• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معروف امریکی دانشور نوم چومسکی صدر ٹرمپ کو شروع سے ہی امریکی جمہوریت کے لئے شدید خطرہ قرار دیتے رہے ہیں۔ اِسی وجہ سے سینیٹر برنی سینڈر نے ڈیمو کریٹک پرائمری میں ڈیمو کریٹک پارٹی کے اندر ایک واضح بائیں بازو کا گروپ بنانے کے باوجود صدر ٹرمپ کے خلاف محاذ بنانے کا اعلان کیا۔ اُن کا خیال تھا کہ ملک میں جمہوریت رہے گی تو ہی بائیں بازو کے نظریات جس میں مزدوروں کی فی گھنٹہ آمدنی، سیاہ فام، لاطینی اور ایشینز شہریوں کا پولیس سے تحفظ، امریکہ میں صحت، یونیورسٹی تک مفت تعلیم کی سہولت، جیل خانہ جات کی کارپوریشنوں کا خاتمہ اور کارپوریشنوں کا امریکی الیکشن میں مداخلت جیسے اہم معاملات کی تکمیل ہو پائے گی اور اِسی لئے وہ تمام تر تضادات کو پس پشت ڈال کر ٹرمپ کے خلاف بائیڈن کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہوئے۔ اِس موقع پر امریکہ کے بائیں بازو کے کارکنوں اور دانشوروں نے برنی سینڈر پر شدید تنقید کی کہ اُنہوں نے بائیں بازو کا ایجنڈہ ڈیمو کریٹک پارٹی کے لبرل امیدوار بائیڈن کے ہاتھوں بیچ دیا ہے لیکن پچھلے دنوں جس طرح صدر ٹرمپ نے نہ صرف یہ کہ اپنی شکست کو تسلیم نہیں کیا بلکہ ہر طریقے سے جمہوریت کی بنیادوں کو ہلانے کی کوشش کی، سے ثابت ہوتا ہے کہ برنی سینڈر کا یہ اقدام امریکی جمہوریت کے لئے لازمی تھا جس سے پاکستان میں بھی بائیں بازو کی سیاسی پارٹیوں کو سبق حاصل کرنا چاہئے کہ جب تک ملک میں آئین کی پاسداری اور سویلین سپرمیسی نہیں ہو گی اُس وقت تک یہاں کے مزدوروں، کسانوں، عورتوں، دوسری مذہبی اقلیتوں اور محکوم قوموں کو اُن کے حقوق نہیں ملیں گے۔ صدر ٹرمپ نے مختلف ریاستوں اور عدالتوں میں تقریباً ساٹھ پٹیشن دائر کیں حالانکہ اُن کے پاس الیکشن میں دھاندلی کے کسی قسم کے کوئی ثبوت نہیں تھے لیکن اُن کا خیال تھا کہ چونکہ زیادہ تر جج اُن کے اپنے متعین کردہ ہیں اور اُن کے پاس اتنا زیادہ پیسہ بھی ہے تو یوں وہ اِن الیکشنز کو کالعدم قرار دے سکتے ہیں۔ عدالتوں سے ناکامی کے بعد صدر ٹرمپ نے چھ جنوری کو امریکی کانگریس پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا تاکہ کانگریس بائیڈن کے الیکشن کی توثیق نہ کر سکے۔ امریکی آئین کے مطابق اِس سیشن کا چیئرمین امریکہ کا وائس پریزیڈنٹ ہوتا ہے۔ صدر ٹرمپ کے احکامات کے باوجود اُس کے وائس پریزیڈنٹ نے آئین اور جمہوریت کی راہ اپنائی اور کہا کہ ’’الیکشن کا فیصلہ امریکی عوام کرتے ہیں اور کانگریس کو اِن نتائج کی صرف توثیق کرنا ہوتی ہے‘‘ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ میں سرمایہ دارانہ نظام کو کتنا ہی برا کہہ لیا جائے لیکن اُس کے باوجود پچھلے دو سو برسوں سے امریکی جمہوریت میں جو ادارہ سازی ہو چکی ہے اُس کو ٹرمپ اپنے پیسوں، سفید فام کی مدد اور نفرت پر مبنی مواد کے ذریعے نقصان نہیں پہنچا سکا۔ جس وقت ٹرمپ کے حمایت یافتہ مسلح مظاہرین، جن میں زیادہ تر کا تعلق سفید فام تنظیموں سے تھا، نے کانگریس پر قبضہ کر لیا تو اُس وقت بھی امریکی دانشور اور تبصرہ نگار یہ کہہ رہے تھے کہ اِس کے باوجود الیکشن کے نتائج پلٹے نہیں جا سکتے اور ریاست کا نظام اِس عمل کے خلاف مزاحمت کرے گا۔ ایسے ہی ہوا اور جیسے ہی کانگریس اُن پُرتشدد مظاہرین سے خالی کرا لی گئی، اُس کے فوراً بعد کانگریس نے اپنا اجلاس دوبارہ شروع کردیا جس میں جوبائیڈن کے انتخابی نتائج کی توثیق کردی گئی۔

