامد و دربار داری کا رسیا بنے اور نہ عیش اور طیش میں خوف خدا سے آزاد ہو۔
سوچتے سوچتے میں 1980-81ء میں پہنچ گیا ہوں۔ معاف کیجئے گا یہ ایک کیس سٹڈی (CASE STUDY) ہے، یہ ایک فرد یا ایک حکمران کی بات نہیں بلکہ زندگی کے ہمہ جہت پہلوؤں کو سمجھنے کی کوششیں ہے۔ بقول اقبال ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔ یہ میری ذاتی رائے ہے۔ ضروری نہیں آپ مجھ سے اتفاق کریں۔ میرے مشاہدے کے مطابق میاں نوازشریف مقدر کے سکندر ہیں۔ میں نے اپنی طویل زندگی میں اتنے خوش قسمت افراد کم دیکھے ہیں۔ مقدر جب کسی کو اوج ثریا پہ بٹھاتا ہے تو کبھی کبھی اسے جھٹکا بھی دیتا ہے کیوں؟ فی الحال اس بحث کو رہنے دیجئے۔ اس کا جواب آپ کو خود ہی مل جائے گا۔ ایک فاؤنڈری چلانے والا خوبرو دولت مند نوجوان، قیمتی کاروں، قیمتی لباس اور قیمتی گھڑیوں کا شوقین اور کرکٹ کا دلدادا گھریلو تربیت کے زیر اثر صوم و صلواة کا پابند میاں نوازشریف اندر سے شرمیلا اور نہایت بامروت بلکہ مہذب نوجوان تھا۔ انہی خصوصیات سے متاثر ہو کر جنرل جیلانی گورنر اور ایم ایل اے پنجاب نے انہیں وزیر خزانہ بنا دیا۔ کالی ٹوپی اور کالی شیروانی میں ملبوس جب میاں نواز شریف نے پاکستان ٹیلی ویژن پر پنجاب کا بجٹ پیش کیا تو ایک اچانک ملاقات میں پوچھا ”کیسا تھا“۔ عرض کیا ”ادائیگی ٹھیک تھی لیکن چہرہ تاثرات سے بالکل عاری۔ سپاٹ“۔ قدرت کو ان کی شاید یہی عاجزی اور مروت پسند آئی اور وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ بن گئے۔ آپ کہیں گے کہ انہیں جنرل ضیاء الحق اور جنرل جیلانی نے وزیراعلیٰ بنایا۔ درست لیکن میرے نزدیک یہ عروج و زوال مقدر کا حصہ ہوتے ہیں اور ہر شے من جانب اللہ ہے۔ 1980ء میں لاہور اور پنجاب ایک سے ایک بڑے وفاداروں سے بھرا پڑا تھا، بھٹو کے زخم خوردہ بھی بہت تھے، تخت لاہور کے دعوے دار تو چودھری برادران اور ملک اللہ یار تھے لیکن مقدر نے ایک تاجر اور غیر سیاسی خاندان کے لاڈلے کو وزیراعلیٰ بنا دیا۔ میں نے ”لاڈلے“ کیوں لکھا؟ یقین رکھیں ہر لفظ کا ایک پس منظر ہے۔ تفصیل میں جاؤں تو سینکڑوں کالم لکھوں اور ”صفدر نامہ“ کے کئی باب مکمل ہو جائیں لیکن میں صفدر نامہ لکھنا نہیں چاہتا۔ دو دہائیوں سے بھی کچھ زیادہ عرصہ گزرا کہ ایک روز میاں محمد شریف صاحب مرحوم و مغفور نے مجھے بلایا۔ میاں صاحب نہایت نیک، عبادت گزار اور مخیر انسان تھے۔ کہنے لگے ”ڈاکٹر صاحب! شہباز کو بے شک ڈانٹ لیا کریں لیکن نواز سے سخت بات نہ کیا کریں“۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ میاں نوازشریف والدین کے کتنے لاڈلے ہیں۔ میں عادت سے مجبور تھا پھر بھی کبھی کبھی احتیاط کا دامن چھوڑ دیتا تھا۔ دو تین بار لاہور کے بااثر ایڈیٹر نے بھی مجھے ٹوکنے، روکنے سے منع کیا لیکن بقول وارث شاہ عادتیں قبر تک ساتھ نبھتی ہیں۔ آہستہ آہستہ ایسے لوگ حلقے سے نکل جاتے ہیں۔ اسے بھی قانون قدرت ہی سمجھیں۔ بہرحال میاں صاحبان کے کالم نگاران شاید تبصرے کریں گے۔ فقرے کسیں گے لیکن میں نے ان باتوں کو اگنور کرنے کی عادت اپنالی ہے۔
