• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس سے بڑی توہین گورنر صاحب اور اُن کی لیڈی کی اور کیا ہوسکتی ہے؟ یہی نہیں، جناح نے اس کے بعد پھر کبھی گورنمنٹ ہائوس میں قدم نہیں رکھا۔ ٹائون ہال میں لارڈ ولنگٹن کی تقریب منسوخ کروانے کی وجہ یہ بھی تھی کہ انھوں نے نام لیے بغیر جناح اور اُن کے سیاسی رفیقوں کے خلاف ایک بیان داغ دیا، جس میں کہا کہ ’’ہندوستانی رہنمائوں میں کچھ ایسے بھی ہیں، جن کی سرگرمیاں ہمیں نامناسب معلوم ہوتی ہیں۔ کچھ ایسامحسوس ہوتاہےکہ ان حضرات کاحکومت سے تعاون مخلصانہ نہیں ہے‘‘۔ جناح بہت کچھ برداشت کرسکتےتھے، لیکن اپنی نیّت پرحملہ اُنھیں کبھی گوارا نہ ہوا۔ تو بعد میں انھوں نے اپنے مزاج اور قانونی طریقۂ کار کے برخلاف جو کچھ کیا، اور جس کی وجہ سے بمبئی کے شہریوں کے ہیرو بنے، ایسے ہیرو کہ اُن کے نام پہ شہریوں نے ایک ہال تعمیر کر دیا، اِس صورت حال کی خرابی کی ابتدا مسز جناح اور لیڈی ولنگٹن والے واقعے ہی سے ہوئی تھی۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ واقعہ نہ ہوتا تو جناح اور گورنر صاحب کے تعلقات ہم وار ہی رہتے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اس واقعے کا بھی تذکرہ کر دیا جائے، جس میں رتی ایک سیاسی ایکٹیوسٹ کے طور پر سامنے آتی ہیں۔

رتی کی جرأت و بے باکی، ذہانت و برجستگی

جس طرح ہر قوم میں صاحبِ ضمیر لوگ ہوتے ہیں، انگریزوں میں بھی ایسوں کی کمی نہ تھی، جواپنےہی ہم وطنوں کےظالمانہ اقدامات کو سرعام ظالمانہ ہی کہتےتھے۔ بمبئی کرانیکل اخبارکے ایڈیٹر، بی جی ہارنی مین بھی اُن ہی میں سےایک تھے، جو لارڈ ولنگٹن کےہندوستانیوں سےمخاصمانہ روّیے، رولٹ ایکٹ، سانحۂ جلیانوالہ باغ جیسے واقعات کے خلاف مسلسل اپنے اخبارمیں تنقید کررہےتھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی جس طرح انیسویں صدی میں ایسے صحافیوں کو ڈنڈا ڈولی کرکے انگلستان جانے والے بحری جہاز میں زبردستی سوار کرکے روانہ کر دیتی تھی، ایسا ہی لارڈ ولنگٹن کی حکومت نے بی جی ہارنی مین کے خلاف کیا اور اُن کی ہندوستان بدری کا حُکم نامہ جاری کردیا۔ اس سے بمبئی ہی نہیں، ہندوستان کے سیاسی حلقوں میں شدید غم و غصہ پھیل گیا۔ 

کانجی دوارکاداس کے مطابق اس کے خلاف کانگریس نےایک جلسہ کیا، جس کی صدارت لالہ لاجپت رائے نے کی۔ مقرّرین میں موتی لال نہرو بھی تھے۔ رتی جناح بھی اس جلسے میں موجود تھیں۔ انھوں نے بی جی ہارنی مین کی ہندوستان بدری کے خلاف ایک پُرتشویش مذمّتی قرارداد پیش کی اور ساتھ ہی ایک جوشیلی تقریر بھی کر ڈالی۔ پانچ منٹ کی اس تقریر میں انھوں نے حکومت کےبخیے ادھیڑ دیئے۔ کانجی لکھتے ہیں، ’’یہ رتی کی پہلی اور آخری عوامی تقریر تھی‘‘۔ ایک اور واقعہ جس سے رتی کی جرأت و بے باکی اورحاضرجوابی ظاہر ہوتی ہے، وہ بھی دوارکاداس ہی نےنقل کیاہے۔شملہ میں جناح اوررتی وائسرایگل میں عشائیےپر مدعو تھے۔ رواج کے مطابق وائسرائے چمیسفورڈ اور ان کی لیڈی مہمانوں کے استقبال کے لیے کھڑے تھے اور آنے والے مہمانوں کا اُن سے تعارف کا سلسلہ جاری تھا۔ شاہی رواج کے مطابق آنے والی ہر مہمان خاتون لیڈی صاحبہ اور لارڈ صاحب کے حضور حاضر ہو کر پہلے اپنا سر جُھکا دیتی، جس سےیہ ظاہر ہوتا تھا کہ میزبان میاں بیوی کتنے عالی مرتبت ہیں۔ جناح اور رتی ہال میں داخل ہوئےاوروائسرائےکےپاس پہنچے تو رتی نےسرجھکانے کے بجائے ہندوستانی رواج کے مطابق ہاتھ کے اشارے سے آداب و تسلیمات کیا۔ وائسرائے اور اُن کی لیڈی کے نزدیک یہ صریحاً گستاخی تھی۔ اُن کا چہرہ احساس توہین سےسُرخ ہوگیا۔ 