صدر ٹرمپ نے جس عامیانہ طریقے سے امریکی جمہوریت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی اُس کی مثال تیسری دنیا میں جگہ جگہ ملتی ہے۔ حال ہی میں عمران خان نے کہا تھا کہ مچھ کے گیارہ کان کنوں کو نہ دفنانے کی بناء پر اُن کو بلیک میل نہیں کیا جا سکتا اور یہ کہ جب تک اُن کان کن مزدوروں کی لاشوں کو دفنایا نہیں جاتا اس وقت تک میں کوئٹہ نہیں جائوں گا۔ ان کی یہ انا پرستی اکیسویں صدی میں کسی جمہوری رویے کی عکاس نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ نے تیسری دنیا کے حکمرانوں کی طرح سماج میں موجود تضادات کو تعصب کی حد تک اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کی، انہوں نے چین کے خلاف ہر تقریر میں زہر اگلا، سفید فام کے دلوں میں دوسرے امریکیوں کے خلاف تعصب پیدا کیا، میکسیکو کے بارڈر پر دیوار بنانے کے لئے پوری تگ و دو کی، کووڈ کی وباء کی ہیئت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا جس کی وجہ سے لاکھوں امریکی لقمۂ اجل بن گئے اور امریکی ورکنگ کلاس کی بجائے کارپوریشنز کو اربوں روپے کی امداد دی اور امریکی جمہوری اداروں کی مسلسل تذلیل کی، اُن کی اِنہی پالیسیوں کی وجہ سے جارجیا کی ریاست میں ڈیموکریٹک پارٹی کے پہلی بار دو ایسے سینیٹر جیتے جس میں ایک سیاہ فام اور دوسرا یہودی تھا۔ یاد رہے کہ جارجیا وہ ریاست ہے جہاں سیاہ فام اور یہودی مسلک کے لوگوں کا مسلسل استحصال کیا گیا اور سیاہ فام کو ووٹ کا حق امریکی ریاستوں میں سب سے آخر میں دیا گیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر سماج میں جمہوری ادارے مسلسل فروغ پاتے رہیں اور اُن کی جڑیں مضبوط ہوتی رہیں تو ٹرمپ جیسے لوگ وقتی طور پر تو جیت سکتے ہیں لیکن اُن کی کامیابی سماج کی بنیادی جمہوری ہیئت کو تبدیل نہیں کرسکتی۔

پاکستان میں بھی اربابِ اختیار اور پی ڈی ایم کو صدر ٹرمپ کے جمہوریت دشمن رویے سے سبق حاصل کرنا چاہئے چونکہ جمہوریت کا سب سے بڑا تحفظ آئین کی پاسداری اور ادارہ سازی کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے جس کے لئے ضروری ہے کہ ایک ایسے الیکشن کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے جو بالکل آزاد ہو جس کے بجٹ اور مدت کا تحفظ آئین فراہم کرے۔ صرف اِس طرح ہی عوام الیکشن کے نتائج کو تسلیم کریں گے اور اگر ہم نے الیکشن کمیشن کو ادارہ جاتی تحفظ فراہم نہ کیا تو ملک مزید تنزلی کا شکار ہو جائے گا۔

تازہ ترین