امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکشن 20کے انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکار اور کامیاب صدارتی امیدوار جوبائیڈن کو اقتدار منتقلی کے مراحل میں شدید مزاحمت نے دنیا کی سب سے قدیمی آئینی جمہوریہ کی جمہوری اقدار کا جنازہ نکال دیا ہے جو بڑی ’’دھوم‘‘ سے اٹھا ہے۔
انتخابی عذر داریوں پر عدالتوں میں بھی ناکامی، مختلف ریاستوں میں ووٹوں کی بار بار کی گنتی، جارجیا کے گورنر سے اپنے ووٹ بڑھوانے میں ناکامی، اپنے ہی نائب صدر مائیک پینس کو انتقالِ اقتدار کی سرٹیفکیشن کے آئینی اختیار سے بھی روکنے میں ناکامی کے بعد ٹوئیٹو سے اپیل کرکے امریکہ بھر سے ری پبلکن جیالوں کو واشنگٹن میں جمع کرنے تک، پھر جوبائیڈن کو منتخب ایوان میں صدر نامزد کرنے کے اجلاس کے دوران کیپیٹل ہل پر مسلح اور ہلاکت خیز دھاوے نے جمہوری اقدار میں کیا، امریکی انتخابی نظام کی بھی چولیں ہلا دیں۔
اتنی کہ مسلسل بڑھنے والی تشویش سرحدوں سے باہر نکل کر دیرینہ یورپی حلیفوں تک جا پہنچی۔ برطانوی، فرانسیسی اور جرمن حکمرانوں نے صدر ٹرمپ کی مذمت میں ذرا دیر نہیں لگائی۔
شکست خوردہ خود سر صدر کے سوشل اکائونٹس بند کر دیے گئے پھر بھی ٹرمپ کی ابلاغی گولہ باری جاری رہی تو ابلاغ کے وہ نجی اکائونٹس بھی بند کر دیے گئے جنہیں استعمال کرکے 8ملین حامی ووٹوں کو اشتعال دلانے کے واضح خدشات یقین میں تبدیل ہو گئے تھے۔
خبروں اور تجزیوں سے واضح ہوتا جا رہا تھا کہ صدر ٹرمپ، ٹرمپ ازم سے سرشار ووٹرں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو رہے ہیں کہ اُنکی جیت چوری کرکے بار بار کی گنتی میں جیتے جوبائیڈن کو دے دی گئی ہے۔
گویا انتخاب ہارے ٹرمپ نے اقتدار سے اپنے عشق کو سچا ثابت کرنے کیلئے ہر غیرآئینی و قانونی حربہ استعمال کیا، اقتدار کو ناخدا جانا، ثابت کیا کہ وہ کسی طور آمادہ نہیں کہ اِس سے دستبردار ہو جائیں، لگا تو یہ بھی کہ انہیں ایمان کی حد تک یقین ہے کہ امریکی اقتدار بھی اُن کے سوا کسی اور کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں، یہ آئین اور جیتا صدارتی امیدوار ہی ہے جو عاشق ’’ٹرمپ اور اقتدار کی باہمی محبت‘‘ کے طاقتور رقیب بن گئے۔ اب تک جبکہ عاشق کے دوسرے مواخذے (Impeachment)اور گرفتاری تک کے قانونی راستوں کی تلاش جاری ہے ٹرمپ کا عشقِ اقتدار
عشق تیری انتہا، عشق میری انتہا
تو بھی ابھی ناتمام، میں بھی ابھی ناتمام
کی تصویر پیش کر رہا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پوری ٹرم میں ثابب ہوا ٹرمپ کو آئین و جمہوریت سے کیا مطلب،
ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیشِ جہاں کا دوام
یہ تو امریکہ کا موجود اور جاری نقشہ ہے۔ گمان غالب ہے کہ امریکی قانون اندھا ثابت ہوگا، ہارے صدر کی اقتدار سے سچی محبت بےرحمی سے کچل دی جائے گی اور جوبائیڈن ہی امریکہ کے اگلے 4سال کیلئے ہونے والے صدر ہیں۔ سو ہمیں دیکھنا ہے کہ پاکستان شناس نومنتخب صدر جوبائیڈن، پاکستان کو آنیوالے وقت کے تعلقات کے حوالے سے کس نظر سے دیکھیں گے۔
