• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طویل عرصے بعد بودی سرکار آئے تو آتے ہی گلوں شکووں کی بارش کر دی، خطابت میں تھوڑی سی بریک لگی تو میں نے عرض کیا کہ سرکار آپ خود تشریف نہیں لائے تو میرے ساتھ گلے کیسے؟

اِس پر بودی سرکاری نے پھر سے گرجنا شروع کر دیا ’’میں مصروف تھا‘‘، اِس مرتبہ میں نے بات کاٹ کر کہا کہ سرکار میں آپ کی سب باتیں سن لوں گا، زیادہ گرجنے کی ضرورت نہیں، میں آج ویسے بھی دکھی ہوں، میرے دو دوست چلے گئے ہیں۔

پہلے حاجی نواز کھوکھر رخصت ہوئے اور اگلے چوبیس گھنٹوں کے اندر ہی نصیر ترابی ہمارے ہمسفر نہ رہے۔ حاجی نواز کھوکھر اہم سیاسی شخصیت تھے، اسلام آباد اور پنڈی کے سیاسی حلقوں پر گہرے اثرات رکھتے تھے۔ ایک زمانے میں قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر رہے، اب حاجی صاحب کے صاحبزادے مصطفیٰ نواز کھوکھر سینیٹر ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری کے ترجمان ہیں۔ میرے دوسرے دوست کا نام نصیر ترابی ہے، وہ ایک بڑے عالمِ دین علامہ رشید ترابی کے صاحبزادے تھے۔

نصیر ترابی کمال کے شاعر تھے۔ بعض اوقات ارادے ٹوٹتے ہیں، بکھرتے ہیں اور پھر بکھر کر خاک ہو جاتے ہیں۔

نصیر ترابی اِس مرتبہ سینیٹ کا الیکشن لڑنا چاہتے تھے، وہ اِس سلسلے میں مجھے اکثر فون کرتے تھے، وہ کہتے تھے کہ ’’عمران خان سے میرا ذکر کرو، اور بتائو‘‘ آخری مرتبہ اُنہوں نے کہا کہ ’’زلفی بخاری کے والد واجد بخاری میرے کلاس فیلو ہیں، کل اُنہوں نے میرا فون اٹینڈ نہیں کیا، بس اُنہیں میرا بتا دینا‘‘۔ میں نے عرض کیا کہ ترابی صاحب! واجد بخاری اور زلفی بخاری دونوں باپ بیٹا میرے دوست ہیں، میں واجد شاہ کو پیغام دے دوں گا۔ ابھی پیغام پہنچا نہیں تھا کہ نصیر ترابی کا بلاوا آ گیا۔

اُنہوں نے سانحہ مشرقی پاکستان کے موقعہ پر ایک شاندار غزل کہی تھی، اُس کے دو تین اشعار آپ کی خدمت میں پیش کر دیتا ہوں کہ پندرہ جون 1945کو حیدر آباد دکن میں پیدا ہونے والا نصیر دس جنوری 2021کو کراچی میں ہم سے جدا ہو چکا ہے

وہ ہم سفر تھا مگر اُس سے ہمنوائی نہ تھی

کہ دھوپ چھائوں کا عالم رہا جدائی نہ تھی

عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت

بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا، بےوفاقی نہ تھی

عجیب ہوتی ہے راہِ سخن بھی دیکھ نصیرؔ

وہاں بھی آ گئے آخر، جہاں رسائی نہ تھی

مٹی کے انسان نے بالآخر مٹی ہی ہونا ہوتا ہے، یہ دنیا خاک ہی ثابت ہوتی ہے، انسان لالچی ہے، وہ اِس دنیا کے لالچ میں آخرت بھول جاتا ہے حالانکہ یہ زندگی تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی دورانِ سفر تھوڑی سی دیر کیلئے کسی درخت کے نیچے آرام کرنے کیلئے رکے۔