اس وقت تووائسرائے صاحب چُپ رہے۔ عشایئے کے بعد ذرا فراغت ہوئی تو انھوں نے اے ڈی سی کو بھیج کر رتی کو بلوایا۔ اور گفتگو اس طرح شروع کی کہ ’’مسٹر جناح کا سیاست میں مستقبل بہت تاب ناک ہے اور آپ کو ان کے راستے کی رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔‘‘ یہ کہا اور کہہ کر پھر حرفِ مطلب پہ آئے۔ فرمایا، ’’آپ نے قصروائسرائےکے آداب کےمطابق وائسرائےکی تعظیم نہیں کی۔ کیا آپ نے وہ کہاوت نہیں سُنی کہ روم میں رہنا ہو تو رومنوں ہی کی طرح رہنا چاہیے‘‘ یہ سُن کے رتی مسکرائیں اور نہایت اعتماد سے بولیں، ’’یور ایکسیلینسی مَیں نے وہی کیا ہے۔ 

آپ ہندوستان میں ہیں اور مَیں نے یہیں کے رواج کے مطابق آپ کی تعظیم کی ہے‘‘ لارڈ ولنگٹن کی طرح یہ بھی وائسرائے چیمسفورڈ سے مسز رتی جناح کی آخری ملاقات تھی۔ ایک اور واقعہ، جو ان کےاکثر سوانح نگاروں نے رقم کیا ہے، جس سے رتی کی ذہانت اور برجستگی ظاہر ہوتی ہے، ساتھ ہی یہ بھی کہ وہ بھی محمّد علی جناح کی طرح رُتبے اور مرتبے کو خاطر میں لانے والی نہ تھیں۔ وائسرائے لارڈ ریڈنگ نے دارالحکومت دہلی میں جن عمائدینِ شہر کو مدعو کیا، اُن میں محمّد علی جناح اور رتی بھی شامل تھے۔ ڈنر کے بعد لارڈ ریڈنگ بےتکلفی کے مُوڈ میں اپنے زمانۂ طالب علمی کے واقعات سُنانے لگے کہ ’’جب مَیں جرمنی میں تھا…‘‘ یہ بتاتے بتاتے اور ماضی کو یاد کرتے کرتے وہ ایک سرد آہ بھرنے کے انداز میں بولے، ’’کیا بتائوں، میری کتنی تمنّا ہے کہ دوبارہ جرمنی جائوں لیکن افسوس کہ مَیں وہاں اب نہیں جاسکتا۔‘‘ رتی سے چُپ نہ رہا گیا۔ 

معصومیت سے پوچھا، ’’یور ایکسیلینسی! بھلا اب آپ وہاں کیوں نہیں جا سکتے؟؟‘‘لارڈ ریڈنگ اس سوال کے پیچھے چُھپی شرارت نہ سمجھ سکے، سچّائی سے بولے ’’اصل میں جرمن باشندے ہم انگریزوں کو پسند نہیں کرتے۔‘‘ رتی کو موقع مل گیا، اُسی معصومیت سے بولیں، ’’تو پھر یور ایکسیلینسی! آپ ہندوستان کیسے چلے آئے؟‘‘ لارڈ ریڈنگ کا تو وہ حال ہوا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں، سنبھلنے میں تھوڑا سا وقت لیا اور عافیت اِسی میں جانی کہ موضوع بدل دیں۔