غیر سیاسی بیک گراؤنڈ کے باوجود اور تخت لاہور کے روایتی اور موروثی دعوے داروں کی موجودگی میں میاں نوازشریف مقدر کے سکندر ثابت ہوئے اور وزیراعلیٰ بن گئے۔ جس روز انہیں جنرل ضیاء الحق نے بلا کر رازدارانہ انداز میں وزیراعلیٰ بننے کی نوید سنائی اس روز وہ حسن پیر زادہ مرحوم اور قمر الزمان کے ساتھ میرے اسلام آباد کے غریب خانے پر تشریف لائے اور کہا ”میں سب سے پہلے یہ خوشخبری آپ کو سنا رہا ہوں۔ ابھی گھروالوں کو بھی نہیں بتایا۔ سرکاری اعلان تک کسی سے ذکر نہ کریں“۔ پھر وہ وزیراعلیٰ بن گئے اور انہوں نے دو تین برسوں میں محنت اور لگن سے سیاست میں اپنا مقام پیدا کر لیا۔ معاشرے کے مستحق غریب اور مزدور پیشہ طبقوں کے لئے انہوں نے بہت سے کام کیے اور اپنی پالیسیوں کے ذریعے نہ صرف اپنی نظریاتی شناخت قائم کرلی بلکہ بھٹو ازم اور پی پی پی کے موثر مدمقابل بن کربھٹو مخالف ووٹ کے حقدار بن گئے۔ کہانی بہت طویل ہے اور کالم کا دامن مختصر۔ اس محاذآرائی اور سیاسی لڑائی میں بے نظیر بھٹو مرحوم میاں صاحب کا تو کچھ بگاڑ نہیں سکتی تھیں لیکن ہم جیسے سرکاری افسران پر بار بار غصہ نکالتی رہیں اور رگڑے دیتی رہیں۔ اس محاذ آرائی کے دور میں شاطر سرکاری افسران عتاب سے محفوظ رہے کیونکہ وہ پی پی اور زرداری کو بھی خوش رکھتے تھے اور میاں صاحبان پر بھی ڈورے ڈالتے تھے۔ میاں صاحب کے ایک نہایت قریبی ڈپٹی کمشنر، خادم خاص اور میاں شہباز شریف کے دوست ادھر میاں صاحبان سے محبت کی پینگیں بڑھاتے رہے اور ادھر جہانگیر بدر وفاقی وزیر سے پٹرول پمپ بھی لے گئے۔ لاتعداد واقعات ہیں لیکن جانے دیجئے۔مجھ تک تو یہ عتاب مشرف کے دور حکومت تک جاری رہا جس نے بلاوجہ مجھے سروس کے آخری چار سالوں میں او ایس ڈی بنا کر ریٹائر کردیا۔ بہرحال میرا یقین ہے کہ ہر سزا، ہر جزا، ہر انعام منجانب اللہ ہے۔ اس لیے نہ کسی سے گلہ نہ شکایت۔ مختصر یہ کہ میاں نوازشریف دو بار وزیراعلیٰ اور دو بار وزیراعظم منتخب ہو کر پاکستان کی تاریخ میں ایک ریکارڈ قائم کر گئے جسے تیسری بار وزیراعظم بن کر شاید ناقابل شکست بن جائیں گے۔ جب وہ دوسری بار وزیراعظم بنے تو میں وفاق میں سیکرٹری تعلیم تھا۔ وزارت تعلیم وفاق میں کم تر اور غیر اہم وزارت تصور ہوتی ہے۔اس تمام عرصے میں میری میاں نوازشریف سے کبھی ون ٹو ون میٹنگ نہیں ہوئی اور دوسری بار وزیراعظم بننے کے بعد انہوں نے کبھی مجھے ملاقات کا وقت ہی نہ دیا یہ الگ بات کہ اس کے باوجود جنرل مشرف نے مجھ پر میاں صاحبان کی قربت کا الزام لگا کر او ایس ڈی بنا دیا۔ یہ سب مقدر کے کھیل ہیں۔ اس دور میں مجھے چند ایک بار تعلیمی پالیسی اور وزارت تعلیم کے معاملات کابینہ میں پیش کرنے کے لئے حاضر ہونا پڑا تو مجھے محسوس ہوا کہ مسلسل اقتدار اور عروج نے ان میں تھوڑا غرور پیدا کردیا ہے۔ غرور اللہ کو پسند نہیں۔ 12 اکتوبر 1999ء کا جھٹکا شاید اسی کا نتیجہ تھا۔ پرویز مشرف نے ان کے لیے بھٹو جیسے انجام کا فیصلہ کررکھا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں بچا لیا۔ وہ مقصدر کے سکندر ہیں۔ (ن) اقتدار سے نکلے تو 2013ء تک ہر طرف پیشن گوئیاں کی جاتی رہیں کہ اب میاں کبھی وزیراعظم نہیں بنے گا۔ یہ پیشن گوئیاں بھی انشاء اللہ غلط ثابت ہورہی ہیں کیونکہ میاں صاحب مقدر کے سکندر ہیں۔ میں ان کے موجودہ معاملات سے آگاہ نہیں اور گوشہ نشینی میں بڑے آرام سے ہوں لیکن میری دعا ہے کہ انہوں نے مشرقی جھٹکے اور جلاوطنی سے بہت کچھ سیکھا ورنہ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔ ایک بات تو صاف نظر آتی ہے کہ انہیں بدستور مخلص اور مطلبی دوستوں کی پہچان نہیں، وہ صرف کام لینے سے غرض رکھتے ہیں وفا اور خلوص سے نہیں۔ نتیجے کے طور پر مشرف کے سابق وفادار اور قصیدہ نگار اور کچھ شاطر قسم کے حضرات کے ساتھ ساتھ خوشامدی ان کے دربار پر چھائے ہوئے ہیں۔ جو ایک بار پھر غرور کے لئے فضا سازگار بنا دیں گے۔ میری دعا ہے ایسا نہ ہو۔ سچ کے لئے معذرت … باقی پھر
تازہ ترین