• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

28 جنوری 2020ء کی رات انتہائی سرد تھی۔ بارش مسلسل ہورہی تھی۔ میرے دل میں ایک عجیب طرح کی بے چینی تھی، کسی پل قرار نہیں آرہا تھا، یوں محسوس ہورہا تھا، جیسے کچھ ہونے والا ہے، لیکن یہ نہیں معلوم تھا کہ آج کی اس سرد اُداس رات میں بے پایاں چاہت نچھاور کرنے والی ہستی، میرے ابّا جان ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہوجائیں گے۔ دسمبر میں بچّوں کی موسمِ سرما کی چُھٹیوں میں میری ابّاجان سے آخری ملاقات ہوئی۔ مَیں اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ اُن سے ملنے گئی۔ وہ بیمار تھے اور بہت کم زور ہوگئے تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی اُن کے چہرے پر زمانے بھر کی رونق آگئی، چہرہ کِھل اٹھا۔ اس موقعے پر اُن کی خوشی دیدنی تھی۔ 

بھائی جان اگرچہ اُن کا بہت خیال رکھ رہے تھے، لیکن ابّا جان نے کھانا پینا بہت کم کردیا تھا۔ اُس روز میرے بڑے بھائی نے، جو ڈاکٹر ہیں، خود پائے کا سالن بنایا۔ مَیں نے ابّا جان کو سالن کا شوربا دیتے ہوئے کہا ’’ابا جان! آپ ٹھیک سے کھانا نہیں کھا رہے۔ آج میں آپ کی پسند کا شوربے والا سالن کھلائوں گی، آپ کو ضرور کھانا ہے۔‘‘ وہ میری بات پر مُسکرا دیئے، اس کے بعد میں نے اُن کا بستر تبدیل کیا، گدا دُہرا کیا۔ نیا تکیہ نکال کردیا۔ شدید سردی پڑ رہی تھی، موسم کے تیور دیکھ کر میں نے انہیں لحاف اوڑھاتے ہوئے خصوصی تاکید کی ’’ابّو! سردی بہت ہے۔ سردی سے بچیں۔‘‘ انہوں نے اچانک میری طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’اگر گرمیاں آگئیں تو....‘‘ میں نے کہا ’’ابھی تو کم از کم تین مہینے سردی رہے گی۔ آپ بے فکر رہیں۔‘‘ پھر کچھ دیر تک اُن کے پاس بیٹھنے کے بعد میں نے انہیں ’’اللہ حافظ‘‘ کہا اور گھر آگئی۔ وہ ابّا جی سے میری آخری ملاقات تھی۔

میرے ابّا جان بہت صبر و تحمّل والے اور نہیت محنتی انسان تھے۔ ہمیشہ رزقِ حلال کمایا اور مخلوقِ خدا کی خدمت کی۔ اپنے سات بچّوں کی بہترین تربیت کے ساتھ انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔ اُن کی بہترین تربیت ہی کا نتیجہ ہے کہ آج ہم سب بہن بھائی کام یاب زندگیاں گزار رہے ہیں۔ ابّا جان، امّی کی وفات کے بعد سات سال پانچ ماہ حیات رہے۔ اس دوران انہوں نے ہمیں کبھی امّی کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ کبھی کسی سے گلہ شکوہ نہیں کیا۔ ایک دفعہ میرے شوہر نے پوچھا ’’آپ کے سات بچّے ہیں، کس سے زیادہ خوش ہیں، کسی سے ناراض تو نہیں؟‘‘ 

ابّا نے اُن کی طرف دیکھتے ہوئے قطعیت سے کہا ’’مجھے کسی سے کوئی گِلہ نہیں، میرے سب بچّے بہت اچھےہیں۔‘‘ ابّا جان نے آخری وقت تک اپنے سارے کام خود کیے۔ انتقال سے قبل خود اُٹھ کر واش روم گئے اور بغیر کسی سہارے کے واپس آکر خود ہی بستر پر لیٹ گئے۔ بھائی نے دیکھا کہ کچھ کم زوری ہے، تو انہیں ڈرپ لگانے لگے۔ انہوں نے آنکھیں کھولیں اور چند ثانیے شفقت و محبت سے اُنہیں دیکھتے رہے۔ خاصی کم زوری کے باوجود خوش الحانی سے کلمہ طیّبہ پڑھا اور سکون سے آنکھیں بند کرکے اپنے آخری سفر پر روانہ ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ!میرے ابّا جان کی قبر کو جنّت کا ایک باغ بنادے اور ہم سب بہن بھائیوں کو صبرِجمیل عطا فرمائے (آمین) (شکیلہ بی بی، نیلور،اسلام آباد)

تازہ ترین