جناح کی طرح رتی کو بھی سرکار کے دیے گئے خطابات سے نفرت تھی۔ لارڈ ریڈنگ نے چاہا کہ محمّد علی جناح کو سر کا خطاب دیں، لیکن جناح نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ’’مَیں سر محمّد علی جناح کے بجائے صرف محمّد علی جناح کہلوانے میں زیادہ عزّت محسوس کرتا ہوں‘‘۔ لارڈ ریڈنگ کو خیال آیا کہ اس بارے میں کیوں نہ مسز جناح سے بات کی جائے۔ کون بیوی ہوگی، جو میاں کے لیے کوئی سرکاری اعزاز پسند نہ کرے۔ کوئی تعجب نہیں کہ بیوی کے اصرار پہ ضدّی جناح مان جائیں۔ انھوں نے مسز جناح، رتی جناح سے اس بات کا تذکرہ یوں کیا کہ ’’کیا سر کا خطاب پانے کے بعد وہ لوگوں سے لیڈی جناح کہلوانا پسند نہ کریں گی؟‘‘ رتی اپنے صاف گو شوہر کی طرح کسی ہچکچاہٹ کے بغیر، بلاجھجک، بڑی صفائی سے بولیں، ’’اگر جناح نے سر کا خطاب قبول کیا، تو میں اُن سے الگ ہو جائوں گی۔‘‘

محمّد علی جناح کی وجہ سے رتی کے مراسم ہندوستان کے چوٹی کے سیاست دانوں سے قائم ہوگئے۔ اُن ہی میں گاندھی جی بھی تھے۔ وہ بڑے گھاگ سیاست دان تھے۔ اُنھیں ذومعنی باتیں کرنے میں کمال حاصل تھا۔ بظاہر سادہ لیکن باطن خاصاپیچیدہ۔ وہ کہتےکچھ، چاہتےکچھ اورکرتےکچھ تھے۔ اُنھیں دنیائے سیاست کابگلا بھگت کہا جائے تو کچھ ایساغلط بھی نہ ہوگا۔ انھوں نے بھی رتی کے ذریعے جناح پر اثر انداز ہونا چاہا۔ عجیب اتفاق ہے کہ یہ دونوں بڑے رہنما، محمد علی جناح اور گاندھی کاٹھیاواڑ، گجرات کےتھے۔ دونوں کے گائوں بھی زیادہ فاصلے پر نہ تھے۔ جناح پانیلی کے تھے تو گاندھی پور بندر کے۔ یوں جب ہندوستانی سیاست میں دونوں کاٹھیاواڑی رہنما آمنے سامنے آئے تو کہنے والوں نے کہا کہ یہ دو ’’پی‘‘ (یا دو ’’پ‘‘) کا مقابلہ ہے۔ دونوں دیہات کے ناموں میں ایک ہی حرف آتا تھا۔ چناںچہ گاندھی جی نے ایک خط میں رتی سے بصداصرارفرمائش کی کہ وہ اپنے شوہر کو گجراتی زبان سیکھنے پر مائل کریں۔ 

یہ تو اپنی آبائی زبان سیکھنے سکھانے کی ایک بےضرر سی فرمائش تھی، جس میں کچھ ایسا مضائقہ بھی نہ تھا، ممکن ہے، اس طرح گاندھی جی گجراتی عصبیت جگا کر محمّد علی جناح کو اپنے قریب کرنا چاہتے ہوں۔ اُن کی استقامت (یا گاندھی کی نظر میں ضدّی طبیعت) کو پگھلانا چاہتے ہوں۔ اللہ ہی بہتر جانتاہے۔ 

لیکن انھوں نےایک خط میں، جو انھوں نے رتی کو لکھا، یہ تقاضا کیا کہ وہ جناح کو بدیسی، خصوصاً انگریزی مال کے بائیکاٹ پر آمادہ کریں۔ اُس زمانے میں گاندھی جی عوامی سطح پر یہی مہم چلا رہے تھے اور نہایت جوش و خروش س۔ تاکہ انگریز حکومت کو بےبس کر کے اپنے مطالبات منواسکیں۔ جناح اس مہم کی حقیقت سمجھتے تھے اور رتی بھی سمجھتی تھیں،تو انھوں نے پلٹ کرگاندھی جی کوجواب دیا کہ’’جناب! انگریزی اور بدیسی مال کے بائیکاٹ کی آپ کی تحریک ہرگز بھی دانش مندانہ نہیں اور یہ قابل عمل تو بالکل بھی نہیں ہے۔‘‘

قوم پرستی سے فرقہ پرستی کی طرف؟

رتی کو اپنے شوہر کی عزّت کا بہت پاس و لحاظ تھا۔انھوں نےکبھی پسند نہ کیا کہ عوامی سطح پر جناح کے وقار کو کوئی مجروح کرے۔ کبھی ایسا کوئی موقع آتا تھا (اور سیاست میں ایسی باتیں کہاں نہیں ہوتیں) تو وہ ہرگز خاموش نہیں رہتی تھیں، جناح کے وقار کے تحفّظ کے لیے وہ جو کچھ کرسکتی تھیں، ضرور کرتیں۔ وہ محمّد علی جناح کا حوصلہ بھی بڑھاتیں (باوجود اِس کے کہ جناح پست ہمّت ہونے والےکہاں تھے) کبھی اخبارات میں مراسلے لکھ کر، تو کبھی برملا اپنے جذبات کا اظہار کر کے۔ 