امریکی صدارتی انتخابی مہم شروع ہونے پر پاکستان خصوصاً امریکن پاکستانیوں میں یہ جاننے کا تجسس فطرتاً پیدا ہوا کہ ہمارے پاکستان کے لئے کونسا صدارتی امیدوار کا صدر بننا بہتر ہو گا۔ اُنہوں نے صحیح جواب اور تجزیے کی روشنی میں اپنا فیصلہ بھی کرنا تھا۔
اِس فیصلہ سازی میں پہلی بڑی مدد اُنہیں تب ملی جب مودی انتخابی مہم کے دوران امریکہ دورے پر گیا اور ہیوسٹن میں بھارتی ڈائیس پورا کے جلسہ عام میں مودی اور ٹرمپ نے اسٹیج پر چہل قدمی کرتے بھائی بھائی ہونے کے کھلے جیسچر دیئے۔
دنیا، امریکہ اور بھارت حیران رہ گئے جب بھارتی ہم مزاج وزیراعظم نے اپنے یار صدارتی امیدوار کے لئے یہ سیاسی نعرہ بلند کیا ’’اب کی بار ٹرمپ سرکار‘‘ یعنی بھارتی امریکیوں سے کھل کر ٹرمپ کو ووٹ دینے کا گرین سگنل دیا۔
امریکہ کی داخلی اور وہ بھی انتخابی سیاست میں بھارتی وزیراعظم نے امریکی سیاست میں اپنے شیئر کے اعلان پر بڑے تجزیے ہوئے، خود بھارت میں بھارتی اپوزیشن کانگریس نے اسے امریکہ بھارت تعلقات کے حوالے سے منفی اور ’’مکمل آئوٹ آف دی وے‘‘ قرار دیا۔ دوسری جانب جوبائیڈن نے پاکستانی ڈائیس پورا کو کھل کر ساتھ ملانے کی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے، مقبوضہ کشمیر پر اپنی تشویش اور کشمیریوں کی حمایت کو مودی اقدامات کی مذمت میں تبدیل کر دیا جو ان کے انتخابی وعدوں اور کمٹمنٹ میں تبدیل ہو گئی کہ وہ اقتدار میں آ کر مسئلہ کشمیر حل کرانے اور محبوس کشمیریوں کا محاصرہ ختم کرانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ امریکی صدور اور سیاسی جماعتوں کے حوالے سے سائوتھ ایشیا، خصوصاً پاک بھارت پالیسی میں ری پبلکن کا پاکستان کی جانب واضح روایتی جھکائو تو بش سینئر کے صدر بننے سے کم ہوتا بش کے دونوں ادوار پھر اوبامہ کی دونوں ٹرمز میں کم تر ہو گیا تھا۔ واشنگٹن اقتدار ری پبلکن کا ہو یا ڈیموکریٹس کا، بھارت دونوں کیلئے ’’فطری اتحادی‘‘ جبکہ پاکستان مشکوک اور ’’مطلب کیلئے ضروری ساتھی‘‘ کا مستقل درجہ اختیار کر گیا تھا۔ یہ روایت ختم ہو گئی جو صدر جنوبی ایشیا کا رخ کرے گا وہ دہلی اور اسلام آباد کا دورہ ایک ہی فری کوئینسی پر کرے گا۔
صدر کلنٹن کو پاکستان کے وار آن ٹیررازم کا فرنٹ لائن پارٹنر ہونے کے باعث باامر مجبوری چند گھنٹے کیلئے مکمل اپنی مرضی کے ڈیزائن سے اسلام آباد آنا پڑا تھا، صدر بش کے بھارتی دورے میں بھی پاکستان میں ایئر بیسز کی سہولت افغانستان میں مزاحمت کے خلاف استعمال ہو رہی تھی، پھر آزاد کشمیر کا ہولناک زلزلہ اور اس میں غیرمعمولی انسانی ہلاکت نے بھی بش جونیئر کو اسلام آباد کا مختصر دورہ کرا دیا۔
گویا پاکستان سے امریکہ کی دیرینہ اتحادی حیثیت محدود اور مکمل مطلبی بش سینئر کے دور 90کے عشرے سے شروع ہو گئی تھی، معمولی لچک کے ساتھ نئی امریکی سائوتھ ایشیا پالیسی نے مستقل ہی شکل اختیار کئے رکھی۔
پاکستان کے موجود خارجی امور کا بڑا سوال امریکی انتخابات کے نتائج میں یہ ہی پیدا ہوا ہے کہ اب جبکہ ٹرمپ کی پالیسیوں کے نتیجے میں مشرقی سے لے کر مغربی ایشیا تک کی اتحادی سیاست میں اضافہ اور بڑی تبدیلیاں واضح ہوئی ہیں۔ پاکستان کیا کرے؟ (جاری ہے)