بودی سرکاری میری گفتگو سنتا رہا اور پھر بولا ’’تم کسی دن آخری اپیل کرو، یہ اپیل عورتوں کے نام ہونی چاہئے کیونکہ نوے فیصد کرپشن کی ذمہ دار عورتیں ہیں، مرد صرف دس فیصد ذمہ دار ہیں‘‘۔ میں بودی سرکاری کی اِس تقسیم پر حیران تھا، اِسی لئے میں نے پوچھا، وہ کیسے؟ میرے سادہ سے سوال پر بودی سرکاری نے فرمایا ’’حضور! اگر عورت چاہے تو ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اگر کسی جوان لڑکے کی ماں اپنے بیٹے کی حرام کمائی قبول نہ کرے تو وہ لڑکا کرپشن سے رک جائے گا۔ اسی طرح اگر کسی عورت کا خاوند راشی ہو اور وہ عورت رشوت کے پیسے قبول کرنے سے معذرت کر لے اور یہ کہے کہ اس گھر میں ایسے پیسوں کا داخلہ منع ہے تو پھر راشی آدمی رشوت نہیں لے گا بلکہ سدھر جائے گا۔ ایک اور بات سن لو اگر کسی کی بہنیں حرام مال قبول نہ کریں تو کوئی بھائی اپنے گھر حرام مال نہیں لائے گا اور اگر بیٹیاں باپ سے کہیں کہ آپ کرپشن نہ کریں تو کوئی باپ کرپشن نہیں کرے گا، مائیں بچوں کو کرپشن سے روک سکتی ہیں، بیویاں شوہروں کو حرام کمانے سے روک سکتی ہیں، بہنیں اپنے بھائیوں کو بدعنوانی سے روک سکتی ہیں اور بیٹیاں والد کو بددیانتی سے باز رکھ سکتی ہیں۔ اگر اِس معاشرے کی عورت حرام کی کمائی قبول کرنے سے معذرت کر لے تو معاشرہ کرپشن سے پاک ہو سکتا ہے۔ میں نے کرپشن کے دس فیصد میں مردوں کا تذکرہ کیا ہے، یہ دس فیصد وہ ہیں جو مختلف اداروں کے سربراہ، سیاسی رہنما، مذہبی پیشوا یا اساتذہ ہیں۔ اگر سیاسی و مذہبی رہنما کرپشن کے خلاف مہم کا حصہ بن جائیں تو رشوت کا ماحول مدھم پڑ سکتا ہے۔ اِس سلسلے میں اگر اساتذہ تبلیغ کریں تو اُس کے اثرات زیادہ شدت کے ساتھ مرتب ہوں گے۔ بدعنوانی کا یہ ناسور ہمارے معاشرے کو کھا گیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں لوگ حق سمجھ کر رشوت طلب کرتے ہیں، ہمارا حکمران طبقہ اِس میں شامل ہے، افسر شاہی اُس کا حصہ ہے، اداروں کے سربراہوں کو چاہئے کہ وہ اپنے اپنے ادارے میں بددیانتی کا خاتمہ کریں، سخت سزائوں کا اہتمام کریں، عدلیہ اور فوج کو بھی بددیانتی روکنے میں کردار ادا کرنا چاہئے۔ پنجابی کے عظیم صوفی شاعر وارث شاہ نے کہا تھا کہ ’’زندگی کے اصل سبق کیلئے پہلا مدرسہ مائوں کی گوں ہے‘‘۔ اگر ہمارے معاشرے میں مائیں بچوں کہ یہ سکھانا شروع کر دیں کہ اِس مختصر سی زندگی میں جاگیریں بنانے کی کوشش نہ کرو، محلات بنانے کی کوشش نہ کرو، دولت کے ڈھیر لگانے کی کوشش نہ کرو تو یقین کیجئے کہ معاشرہ بدل جائے گا، حرام مال ٹھوکریں کھائے گا، کوئی کسی کی جائیداد پر قبضہ نہیں کرے گا۔ مائوں کو بنیادی کردار ادا کرنا ہے۔ بچوں کے دِلوں میں خوفِ خدا مائوں ہی نے ڈالنا ہے، حرام حلال کی تمیز سکھانی ہے۔ لوگ کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہ سب کچھ مٹی ہے، مٹی نے مٹی ہی ہو جانا ہے تو پھر آخرت تباہ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘۔ بودی سرکاری کی باتوں سے لگتا ہے کہ اب ملک میں بہت سختی ہونے والی ہے، اب سزائوں اور فیصلوں سے حرام حالال کی تمیز سکھا دی جائے گی۔ جاتے جاتے، جانے والے نصیر ترابی کے اشعار سنتے جائیے کہ

زندگی خاک نہ تھی خاک اڑاتے گزری

تجھ سے کیا کہتے، تیرے پاس جو آتے گزری

زندگی، نام اُدھر ہے کسی سرشاری کا

اور اِدھر، دور سے اک آس لگاتے گزری

بارہا چونک سی جاتی ہے مسافت دل کی

کس کی آواز تھی، یہ کس کو بلاتے گزری

تازہ ترین