جیسا کہ کانگریس کے ایک جلسے میں جب جناح نےگاندھی کی انتہا پسندانہ پالیسی کے خلاف مدلّل تقریر کی، تو گاندھی کے ہندو مدّاحوں نے اُن کے خلاف نعرے بازی شروع کر دی۔ رتی جلسے میں موجود تھیں۔ انھوں نے موقعےہی پر اپنے نیشنلسٹ شوہر کے موقف کی پُرزور تائید کی۔ بعد میں بھی یقیناً انھوں نےجناح کا حوصلہ بڑھایا ہوگا۔ کیوں کہ وہ پہلے بھی ایسا کرچُکی تھیں۔ اُس وقت جب رتی اور جناح ٹرین میں سفر کررہے تھے اور اگلے کسی ڈبّے میں خلافت تحریک کےمولانا شوکت علی بھی موجود تھے۔ ٹرین کسی اسٹیشن پر رُکی تو مولانا نے غالباً اس لیےکہ جناح خلافت تحریک کے حق میں نہ تھے، اپنے مدّاحوں کو اُن کےخلاف نعرےبازی پہ اُکسایا۔ 

رتی نے اس روّیے کے خلاف ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ میں مراسلہ لکھا۔ جس میں مولانا شوکت علی کو مخاطب کر کے لکھا کہ ’’جناب والا! آپ کا یہ روّیہ عدم تعاون کی روح کی نفی ہے اور یہ عدم تشدّد کا بھی انکار ہے‘‘۔ اُن کا اشارہ دراصل مولانا محمّد علی، مولانا شوکت علی اور گاندھی جی کےتحریک خلافت میں اُس اتحاد و اتفاق کی طرف تھا، جس کی رُو سے گاندھی جی اس تحریک کو عدم تعاون اور عدم تشدد کےاصولوں پراستوار کررہےتھے اور چوراچوری کے واقعے میں اِسی عدم تشدّد کے فلسفے کی آڑ لے کر انھوں نے تحریک خلافت کےخاتمے کا اعلان کر دیا کہ ’’چوراچوری میں پولیس اسٹیشن کا نذر آتش کرنا اور اتنے سپاہیوں کا جل مرنا بتاتا ہے کہ تحریک میں تشدد کا عُنصر شامل ہوگیا ہے، لہٰذا تحریک ختم کی جاتی ہے‘‘۔ محمّد علی جناح کی شخصیت کو زیر بحث لاتے ہوئے جب یہ نکتہ آتا ہے کہ جناح نیشنلسٹ سے کمیونسٹ (قوم پرست سے فرقہ پرست) کیسے ہوگئےتو یہ دُور کی کوڑی لائی جاتی ہے اور کہا جاتاہے کہ رتی، جو خود بھی قوم پرست تھیں، اگر وہ جیتی رہتیں تو ہرگز اپنے شوہر کو فرقہ پرست نہ ہونے دیتیں۔

اتنی احمقانہ خیال آرائی وہی کرسکتا ہے، جو محمّد علی جناح سے واقف نہ ہو اور اس پہ بھی غور کرنے کے لیے تیار نہ ہو کہ جناح کے خیالات میں تبدیلی آئی تو اس کا ذمّےدار کوئی اور نہیں، کانگریس کی ہندو قیادت کا مسلم دشمن روّیہ تھا، جو کسی سےڈھکا چُھپا بھی نہیں تھا۔ انسانی زندگی میں مذہب کی اہمیت کےقائل ہونےکےبعد بھی اگرجناح نے کانگریس کا ساتھ نہیں چھوڑا، تو وجہ یہی تھی کہ تب تک ہندو مسلم تنازعے کا حل اُن کے نزدیک یہی تھا کہ کانگریس کی ہندو قیادت مسلمانوں کے حقوق و مراعات کے معاملےمیں اپنا روّیہ تبدیل کرے۔ لکھنؤ پیکٹ بھی محمّد علی جناح ہی کی کوشش سے ممکن ہوا، جس میں پہلی بار کانگریس نے مسلمانوں کےمطالبات تسلیم کیےاورجس کےاعتراف میں سروجنی نائیڈو نے اُنھیں ’’ہندو، مسلم اتحاد کا سفیر‘‘ کہا اور اِسی عنوان سے محمّد علی جناح پر کتاب بھی مرتّب کی۔

اگلے مرحلے میں جناح واحد سیاست دان تھے، جو بیک وقت کانگریس اور مسلم لیگ کے ممبر تھے۔ مسلم لیگ کی رکنیت لیتے ہوئے انھوں نے یہی شرط رکھی تھی کہ اس سے اُن کی کانگریس سے وابستگی متاثر نہیں ہوگی۔ اور مسلم لیگ کے رہنمائوں کے اس شرط پر آمادہ ہونے کے بعد ہی وہ مسلم لیگ کے رکن بنے۔ یقیناً اُن کے ذہن میں ایک ہی وقت میں دو کشتیوں پر سوار ہونے کی غرض یہی رہی ہوگی کہ اس طرح وہ دونوں قوموں، ہندوئوں اور مسلمانوں کو قریب لاسکیں گے اور ان کے اختلافات و تنازعات کو طے کروانے میں ثالثی کا کردار ادا کریں گے۔ اب اگر ایسا نہیں ہوسکا تو یہ کانگریسی نیتائوں سے سوال کیا جانا چاہیے تھا اور تاریخ کے صفحات کامطالعہ کرنا چاہیے کہ جناح کی اس کوشش کو ناکام کس نے بنایا۔ 

نیک نیّت اور بیک وقت کانگریسی ہندو قیادت اور مسلم لیگی قیادت سے ہم دردی رکھنے والے محمّد علی جناح کو کس نے دھکیل کر دیوار سے لگایا اور مجبور کیا کہ وہ خالص مسلم عینک ہی سے ہندو مسلم جھگڑے کاحل تلاش کریں۔ اس بحث یا تنازعے میں رتی کی قوم پرستی کہاں موضوعِ بحث بنتی ہے۔ اس طرح تو یہ بھی دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ تاریخ کےجس موڑیاجس جبر کےتحت جناح ’’فرقہ پرست‘‘ بنے یا بنائے گئے، رتی ہوتیں تو وہ بھی بدل جاتیں، اُن کا نقطۂ نظر بھی جناح کی طرح تبدیل ہوجاتا۔ آخر وہ اکیلےتو نہیں تھے، جو قوم پرست ہندوئوں یا دیگر محقّقین کے نزدیک قوم پرستی سے فرقہ پرستی کی طرف آئے۔ ابتدا میں تو مسلمانوں کے تین بڑے رہنما بھی قوم پرست ہی تھے۔ 

کیا سرسیّد قوم پرست نہیں تھے، جنھوں نے کہا تھا کہ ’’ہندوستان ایک دلہن کی مانند ہے، جس کی ایک آنکھ ہندو اور دوسری آنکھ مسلمان ہے، اگر ایک آنکھ کو بھی نقصان پہنچا، تو یہ دلہن بھینگی ہو جائے گی‘‘۔ کیا مولانا محمّد علی قوم پرست نہیں تھے، جنھوں نےآنکھ بندکرکے گاندھی جی کو تحریک خلافت کی قیادت سونپ دی تھی اور اپنی تمام تر مقبولیت اورہردل عزیزی کے باوجود اُن کے پیچھے چلنے والے بن گئے تھے۔ یہاں تک کہ اِسی تحریک کے دوران ایک موقعے پر انھوں نے کافر گاندھی کو دلّی کی جامع مسجد کے منبر پہ لا کے بٹھا دیا تھا کہ نمازیوں سے مخاطب ہوں۔ اور…یہ علّامہ اقبال کی خالص ہندوستان پرستانہ شاعری کیا ہے، کیا یہ بھی قوم پرستی نہیں ؎ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا۔ جسے وزیراعظم جواہر لال نہرو آزادی کے بعد سیکولر بھارت کا قومی ترانہ بنانا چاہتے تھے، مگر متعصّب ہندوئوں کی مزاحمت کی وجہ سے نہ بناسکے۔ یہ تینوں رہنما جن کا ذکر ہوا، کیوں قوم پرستی سےمایوس ہوئے، اوربالآخر مجبور ہو کے، ہندوئوں سے اتحاد و اتفاق کا رستہ نہ پا کے ’’فرقہ پرست‘‘ کہلائے۔ ذرا اس پہلو پہ بھی تو سوچنا چاہیے، اُن دانش وروں کوجن کی سوچ قوم پرستی سے کسی صُورت آگے بڑھنے کوتیار ہی نہیں۔ (جاری ہے)

تازہ ترین